"MABC" (space) message & send to 7575

مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ اور حقائق کا جائزہ

''مسلم لیگ نواز کو پنجاب کے ضمنی انتخابات میں شکست نہیں ہوئی بلکہ یہ تو پاکستان تحریک انصاف کی جیتی ہوئی نشستیں تھیں‘ لہٰذا نواز لیگ کی مقبولیت کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ مسلم لیگ نواز نے تو پی ٹی آئی کی پانچ نشستوں پر فتح حاصل کی ہے‘‘۔ یہ ہے وہ بیانیہ جو نواز لیگ کا میڈیا سیل مسلسل سنائے جا رہا ہے۔ سچ کیا ہے‘ اس کیلئے حقائق کا جائزہ ملاحظہ کیجئے۔ پنجاب اسمبلی کی بیس نشستوں پر ہونے والے انتخابات کا گزشتہ عام انتخابات کے نتائج سے موازنہ کیا گیا ہے تاکہ درست صورتحال سامنے آ سکے۔
اگر بات کریں PP7 راولپنڈی کی تو 2018ء کے عام انتخابات میں یہاں تین بڑے امیدواروں میں جوڑ پڑا تھا اور آزاد امیدوار راجہ صغیر احمد 44287 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز نے 42382 اور تحریک انصاف نے 40332 ووٹ حاصل کیے تھے۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں راجہ صغیر احمد نے‘ اب تک کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق 68906 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے بالکل نئے امیدوار کرنل (ر) شبیر اعوان 68857 ووٹ حاصل کر سکے۔ اس حلقے کا انتخاب تاحال متنازع ہے اور اس کے خلاف اپیل کی گئی ہے۔ اب تک کی صورتحال کے مطابق مسلم لیگ نواز کے راجہ صغیر کو 49 ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ البتہ دیکھا جائے تو 2018ء کے الیکشن کے مطابق مسلم لیگ نواز کے امیدوار کو کم از کم 86 ہزار ووٹ حاصل کرنا چاہئیں تھے لیکن وہ 69 ہزار سے بھی کم ووٹ لے سکے جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے ووٹ 40 ہزار سے بڑھ کر 68 ہزار تک جا پہنچے جو عمران خان اور ان کے بیانیے کی مقبولیت کی گواہی دے رہے ہیں۔
PP83 خوشاب کا جائزہ لیا جائے تو 2018ء کے انتخابات میں آزاد امیدوار نے 68959 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز نے 47684 اور تحریک انصاف نے صرف 8517 ووٹ حاصل کیے تھے جو تحریک لبیک کے امیدوارسے بھی کم تھے۔ اب17 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان تحریک انصاف نے 50749 ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں آزاد امیدوار دوسرے نمبر اور نواز لیگ کا امیدوار تیسرے نمبر پر رہا۔ اس حلقے میں پی ٹی آئی کے ووٹ ساڑھے آٹھ ہزار سے بڑھ کر ساڑھے پچاس ہزار تک جا پہنچے۔
PP90 بھکر کی بات کی جائے تو 2018ء کے الیکشن میں آزاد امیدوارنے 59350 ووٹ لیے جبکہ نون لیگ نے44915 ووٹ لیے اور تحریک انصاف صرف 12994 ووٹ لے سکی۔ اس بار مسلم لیگ نواز نے سعید نوانی‘ جو آزاد حیثیت سے جیتے تھے‘ کو اپنا امیدوار بنایا جو 17 جولائی کو 66513 ووٹ لے سکے اور ان کو شکست دینے والے پی ٹی آئی کے امیدوار نے 77865 ووٹ لیے۔ واضح رہے کہ نوانی خاندان 1985ء سے اس حلقے میں کوئی انتخاب نہیں ہارا تھا۔ اس سے عمران خان کی مقبولیت کے گراف کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
PP97 فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے علی افضل ساہی نے 67722 ووٹ حاصل کیے اور مسلم لیگ نواز کے اجمل چیمہ 54266 ووٹ لے سکے جبکہ 2018ء میں نواز لیگ نے یہاں سے 35298 اور تحریک انصاف نے 37932 ووٹ لیے تھے جبکہ اب نواز لیگ کے امیدوار اجمل چیمہ 42273 ووٹ لے کر بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔
PP125 جھنگ میں 2018ء کے انتخابات میں آزاد امیدوار‘ جو اب نون لیگ کے امیدوار تھے‘ نے 50913 ووٹ جبکہ تحریک انصاف نے 38461 ووٹ حاصل کیے تھے لیکن 17 جولائی کے الیکشن میں پی ٹی آئی82297 ووٹوں سے کامیاب ہوئی اور نون لیگ 52277ووٹ لے سکی۔
PP127 جھنگ سے آزاد امیدوار نے 2018ء کے انتخابات میں 27399 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ پی ٹی آئی 26609 ووٹ لے پائی تھی لیکن اب اسی منحرف رکن نے نون لیگ کے ٹکٹ پر 47413 جبکہ پی ٹی آئی نے 71648 ووٹ حاصل کر کے 24 ہزار کے بڑے مارجن سے کامیابی سمیٹی ہے۔
PP140 شیخوپورہ سے 2018ء میں پی ٹی آئی 32862 جبکہ نون لیگ 26029 ووٹ لے سکی تھی۔ اب منحرف رکن نون لیگ کی ٹکٹ پر 32105 ووٹ لے سکے جبکہ پی ٹی آئی 50166 ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہے۔
PP158 لاہور کی بات کریں تو 2018ء میں یہاں سے عبدالعلیم خان 52299 اور ان کے مقابل نون لیگ کے رانا احسن 45228 ووٹ لے پائے تھے۔ اب پی ٹی آئی کے اکرم عثمان نے عبدالعلیم خان اور نون لیگ کے مشترکہ امیدوار احسن شرافت کو 32 ہزار کے مقابلے میں 37 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔
