"MABC" (space) message & send to 7575

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

عمران خان کی طرح‘ میانوالی کے نیازی قبیلے سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر منیر نیازی کی نظم کا ایک مصرع ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘ آج کل پی ٹی آئی کے جانثاروں اور بے لوث کارکنوں کی زبانوں پہ نجانے کیوں مچل رہا ہے۔ منیر نیازی مرحوم و مغفور کے بقول‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان بھی ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ خان صاحب کے پاس اس کا کوئی جواز ہو لیکن ان کے پُرجوش ساتھی لانگ مارچ کا انتظار کرتے کرتے اب کچھ مایوس نظر آنے لگے ہیں۔ گو کہ عمران خان کے طرزِ سیاست پر طرح طرح کے اعتراضات کیے جاتے ہیں مگر اب ایک نئی بات سننے کو مل رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ خان صاحب نے پنجاب کے اپنے جلسوں میں تین‘ چار مرتبہ اپنے قتل کی مبینہ سازش کے حوالے سے اپنی ریکارڈ کردہ وڈیو اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی اپیل تو کی ہے لیکن نجانے کیا وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں انہوں نے ایک مرتبہ بھی اس سازش اور وڈیو کا ذکر نہیں کیا۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ خان صاحب کے پی کے کسی جلسے میں اگر اس سازش اور وڈیو کا ذکر کرتے تو شاید عوامی ردعمل مختلف ہوتا۔
جولائی‘ اگست اور ستمبر میں اتحادی حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں میں جو بے تحاشا اضافہ کیا گیا اور جس طرح عوام پر ناروا بوجھ لادا گیا اور جیسے کمر توڑ مہنگائی نے حکومت کے خلاف عوام میں غم و غصہ پیدا کیا تھا‘ اس کی تپش محسوس کرتے ہوئے عمران خان اگر ستمبر کے شروع ہی میں لانگ مارچ کی کال دے دیتے تو حالات وہ ہوتے جس کا وفاقی حکومت کو تو اندازہ ہو چکا تھا اور جو اس کی گھبراہٹ سے بھی واضح تھا مگر نجانے پی ٹی آئی کیوں اس کا ادراک نہ کر سکی۔ نجانے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے خان صاحب کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر پُرجوش نوجوانوں کے جم غفیر کو مارچ سے روکے رکھا۔ کہتے ہیں کہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آیا کرتا مگر شاید پی ٹی آئی کے فیصلہ سازوں کو اس کا ادراک نہیں ہے۔ جس طرح بار بار تحریک کا اعلان کر کے اسے مؤخر کیا گیا ہے‘ اس طرزِ سیاست نے نوجوانوں کو مایوس کیا ہے اور ایسے اعلانات سے سوائے حکومت اور اس کے ہمدردوں کے‘ کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ لگتا ہے کہ مخصوص حلقے ''کیرٹ اینڈ سٹک‘‘ کی پالیسی سے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ایک اچھی سیاسی جماعت وہ ہوتی ہے جو عوام کی نبض شناس ہوتی ہے۔ اس وقت عوام اُس حکومت سے تنگ آ چکے ہیں جس نے پانچ‘ ساڑھے پانچ ماہ کے عرصے میں ہی ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ کسان اسلام آباد کا گھیرائو کیے ہوئے اور دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد پولیس کے وہ افسران‘ جو اپوزیشن رہنمائوں کو پانچ افراد اکٹھے کرنے پر بھی مقدمات سے ڈرایا کرتے تھے‘ اب دم سادھے ہوئے ہیں۔ تاجر تنظیمیں الگ سے احتجاجی پروگرام تشکیل دے رہی ہیں۔ ٹرانسپورٹرز بھی دوبارہ احتجاج اور ہڑتال کا سوچ رہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 85 ڈالر فی بیرل کے قریب پہنچ چکی ہیں مگر عوام سے وہی نرخ وصول کیے جا رہے ہیں جو 125 ڈالر فی بیرل کے وقت طے کیے گئے تھے۔ ایک خبر کے مطابق فی لٹر پٹرول پر حکومت 63 روپے جبکہ ڈیزل پر 21 روپے سے زائد اضافی وصول کر رہی ہے۔ شدید مہنگائی اور سیلاب کے مارے عوام فی لٹر پٹرول پرساڑھے 37 روپے لیوی اور لگ بھگ ساڑھے 15 روپے دیگر مارجنز اور ٹیکسز کی شکل میں ادا کر رہے ہیں۔ بعض ذمہ داران کے مطابق اس وقت پٹرول کی قیمتِ خرید 172 روپے فی لٹر ہے جو عوام کو 236روپے میں مل رہا ہے۔ حکومت محض پٹرول پر یومیہ 1 ارب 89 کروڑ جبکہ ڈیزل پر یومیہ 63 کروڑ روپے سے زائد کما رہی ہے۔ پچھلی بار پٹرول کم از کم 10 جبکہ ڈیزل کم از کم 4 روپے فی لٹر سستا ہونا چاہیے تھا مگر حکومت یہ ریلیف روک کر عوام سے یومیہ 42 کروڑ روپے اضافی وصول کر رہی ہے۔ عالمی مارکیٹ کے نرخوں کے حساب سے دیکھا جائے تو اس وقت پٹرول کو کم از کم 25 روپے سستا ہونا چاہیے مگر حکومت اس ریلیف کو کم سے کم کرنے پر مصر ہے۔ شنید ہے کہ دس‘ بارہ روپے کمی کر کے حاتم طائی کی قبر پرلات مارنے کی تیاری ہو چکی ہے۔ اس وقت کوئی ایسی سیاسی جماعت نظر نہیں آ رہی جو عوامی مفاد کے ان ایشوز کو اٹھا سکے۔ قومی اسمبلی کی ''فرینڈلی اپوزیشن ‘‘ سے تو کسی امید کا وابستہ کرنا بھی عبث ہے‘ تحریک انصاف کیوں جمود کا شکار نظر آ رہی ہے؟ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں تحریک انصاف میں جس قسم کی نئی تنظیم سازی کی گئی ہے وہ خاصی مضحکہ خیز ہے۔ ایک ماہ پہلے تک جن کے پاس پارٹی کی بنیادی رکنیت تک نہیں تھی‘ انہیں بڑے عہدے دے دیے گئے ہیں۔ شاید کچھ لوگ اسی طرح پی ٹی آئی کو اندرونی طور پرکمزور کرنا چاہتے ہیں۔ سیا ست میں وقت کی اہمیت نہ سمجھنے والے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت دوبارہ قائم ہونے کے بعد ہی پنجاب اورکے پی کے نو جوان ہی نہیں بلکہ ستر برس تک کی عمر کے بوڑھے افراد بھی عمران خان کے ساتھ نکلنے کیلئے پُرجوش اور آمادہ دکھائی دیتے تھے۔ ان کے عزم اور جوش سے لگتا تھا کہ ان کا جذبہ پہاڑوں سے بھی ٹکرا جائے گا۔ جب بوڑھی خواتین اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو بھی جبر کے خلاف تحریک کا حصہ بنانے پر آمادہ تھیں تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف کس کے انتظار میں کھڑی رہی؟ وہ کون سی امید‘ وہ کون سا اشارہ تھا جس نے پی ٹی آئی کو روکے رکھا؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید یہ پہلی دفعہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف نیچ حربوں، گردن توڑ مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی صورت میں عوام پر بم گرانے والے حکمرانوں سے ٹکرانے کیلئے عوام تو تیار تھے لیکن انہیں اپنے ساتھ لے کر چلنے والے سوچ بچار میں وقت ضائع کر بیٹھے۔
ایک لمحے کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ عمران خان کے مدمقابل صرف تیرہ جماعتی اتحاد ہی نہیں بلکہ کچھ غیر ملکی طاقتوں کے ایکس‘ وائے‘ زیڈ بھی پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہیں‘ اس لیے خان صاحب کو اپنا ہر قدم احتیاط سے اٹھانا چاہئے۔ یہ بھی درست کہ اکھاڑے میں اپنے مقابل پہلوان سے زور آزمائی کرنے والا پہلوان ہی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس نے کس وقت کون سا دائو استعمال کرنا ہے۔ جب ایک پہلوان دوسرے سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے کچھ لمحے گزار لیتا ہے تو اسے اپنے حریف کی طاقت اور اس کے دائو پیچ کا کچھ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے میں باہر بیٹھے ہوئے ماہرین اور پُرجوش ساتھی اسے کبھی یہ تو کبھی وہ دائو لگانے کے مشورے دیتے ہیں۔ اکھاڑے میں مخالف کے دائو پیچ سے نمٹنے والا سب کی سن رہا ہوتا ہے مگر وہ وہی کچھ کرتا ہے جو اسے موقع کی مناسبت سے درست معلوم ہوتا ہے۔ شاید عمران خان کی بھی اس وقت یہی کیفیت ہے۔ اگر حکومت کے خلاف عوامی غیظ و غضب کی بات کریں تو ہم نے عمران خان کے جلسوں کی کوریج کرتے ہوئے جلسہ گاہ سے باہر موجود لوگوں سے بات چیت کرنے کے بعد یہی محسوس کیا کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ لانگ مارچ میں شرکت کے لیے تیار ہیں۔ یقینا یہ جذبات خان صاحب اور پی ٹی آئی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہوں گے‘ پھر یہ دیر کیوں؟ اس وقت ہر کوئی یہی سوال پوچھ رہا ہے کہ ہر دوسرے جلسے میں خان صاحب حتمی مارچ کی تاریخ بتانے کا اعلان کرتے ہیں مگر پھر دو قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
عمران خان اپنے جلسوں کی ففٹی مکمل کر چکے ہیں اور یہ جلسے‘ جلوس انتخابی مہم کیلئے ہی مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے جن لوگوں سے ملاقات ہوئی‘ وہ یہی کہتے ملے کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ خان صاحب جلسوں کی سنچری مکمل کریں‘ ان سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس دوران ہم اپنا وہ کام کرتے رہیں گے جس کیلئے ہم نے اقتدار سنبھالا ہے۔ اسحاق ڈار کی وطن واپسی اور نئے نیب قوانین کی روشنی میں مریم نواز کے باعزت بری ہونے سے ان خیالات کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے۔ مسلم لیگ اب نواز شریف کی واپسی سے اپنے احیا کی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے اور عمران خان اب تک باون جلسے کر چکے ہیں مگر اس کے باوجودعوام‘ جن کے لیے اپنا گھر چلانا بھی مشکل ہو چکا ہے‘ اپنے حقیقی ترجمانوں کی راہ تک رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں