کیا اسے شکست نہیں کہا جائے گا اگر کسی میدان کے ایک جانب پندرہ سے ز ائد سپیکر وں سے گونجنے والی ایک ہی طرح کی تیز اور دبدبے والی آوازوں کا بائیس کروڑ میں سے پندرہ کروڑ سے زائد عوام پر کسی قسم کا کوئی اثر ہی نہ ہو‘ ان کی ہر بات کو ایک کان سے سننے کے بعد دوسرے کان سے نکا ل دیا جائے۔جبکہ دوسری طرف ایک ہی شخص کی آواز پر سب لبیک کہیں‘ اُس کے بلانے پر دوڑے چلے آئیں‘ اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ لوگ اب پہلے سے بہت زیادہ سمجھدار اور با شعور ہوتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ وہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور تحریک انصاف کے ماضی اور اُن کی کارکردگی سے بخوبی واقف ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس معاشرے میں گوئبلز کے گھڑے جھوٹوں کی تمیز کرنے کا شعور بڑھتا جا رہاہے؟ 2013ء میں جب مسلم لیگ نواز کی پنجاب اور مرکز میں حکومت اپنے جوبن پر تھی تو اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید ایک سہ پہر ایک پریس کانفرنس میں جلوہ افروز ہوئے اور انہوں نے اپنی مرکزی نشست سنبھالتے ہی بلاتاخیر عمران خان کی طرف سے سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے کا سبق دینے کا حوالہ دیتے ہوئے بولنا شروع کیا کہ دوسروں کو سادگی کی تلقین کرنے والے کو سب سے پہلے اپنے پائوں میں پہنی ہوئی چپل کے بکل کا حساب دینا چاہیے۔ سادگی کا درس دینے اور غریبوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والے عمران خان کی چپل میں لگے بکل کی قیمت کا اگر عوام کو پتا چل جائے تو سب کے ہوش اڑ جائیں۔ عمران خان کی چپل بنانے والے کی اللہ حفاظت کرے‘ جس نے خان صاحب کی چپل کے بکل کی اصل قیمت عوام کے سامنے کھول کر رکھ دی۔
عمران خان نے جب سے ملکی سیاست میں قدم کررکھا ہے‘ وہ کون سا الزام ہے جو اب تک ان پر نہیں لگایا گیا۔ اس سے قبل جب محترمہ بینظیر بھٹو نے ایسا ہی جارحانہ طرزِ سیاست اختیار کیا تھا تو ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور اسے دہرانے کی اب ضرورت نہیں۔ سب سے پہلے عمران خان کے کینسر ہسپتال کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا پھر سیتا وائٹ سکینڈل گھڑا گیا‘ یہ سلسلہ اس وقت رکا جب ایک مشہور اینکر پرسن نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ان کے پاس (ن) لیگ کی ایک اہم شخصیت کے حوالے سے بھی ایسی معلومات موجود ہیں جس کے بعد (ن) لیگ کو سیتا وائٹ والا قصہ گول کرنا پڑ گیا۔ اگر گزشتہ دس پندرہ سال کی سیاسی تاریخ کو مد نظر رکھا جائے تو (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنانے کیلئے اس کے سوا کچھ تھا بھی نہیں۔ اب رجیم چینج کے بعد عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت کا ایک ایک ورق کھنگالنے کے بعد جب انہیں کچھ نہ مل سکا تو لے دے کر توشہ خانہ کی گھڑی ہی رہ گئی جسے اب گھنگھرو کی طرح بجایا جا رہا ہے۔ کوئی سیاسی حریف جب اپنے مخالف کی جوتی تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب لیا جاتا ہے کہ اپنے مخالف کا مقابلہ کرنے کیلئے اس کے پاس اب کچھ نہیں بچا۔ 8سال قبل پرویز رشید کی چپل اور بکل والی پریس کانفرنس اور اب نہ ختم ہونے والی ٹی وی چینلز پر توشہ خانہ کی گھڑی کے ڈھول کا بے تال پیٹا جانا پی ڈی ایم کی شکست کی ابتدا معلوم ہوتا ہے۔یہ گھڑی بھی خان صاحب نے تمام قانونی ضوابط پورے کرنے کے بعد حاصل کی تھی۔ اس لیے حکومت کا یہ گھڑی بیانیہ بھی ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔
مجھے بکل اور گھڑی کی کہانی سے کوئی 77 سال پرانا ایک واقعہ یاد آ یا ہے جب دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی تھی‘ انگریزحکومت بڑے بڑے لالچ اور انعام و اکرام سے نوازنے اور مختلف ترغیبات سے ہندوستان بھر کے نوجوانوں کو گروہ در گروہ فوج میں بھرتی کر رہی تھی۔ اس مقصد کے لیے انگریز سرکار گدی نشینوں‘ زمینداروں‘ جاگیر داروں اور ان کے زیر اثر افراد کے ذریعے مقامی لوگوں کو دباؤ اور لالچ میں لاتے ہوئے فوجی بھرتی کی ترغیب دیتی۔ اسی طرح کی فوجی بھرتی مہم کے دوران کسی نے اطلاع دی کہ سرگودھا کے ایک گائوں کی تندور والی عورت اپنی نیک دلی اور سخاوت کی وجہ سے پورے علا قے میں بہت ہی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اُس کے اپنے اور آس پاس کے گائوں والے اسے اپنی ماں کے برابر درجہ دیتے ہیں بلکہ اپنی ہر مشکل میں اس سے رہنمائی بھی لیتے ہیں اور اپنے باہمی اختلافات کے حل کے لیے بھی وہ اُسی تندور والی کی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر اس تندور والی کی خدمات حاصل کر لی جائیں تو یہاں سے ہمیں کئی نوجوان فوج میں بھرتی کے لیے آسانی سے مل جائیں گے۔
جب انگریز افسر کو یہ اطلاع ملی تو اس نے فوری طور پر علا قہ مجسٹریٹ کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر اُس تندور والی کے گائوں جائے اور اس سے علاقے کے نوجوانوں کو فوج میں زیادہ سے زیادہ بھرتی کرانے کا کہے! اماں کی کٹیا اور تندور ساتھ ساتھ ہی تھے‘ علاقے کے تھانیدار نے صبح سے ہی وہاں پہنچ کر ڈیرے ڈال دیے کیونکہ علاقہ مجسٹریٹ وہاں پہنچ رہے تھے۔ گائوں کے نمبردار کو بھی افسران کے کھانے پینے اور آرام مہیا کرنے کی مصیبت پڑی ہوئی تھی۔ جب اُس اماں کی کٹیا میں جا کر تھانیدار اور نمبردار نے بڑے ادب سے سلام کرتے ہوئے یہ درخواست کی کہ وہ اچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہن لے کیونکہ ابھی تھوڑی دیر تک مجسٹریٹ اور تحصیلدار صاحب اسے سلام کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔ وہ بے چاری تو ایک سادہ لوح عورت تھی جو کبھی نمبردار کی بیوی کے برابر بھی نہیں بیٹھی تھی‘ اب کہاں تھانیدار اس کو سلام کر رہا تھا‘ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مجسٹریٹ کیا ہوتا ہے۔
سورج ابھی اٹھا ہی تھا کہ ایک سرکاری جیپ تندور والی کی کٹیا کے باہر آ کر رکی جس سے ایک انگریز فوجی اور مجسٹریٹ تھانیدار کی معیت میں اُس عورت کی کٹیا کی جانب بڑھے‘ ان سب کو اپنی کٹیا کی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ ضعیف عورت بھاگ کر باہر نکلی اور دونوں ہاتھ باندھ کر ان کے آگے کھڑی ہو گئی۔ مجسٹریٹ نے اُس عورت سے اس کا حال احوال پوچھنے کے بعد کہا کہ انگریز کی حکومت آج اس لیے خود چل کر تمہارے دروازے تک آئی ہے کہ جرمن اور جاپان کی فوجوں نے ہندوستان پر حملہ کیا ہوا ہے‘ ملکۂ عالیہ نے مجھے خاص طور پر تمہارے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ تم جرمن اور جاپان کی فوجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انگریز کی مدد کرو اور اس کے لیے یہاں کے نوجو انوں کو انگریز کی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے راضی کرو!
یہ سننے کے چند منٹ تک تو وہ تندور والی کچھ نہ سمجھتے ہوئے چپ رہی اور جب تھانیدار نے اسے دوبارہ مجسٹریٹ کی کہی ہوئی بات دہرائی تو اُس تندور والی نے تھانیدار کے کان میں سر گوشی کرتے ہوئے کہا: پتر سنا ہے کہ انگریز کی بادشاہی ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے‘ اس کی سلطنت کا تو سورج ہی غروب نہیں ہوتا‘ اب اگر ان کی ملکۂ عالیہ کو اپنی حفاظت کے لیے میرے جیسی ایک غریب اور عام سی تندور والی کی کٹیا پر آنا پڑ گیا ہے تو پھر انگریز سے کہوکہ جرمن سے صلح کر لے کیونکہ لگتا ہے کہ اب اس کی حکومت کا چل چلائو ہونے والا ہے۔
اگر حکومت نے خان صاحب کی چپل کے بکل اور گھڑی پر ہی اپنے بیانیے بنانے ہیں تو اُسے بھی اقتدار سے الگ ہونے کی تیاری شروع کر لینی چاہیے۔