"MABC" (space) message & send to 7575

اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو…

اب تو دنیا بھر میں سب کو یقین ہو چلا ہے کہ پاکستان میں سوائے عمران خان کے کسی اور مسئلے کا سامنا ہی نہیں۔ کیا حکومت‘ کیا وزیر‘ کیا مشیر اور کیا ترجمان‘ سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ان کی شان و شوکت اور حقِ حکمرانی کی راہ میں اگر کوئی کانٹا باقی رہ گیا ہے تو اس کا نام عمران خان ہے۔ کوشش تو بہت کی گئی کہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے لیکن قدرت کے منصوبوں کے سامنے کسی کی نہیں چل سکتی۔ انسان اپنی سی چال چلتا ہے اور قدرت نے اپنا پلان پہلے سے تیار کر رکھا ہوتا ہے۔ انسان یہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ اس کی ساری تدبیریں محض قدرت کے پلان کے نفاذ کے لیے ہیں‘ وہ چاہ کر بھی قدرت کی پلاننگ کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ 9 اپریل کو کیا ہوا تھا؟ 3 سال 7 ماہ اور 22 دن کی وزارتِ عظمیٰ کے بعد 174 ووٹوں سے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بناتے ہوئے عمران خان کو ایوانِ وزیراعظم سے بے دخل کر دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے علاوہ متحدہ مجلس عمل، ایم کیو ایم، بی این پی (مینگل)، بی اے پی (باپ)، اے این پی، جمہوری وطن پارٹی اور مسلم لیگ (ق) سمیت سبھی جماعتوں نے مل کر عمران خان کو ایوانِ وزیراعظم سے باہر نکالا تھا اور آج ساڑھے آٹھ ماہ ہونے کو آئے ہیں‘ ان سب جماعتوں پر ایک خوف طاری ہے اور اس خوف کا نام ہے عمران خان۔ تحریک عدم اعتماد سے قبل خان صاحب کو مشورے دیے جا رہے تھے کہ عوام میں نہ جائیے گا‘ عوام بہت ناراض ہیں مگر مشورے دینے والے آج خود عوام میں جانے سے گریزاں ہیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ ایسا کیا کریں کہ عمران خان کی مقبولیت کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائے۔ تحریک عدم اعتماد جمع کراتے وقت سب کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے‘ انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ بس یہ تحریک کامیاب ہونے کی دیر ہے‘ پھر عمران خان کی سیاست کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ عمران خان بنی گالا میں بیٹھ کر اپنے زخم چاٹیں گے اور اتحادی حکومت نہ صرف یہ مدت پوری کرے گی بلکہ اپنے حق میں قانون سازی کر کے آئندہ کے لیے بھی حالات اپنے حق میں سازگار بنائے گی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور نیب سے متعلق ترامیم تو محض ایک ٹریلر ہیں‘ آٹھ ماہ کی حکومت میں پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہے کسی کو اندازہ بھی نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف دیوالیہ پن کی بلند ہوتی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ ہر کوئی دہائی دے رہا ہے۔ بجلی فی یونٹ تیس روپے مہنگی کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ غرض کوئی ایک بھی اشاریہ ایسا نہیں ہے جسے مثبت یا کم از کم غیر مضر قرار دیا جائے مگر حکومت اور اس کے وزیروں‘ مشیروں اور ترجمانوں کی زبانوں پر صرف ایک نام ہے؛ عمران خان۔ ہر وہ حربہ استعمال کیا جا رہا ہے جس سے عمران خان کی مقبولیت کم کی جا سکے۔ اسی تناظر میں آج کل وڈیوز اور آڈیو لیکس کی بھرمار دیکھی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے چند ذاتی مشاہدات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ دو سال پہلے وزیراعظم ہائوس کے عقبی لان میں عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے کہ ایک صاحب نے سندھ کے کچھ اہم سیاستدانوں سے متعلق خان صاحب کو کچھ وڈیوز دکھانے کی کوشش کی‘ جس پر انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے خان صاحب نے اس شخص کو روک دیا۔ ان کے الفاظ تھے: میرے پاس مخالفین اور ان کے خاندانوں سمیت نجانے کتنے ہی لوگوں کی وڈیوز اور آڈیوز آئیں مگر میں نے سب کو ضائع کرنے کا حکم دیا۔ میں ایسی چیزوں کو پسند نہیں کرتا، خدارا مجھ سے اس قسم کے گھٹیا کام نہ کروائیں۔ آج بدقسمتی دیکھئے کہ کل تک جو ہیلی کاپٹروں سے گرائی گئی تصویروں کو برا‘ ان کو فیک اور اسے سیاست کا بدترین باب قرار دیتے تھے‘ آج وہ بھی عمران خان کی جھوٹی‘ سچی مبینہ آڈیوز اور وڈیوز کے لیک ہونے پر جشن منا رہے ہیں۔ کیا ان سے کوئی یہ پوچھے گا کہ اگر یہ سچ ہیں تو پھر وہ کل والی تصویریں بھی اصل تھیں؟
