جگہ جگہ پیوند لگے کپڑوں، زخمی پیروں اور دھول اور مٹی سے اٹی پریشان حال بڑھیا منت سماجت کرتی‘ گرتی پڑتی کسی نہ کسی طرح سلطان محمود غزنوی کے دربار میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ شاہی دربار میں بہت سے فریادی جمع تھے۔ لگتا تھا کہ اس بڑھیا کو اپنی بپتا سنانے کا آج موقع نہیں مل سکے گا۔ جب کافی وقت گزر گیا تو پریشان حال بڑھیا عورت نے پوری طاقت جمع کرتے ہوئے بادشاہ کو اپنی جانب متوجہ کرنے کیلئے بلند آواز سے پکارا۔ اس کی آواز میں نجانے کیا اثر اور کیا طاقت تھی کہ پورا دربار اس عورت کی جانب متوجہ ہو گیا۔ بڑھیا کی اس گستاخی پر شاہی فوج کے سپاہی اس کی جانب لپکے۔ ایک افسر نے جیسے ہی بڑھیا کو ایک جانب لے جانے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو وہ پہلے سے بھی بلند لیکن انتہائی رندھی ہوئی آواز سے بولی: محمود کون ہے‘ بادشاہ کون ہے؟ محمود غزنوی نے یہ سب کچھ سنا تو اپنے تخت سے اٹھا اور فوجیوں کو اشارہ کیا کہ اس بڑھیا کو میرے پاس لے کر آئو۔ بڑھیا کی حالت دیکھ کر محمود غزنوی نے سمجھا کہ شاید یہ مالی مدد کے لیے دربار میں آئی ہے، اس نے ایک وزیر کو حکم دیا کہ اس عورت کو اچھی طرح سے رخصت کرنا۔ بڑھیا نے بادشاہ کا حکم سن کر کہا: میں کسی انعام یا دولت کے لالچ میں نہیں آئی بلکہ میں اس لیے تمہارے دربار میں حاضر ہوئی ہوں تاکہ تم تک اپنی فریاد پہنچا سکوں۔ کچھ دن قبل میرے گائوں میں ڈاکوئوں نے حملہ کیا تھا اور اس دوران میرے بیٹے کو ڈاکوئوں نے قتل کر دیا ہے۔ میں یہاں آئی ہوں کہ مجھے انصاف فراہم کیا جائے۔
سلطان محمد غزنوی نے بوڑھی عورت سے پوچھا کہ تم کہاں سے آئی ہو اور کس علاقے کی رہنے والی ہو؟ اس عورت نے جب متعلقہ جگہ کا نام بتایا تو سلطان محمود غزنوی نے کہا: اے بزرگ خاتون! جس جگہ کا تم بتا رہی ہو‘ وہ بہت دور دراز کا علاقہ ہے‘ وہاں قاتلوں کی تلاش اور ان کی گرفتاری بہت مشکل کام ہے۔ اس پر وہ بو ڑھی عورت سیخ پا ہو گئی اور بھرے دربار میں سلطان سے مخاطب ہو کر بولی: اگر میں اکیلی اور نہتی اپنے بیٹے کے قتل کی فریاد کیلئے وہاں سے سلطان کے دربار تک آ سکتی ہوں تو تم جو اتنی فوج رکھتے ہو‘ تمہیں ان دور دارز علا قوں میں ڈاکوئوں اور قاتلوں کو گرفتار کرنے میں کس دشواری کا سامنا ہو سکتا ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت میں دندنانے والے ڈاکوئوں تک نہیں پہنچ سکتے تو پھر تم نے اس علاقے کو اپنی سلطنت کی حدود میں کیوں شامل کر رکھا ہے؟ وہاں تک اپنی ریاست کیوں پھیلا رکھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی حدود میں امن و امان قائم نہیں رکھ سکتے‘ اپنی رعایا کے جان و مال کی حفاظت کیلئے تم دور دراز جگہوں پر نہیں جا سکتے تو اپنی ریاست کی حدود وہیں تک محدود رکھو جہاں تمہارے قدم آسانی سے پہنچ سکیں۔ یہ سن کر پورے دربار میں سناٹا چھا گیا۔
بوڑھی عورت نے اپنی پوٹلی سمیٹتے ہوئے کہا: ایک بات یاد رکھنا‘ اگر زمینی مسافت کی دوری اور دشوار گزار راستوں کی مشکلات پر تم نے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنا شروع کر دی تو بہت جلد وہ وقت بھی آ جائے گا جب تمہیں اپنے ہاتھ اس تاج شاہی کے اندر لگے ہوئے ہیرے جواہرات کی حفاظت کیلئے اٹھانے بھی مشکل ہو جائیں گے۔ اگر تمہاری حکومت کی فوج اور انتظامیہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تو بہتر ہے کہ وہ علا قہ اپنی سلطنت کی حدود سے نکال دو تاکہ کوئی ایسا شخص وہاں کا حاکم بن جا ئے جس کی فوج اور انتظامیہ کیلئے وہ علا قہ دور دراز نہ ہو، جہاں اس کی مکمل عملداری ہو، جہاں اسے ڈاکوئوں اور لٹیروں کی سرکوبی کیلئے کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ ہو اور جو وہاں کے لوگوں کو آسانی سے ا نصاف فراہم کر سکے۔ بڑھیا کے تند و تیز سوالوں کے سبب سلطان غزنوی کے پورے دربار میں سکوت طاری تھا۔ سلطان اپنی جگہ ساکت بیٹھا بڑھیا کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ دربارِ شاہی کے اہلکاروں کی گرفت اپنی تلواریں کے دستوں پر مضبوط ہو گئی تھی اور وہ اس انتظار میں تھے کہ ابھی اس بڑھیا کی بے ادبی پر اس کے خلاف سلطان کا حکم ملا کہ ملا۔ سلطان محمود غزنوی یکلخت تخت سے اٹھا، اپنی تلوار نکالی اور بڑھیا کے بیٹے کے قاتلوں کی گرفتار ی کیلئے ایک فوجی دستے کو فوری کوچ کا حکم دیا۔