PP167 لاہور سے پی ٹی آئی نے 2018ء میں 40704 ووٹ جبکہ نون لیگ نے 38463 ووٹ حاصل کیے تھے۔ سترہ جولائی کو منحرف رکن نذیر چوہان نون لیگ کے ٹکٹ پر اس حلقے سے 26 ہزار جبکہ ان کے مقابل پی ٹی آئی کے شبیر گجر 40511 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔
PP168 لاہور سے پہلے نون لیگ کے خواجہ سعد رفیق نے 34 ہزار جبکہ پی ٹی آئی نے 15 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ پھر اس حلقے میں سعد رفیق کی جانب سے صوبائی نشست چھوڑنے پر ضمنی الیکشن ہوا جس میں پی ٹی آئی کے امیدوار اسد کھوکھر نے کامیابی سمیٹی لیکن پھر اسد کھوکھر منحرف ہو گئے۔ اب سترہ جولائی کو وہ نون لیگ کے ٹکٹ پر پی ٹی آئی کو گیارہ ہزار ووٹوں کی لیڈ سے شکست دے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ (اس حلقے میں پی ٹی آئی کا امیدوار اتنا مضبوط نہیں تھا اور موجودہ نتائج ہی متوقع تھے)۔
PP170 لاہور سے پی ٹی آئی سترہ جولائی کو 24688 ووٹ اور نون لیگ 17519 ووٹ لے سکی تھی جبکہ اسی حلقۂ انتخاب سے 2018ء میں نون لیگ 20730 لی پائی تھی جبکہ پی ٹی آئی نے 25180 ووٹ لے کر کامیابی سمیٹی تھی۔
PP202 ساہیوال‘ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے نعمان لنگڑیال نے 57190 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ نون لیگ نے 44 ہزار ووٹ لیے تھے۔ اب منحرف رکن نواز لیگ کے ٹکٹ پر 59 ہزار جبکہ پی ٹی آئی کے میجر (ر) غلام سرور 62 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ عمران خان کا ووٹ بینک اس حلقے میں واضح طور پر بڑھا ہے جبکہ نون لیگ اور منحرف رکن کا ذاتی ووٹ بینک کم ہوا ہے۔
PP217 ملتان سے آزاد امیدوار سلمان نعیم نے 2018ء میں شاہ محمود قریشی کو 31 ہزار ووٹوں کے مقابلے میں 35 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی جبکہ سترہ جولائی کو شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی نے 47 ہزار ووٹ جبکہ منحرف رکن سلمان نعیم نے 40 ہزار ووٹ حاصل کیے۔
PP224 لودھراں سے پی ٹی آئی نے 2018ء میں 60482 اور نون لیگ نے48211 ووٹ حاصل کیے تھے۔ منحرف رکن نے یہاں سے 17 جولائی کو 56 ہزار جبکہ پی ٹی آئی نے 69881 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ واضح رہے کہ یہ جہانگیر ترین کا حلقۂ انتخاب ہے۔
PP228 لودھراں سے پی ٹی آئی نے پہلے 43 ہزار اور نواز لیگ نے 39731 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ اب آزاد امیدوار رفیع الدین 45020 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی 38338 ووٹ حاصل کر سکی جبکہ نواز لیگ تیسرے نمبر پر رہی۔
PP272 مظفر گڑھ سے 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے 27752 اور نواز لیگ 18853 ووٹ حاصل کیے تھے۔ اب تحریک انصاف نے 49069 ووٹ لے کر کامیابی سمیٹی ہے جبکہ نون لیگ 36 ہزار ووٹ لے سکی۔
PP273 سے تحریک انصاف نے 36 ہزار جبکہ نون لیگ نے 24 ہزار ووٹ لیے تھے۔ اس حلقے سے دونوں جماعتوں کے ووٹ بڑھے ہیں۔ اب نون لیگ نے 59679 ووٹ جبکہ تحریک انصاف نے51232 ووٹ لیے۔ (یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے شکایات موصول ہونے پر جب شہباز گل وہاں گئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا)۔
PP282 لیہ سے 2018ء میں آزاد امیدوار نے37607 لے کر کامیابی سمیٹی تھی جبکہ تحریک انصاف 26992 ووٹ لے سکی تھی۔ آزاد امیدوار طاہر رندھاوا پی ٹی آئی شامل ہوئے اور پھر منحرف ہو کر نون لیگ میں چلے گئے۔ اب تحریک انصاف کے قیصر مگسی نے 43922 ووٹ لے کر نواز لیگ کے امیدوار طاہر رندھاوا کو شکست دی جو 29715 ووٹ حاصل کر سکے۔
PP288 ڈیرہ غازی خان سے آزاد امیدوار 39396 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ تحریک انصاف نے 30132 ووٹ حاصل کیے تھے لیکن 17 جولائی کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے یہاں سے 58166 ووٹ حاصل کیے جبکہ نواز لیگ نے 32212 ووٹ لے کر پی ٹی آئی سے شکست کھائی۔
ان حقائق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی یہ تمام نہیں بلکہ دس نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی جبکہ دس آزاد امیدوار الیکشن جیت کر پی ٹی آئی کے قافلے میں شامل ہوئے تھے۔ اس طرح پی ٹی آئی نے لاہور میں اپنی ایک سیٹ گنوانے کے باوجود 5 مزید سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ دوسری جانب جن حلقوں میں پی ٹی آئی ہاری ہے‘ وہاں بھی اس کے ووٹ بینک میں گزشتہ عام انتخابات کی نسبت خاصا اضافہ ہوا ہے اور اس تناظر میں دیکھا جائے تو اگلے عام انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ نواز کے لیے خطرے کے گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں