خلیل جبران کہتا ہے کہ محبت طو یل قربتوں کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ الہام کی طرح کسی لمحے میں ہمارے دلوں میں اترتی ہے اور اس نوع کی محبت صرف اپنے وطن سے ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک لمحہ بہت خاص ہوتا ہے کہ وہی آگہی کا لمحہ ہوتا ہے۔ جب وطن پر کبھی برا وقت آتا ہے‘ جب سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو اس وقت وطن کے بیٹے ہی اس کی عزت کی خاطر سینہ سپر ہوتے ہیں۔ سوائے چند ملت فروشوں کے۔ امجد اسلام امجد کی ایک خو بصورت نظم ہے:
کیسے کا ریگر ہیں یہ
آ س کے د رختوں سے
لفظ کاٹتے ہیں اور سیڑھیاں بنا تے ہیں
کیسے باہنر ہیں یہ
غم کے بیج بوتے ہیں
اور دلوں میں خوشیوں کی کھیتیاں اگاتے ہیں
کیسے چارہ گر ہیں یہ
وقت کے سمندر میں
کشتیاں بناتے ہیں
آپ ڈوب جاتے ہیں
شاعر نے تو یہ نظم جا نے کس سوچ اور خیال کے تحت لکھی ہو گی لیکن میرے نزدیک اس کے حرف حرف پر وہی پورے اترتے ہیں جو ملک عزیز پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے مسلسل اس کی حفاظت اپنے لہو سے کر رہے ہیں، اس کی آن‘ بان شان کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔
زیادہ عرصہ نہیں ہوا‘ ایک لڑکی نے وطن کے محافظوں کے حوالے سے ایک تحریر لکھی۔ اس تحریر کو‘ جس میں لفظ و جملے کی نوک پلک خوب انداز میں سنواری گئی تھی‘ زبان و بیان کا خاص خیال رکھا گیا تھا‘ پڑھ کے میرا دل دکھ سے بھر گیا۔ اس وقت دل سے ایک آہ نکلی کہ کاش اتنا خوبصورت لکھنے والی وطن کے ان محافظوں کی حقیقی قدر کو جان سکتی۔ اس وقت میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ اس کی غلط فہمی دور فرمائے اور یہ اپنے خوبصورت تراشیدہ الفاظ اور خیالات سے لوگوں کے دلوں سے رفتہ رفتہ محو ہوتے جاتے اس احساس کو اجاگر کرے جو چند غلط فہمیوں، چند افراد ں کی غلطیوں یا وقت اور دشمنوں کی طرف سے پیدا کی گئی غلط معلومات نے دھندلا دیا ہے۔ کون جانے کہ وہ لمحہ قبولیت کا تھا۔ قدرت اللہ شہاب کے مطابق: دعا کے بارے میں مجھے کامل یقین ہے کہ خلوصِ دل سے مانگی ہوئی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے۔ آج اسی خاتون کی لکھی ایک تحریر میرے سامنے آئی تو دیر تک اس کے سحر میں مبتلا رہا۔
آ ٹھ سالہ بچہ اپنی ماں سے پوچھتا ہے: ممی! یہ پاک سپاہی کون ہوتا ہے؟ ماں چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہتی ہے: بیٹا پاکستان کی فوج میں جو خفیہ ایجنسیاں ہوتی ہیں‘ ان میں بہت سے فوجی اور غیر فوجی کام کرتے ہیں۔ ان اہلکاروں میں سے کچھ تربیت یافتہ ایجنٹ ہوتے ہیں جو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے دوسرے ممالک کے راز حاصل کرتے ہیں۔ مگر وہ کرتے کیا ہیں؟ وہ دشمن ممالک میں جا کر جاسوسی کرتے ہیں۔ وہاں بھیس بدل کر وہ ہر جگہ پھرتے ہیں۔ ان کا کوئی نام یا کوئی شناخت نہیں ہوتی، ان کا کوئی گھر یا فیملی نہیں ہوتی۔ وہ کبھی کچھ اور کبھی کچھ بن جاتے ہیں۔ ان کو یہی سب سکھایا جاتا ہے کہ وہ جاگتے رہیں تاکہ ملک کے لوگ سکون سے سو سکیں۔ وہ اپنے ملک کی آنکھیں ہو تے ہیں۔
''اس کے بدلے میں ان کو کیا ملتا ہے؟‘‘ بچے نے سوال کیا۔ کچھ بھی نہیں! ماں کا جواب تھا: جب کوئی وردی والا سپاہی محاذ پہ لڑتا ہے تو اگر وہ زندہ بچ کر واپس آ جائے تو غازی کہلاتا ہے‘ جان قربان کر دے تو شہید۔ کچھ کو تو اعزازات مل جاتے ہیں‘ ان کی بہادری و شجاعت لوگوں کے سامنے آ جاتی ہے مگر وہ جو جاسوس ہوتا ہے نا! وہ unsung hero ہوتا ہے۔ بے نام و نشاں! خاموشی سے کسی دوسرے ملک میں زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ اکیلا‘ تنہا ہی کام کیا کرتا ہے۔ اگر گرفتار ہو جائے تو اسے بچانے کے لیے بھی کوئی نہیں آتا۔ ''کیوں؟‘‘ بچے نے حیران ہو کر پوچھا۔ یہی اس کے پیشے کی مجبوری ہوتی ہے۔ گرفتار ہونے کی صورت میں جاسوس کا ملک‘ حکومت‘ ادارے غرض کوئی بھی کھلم کھلا اسے 'اون‘ نہیں کرتا۔ اگر اس سے متعلق پوچھا جائے تو صاف انکار کر دیا جاتا ہے۔ گو کہ خاموش طریقوں سے اسے جیل سے نکالنے یا بھگانے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے لیکن اگر یہ نہ ہو سکے تو جاسوس کو ساری زندگی جیل ہی میں رہنا پڑتا ہے۔ اگر وہ راز ا گل دے تو غدار تو سمجھا ہی جاتا ہے‘ خود اپنی نظروں میں بھی گر جاتا ہے۔ اس لیے اسے اپنا ہر راز چھپانا ہوتا ہے کیونکہ وہ جاسوس ہے اور ہر جگہ جاسوسی کی سزا موت ہوتی ہے۔ پھر اگر اس کی جاسوسی ثابت ہو جائے تو اسے مار دیا جا تا ہے‘ اس کی لاش کہیں بے نام و نشاں دفن کر دی جاتی ہے یا کسی بھی طرح سے اسے ڈسپوز آف کر دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ عرصے تک اس کے خاندان والوں کو یہ تک پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں ہے‘ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ ایسا شخص اگر مر جائے تو اس کا جنازہ تک نہیں پڑھایا جاتا۔ جو آدمی خود کو اس کا م کے لیے پیش کرتا ہے‘ وہ اس با ت سے واقف ہوتا ہے کہ گرفتار ہو نے یا دیارِ غیر میں مارے جانے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ تاریخ اس کو کبھی بھی ہیر و کے طور پر یاد نہیں کرے گی۔ اس کے ملک میں اس کی فائل پہ ''ٹاپ سیکرٹ‘‘ یا کلاسیفائیڈ‘‘ کی مہر لگا کر اس کو نہ صرف بند کر دیا جائے گا بلکہ ایسی جگہ چھپا دیا جائے گا کہ کوئی بھی اس تک نہ پہنچ سکے۔ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی وہ آشفتہ سر خود کو اس جاب کے لیے پیش کرتا ہے۔ پتا ہے کیوں؟ ''کیوں؟‘‘ بچے کی حیرت عروج پر تھی۔ کیونکہ بیٹا! جو شخص اپنی جان کے ذریعے اللہ کی راہ میں لڑتا ہے‘ اسے دنیا کے اعزازات اور تاریخ میں یاد رکھے‘ نہ ر کھے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اہم ہوتی ہے۔
جسے یہ مل جائے‘ اسے اور کچھ نہیں چاہئے ہوتا۔ یہ وہ پاک سپاہی‘ پاک شہید ہوتا ہے جو اپنا سب کچھ‘ اپنی جان‘ مال‘ عزت و آبرو‘ جوانی و طاقت حتیٰ کہ تمام عمر لٹا دیتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کے اہلِ وطن سکون کی نیند سو سکیں، وہ کسی دشمن کے سامنے زیر نہ ہوں۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اس ساری قربانی کے بدلے اسے کیا مل رہا ہے‘ اسے بس اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ وہ اپنا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ سرانجام دے رہا ہے یا نہیں۔ اس میں کوئی کمی یا کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ میرا فرض صرف ایک شخص کی آفس ڈیوٹی نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک، پوری قوم کے مستقبل کا سوال ہے۔ وہ صرف اپنی یا اپنے گھر والوں کی نہیں‘ ہر وقت اپنی پوری قوم‘ اپنے ملک کی فکر لیے جیتا ہے۔
ان کے برعکس بھی کچھ لوگ ہوتے ہیں۔ کئی ایسے تھے جنہیں آزادی کی جنگ میں انگریزوں نے غداری کے عوض جاگیروں اور انعام و اعزاز سے نوازا، ان کی نسلوں تک کا وظیفہ لگایا لیکن جب ان کے خاندان کے لو گ وظیفہ لینے جایا کر تے تو منشی آواز لگاتا: فلاں غدار کے ورثا حاضر ہوں۔ وہی آگہی کا لمحہ تھا جب جاننے والا جان گیا کہ وطن کی محبت کو ایمان کا جزو کیوں قرار دیا گیا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے آگے ساری دنیا کے عیش و آرام اور دولت ہیچ ہیں۔ کیوں آزاد وطن کے ایک ایک انچ کیلئے لاکھوں قربانیاں دی جاتی ہیں کہ ہماری عزت، انا، خودداری اور نظریہ محفوظ رہے‘ روزی تو کہیں بھی مل جاتی ہے لیکن وہ عزت غر یب الوطنی میں نہیں جو اپنے وطن کی روکھی سوکھی میں ہے۔ آ خر کچھ تو ایسا ہے جو ملک سے دور رہنے والوں کے دل وطن کی محبت میں تڑپتے رہتے ہیں۔ اس کی فکریں انہیں سونے نہیں دیتیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ملت فروش کی عزت تو وہ بھی نہیں کرتے جو ان سے ملت فروشی کراتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کے لہو سے ملک و ملت کی تعمیر ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
مرے خاک و خوں سے تُونے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلۂ شہید کیا ہے‘ تب و تابِ جاودانہ