آج وہ بڑھیا تو نہیں لیکن ماڈل ٹائون میں قتل ہونے والی تنزیلہ کی بارہ سالہ بیٹی بسمہ امجد پاکستان بھر میں ایک دربار سے دوسرے دربار تک انصاف کے لیے دھکے کھاتی پھر رہی ہے۔ وہ ننگے پائوں تو نہیں لیکن پھر بھی چل چل کر اس کے پائوں اور رو رو کر اس کی آنکھیں سوج چکی ہیں۔ بسمہ کی فریاد سننے والا ہر اہلکار‘ ہر افسر یہی کہے جا رہا ہے کہ ہمارے لئے وہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہے، ہمارے پاس نہ تو ہمت اور نہ ہی طاقت ہے کہ '' وہاں تک‘‘ پہنچ سکیں۔ وہ اربابِ بست و کشاد کے دربار کی سیڑھیوں پر کئی کئی گھنٹے بیٹھی رہتی ہے۔ اسے ایک زمانے نے دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے دیکھا تھا لیکن کوئی ایک بھی سلطان محمود غزنوی نہ بن سکا۔ سب خوفزدہ ہو گئے، کسی کی سانس رکنے لگی تو کسی کے ہاتھ پائوں شل ہو گئے۔ اب بسمہ اپنے ملنے والوں سے‘ دلاسہ دینے والوں سے یہی پوچھتی ہے'' کیا ماڈل ٹائون آج کے حاکموں اور آئین کی قسم کھانے والوں کی حدود سے باہر ہے؟‘‘
یاد آتا ہے کہ کہ لاہور میں عدالت کے باہر فرزانہ نامی کی ایک بدنصیب بیٹی کو اس کے اہل خانہ نے اینٹیں مار مار کر قتل کیا تو دوسرے ہی لمحے وائٹ ہائوس سے امریکی صدر کے ترجمان کا ذمہ داروں کو سخت سزا دینے کا بیان آ گیا لیکن جب وزیراعلیٰ ہائوس سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک حاملہ عورت اور اس کی نند کر گولیوں کا مینہ برسا کر شہید کیا گیا تو دنیا بھر کی تمام مہذب قومیں اور انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں خاموش رہیں۔ مختاراں مائی کیس پر پورا یورپ‘ امریکا اور جاپان سمیت کئی دوسرے ممالک مظفر گڑھ کی جانب چڑھ دوڑے تھے لیکن ایک معصوم جان کو، چند ماہ بعد اس دنیا میں آنے والی بچی کو ماں کے پیٹ میں ہی سفاکیت سے اڑا دیا گیا اور کہیں کوئی ارتعاش بھی برپا نہیں ہوا۔
اسلام آباد پولیس کے ایک ہیڈ کانسٹیبل کو تو وزیراعظم ہائوس میں بلا کر ہمت افزائی کر دی جاتی ہے کہ وہ بازو فریکچر ہونے کے باوجود تیسرے دن ڈیوٹی پر آ گیا لیکن وہ جو چودہ قتل ہوئے‘ ان کی روحوں کو انصاف دینے کے لیے کوئی ڈیوٹی پر کیوں نہیں آ رہا؟ یہ حکمرانوں کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے کہ اس وطن عزیز کے ہر شہری کو‘ چاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقے یا مذہب سے ہو‘ مکمل انصاف دیا جائے، لیکن سات سال گزر چکے ہیں‘ ماڈل ٹائوں کے مقتولوں کیلئے انصاف کے دروازے تاحال بند ہیں۔ اس ملک کے آئین، اس کے قانون پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ پھر آپ حکومت کیوں کرتے ہیں؟ اگر آپ میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ سات برسوں سے روتی بلکتی بسمہ کے سر پر ہاتھ رکھ سکیں تو پھر انصاف کی بات کیوں کرتے ہیں؟ ہمارے حاکم شاید اس روز گاڑیاں توڑنے والے گلو بٹ کو سزا دینے کے بعد مطمئن ہو چکے ہیں حالانکہ ان گاڑیوں سے مقتولوں کے لواحقین کو انصاف دینا زیادہ ضروری ہے۔
پنجاب اور مرکز کے حاکموں سے درخواست ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ کیا منہاج القران ماڈل ٹائون لاہور‘ پنجاب اور پاکستان کی حدود میں شامل نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیمرے کی آنکھوں کے سامنے قتل ہوئے چودہ مظلوموں کے لواحقین کو انصاف کیوں نہیں دیا جاتا؟ کیوں سلطان محمود غزنوی کی طرح فوجی دستے کو فوری کوچ کا حکم نہیں دیا جاتا؟