سیاست میں ہر کسی کے مقابل آئینہ ہوتا ہے۔ اگر یہ بات کسی کے پلے نہیں پڑ رہی تو ذرا سوچیے کہ جو شخص ساڑھے تین سال تک ملک کا وزیراعظم رہا ہو‘ ملک کے اہم اداروں کی رپورٹس تک اس کی رسائی ہو‘ آئی بی جیسا ادارہ اس کے ماتحت ہو‘ کیا اس کے پاس ایسی چیزیں نہیں پہنچی ہوں گی؟میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ خان صاحب پر اس وقت ان کی پارٹی کے چند سینئر اراکین کی جانب سے دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ ایسی ذہنیت کے مخالفین کا مقابلہ ان کی سطح پر آ کر ہی کرنا چاہیے مگر خان صاحب کا موقف ہے کہ گدھا اگر کسی کو ٹانگ مارے تو جواباً ٹانگ نہیں ماری جاتی۔ میں خود گواہ ہوں کہ مخالفین کی نجی و ذاتی زندگی سے متعلق کئی سیکنڈلز کو عمران خان نے نہ صرف سختی سے مسترد کیا بلکہ دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کو کہا۔ محض سیاستدانوں ہی نہیں‘ کئی دیگر شخصیات کی وڈیوز بھی خان صاحب کے پاس لائی گئی تھیں۔ اگر یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ مقابل کے لیول پر آ کر نہلے پہ دہلا مارا جائے گا تو کیا ہو گا؟ کیا ہماری ملکی سیاست نوے کی دہائی کی اس غلیظ سیاست کا بوجھ برداشت کر سکتی ہے؟
عمران خان سے ان کی دشمنی اور نفرت کو سمجھنا ہو تو یہ جان لیجیے کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال میں جب مریضوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھنا شروع ہو گئی تو ہسپتال کی انتظامیہ نے حکومت سے چند مزید منزلوں کی تعمیر کی اجا زت مانگی لیکن میاں برادران کی پنجاب حکومت اور ماتحت ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے یہ اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ہسپتال انتظامیہ نے ذاتی طور پر متعلقہ ادارے کے اربابِ اختیار سے مل کر ان کو اپنی اور مریضوں کی مشکلات سے آگاہ کیا لیکن انہیں بتایا گیا کہ یہ معاملہ ان کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ اس کیلئے اعلیٰ سطحی منظوری لازم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سختی سے ہدایات دی گئی ہیں کہ کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی، حالانکہ ہم تو خود چاہتے ہیں کہ کینسر کے مریضوں کو تکلیف نہ ہو لیکن ہم بے بس ہیں۔ ہسپتال کو یہ اجازت اس وقت ملی جب پنجاب میں بزدار حکومت آئی۔
پشاور میں شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر شروع ہوئی تو اس وقت مرکز میں نواز شریف کی حکومت تھی۔ پانچ سال کی لگاتار کوششوں کے باوجود مرکزی حکومت کے ماتحت اداروں نے پشاور کے کینسر ہسپتال کو بجلی اور گیس کی سہولتیں مہیا کرنے سے انکار کیے رکھا۔ شاید وہ سمجھتے تھے کہ پشاور میں بھی اگر اس ہسپتال نے بھرپور طریقے سے کام شروع کر دیا تو اس سے سیاسی طور پر انہیں نقصان پہنچے گا۔ وہ یہ نہیں سوچ رہے تھے کہ ہسپتال میں داخل مریض اور ان کے لواحقین کو ان سہولتوں کے بغیر کس قدر تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ موسمی سختیوں کی وجہ سے ادویات بھی اپنا اثر کھو دیتی ہیں اور حکومت کے اس فیصلے سے سارا نقصان کینسر جیسے موذی مرض کے شکار مریضوں اور عوام کے چندوں اور زکوٰۃ کے پیسوں سے خریدی جانے والی ادویات کو پہنچتا رہا۔پی ٹی آئی کی راہ روکنے کے لیے کیا کیا اقدامات نہیں کیے گئے۔ سردار ثنا اللہ زہری کی حکومت نے جب کوئٹہ میں ماس ٹرانزٹ ریل کا منصوبہ تیار کیا تو وزیر ریلوے نے اسی وقت اس کیلئے جگہ کی فراہمی کے ا حکامات جاری کر دیے حالانکہ حکومتی جماعت کی ایک سینیٹر صاحبہ اس زمین پر اپنا حق جتا رہی تھیں مگر جب اسی قسم کے منصوبے کیلئے خیبر پختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت نے ریلوے سے جگہ مانگی تو دو سال تک کسی درخواست کا جواب ہی نہیں دیا گیا۔ وزیر ریلوے کی جانب سے ٹکا سا جواب دیا جاتا رہا کہ اس منصوبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عمران خان اور ان کی جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ 1986ء سے 1999ء تک کس قسم کا سلوک روا رکھا گیا۔ ان دونوں معزز خواتین کے بارے میں کس کس قسم کے گھٹیا مضامین نہیں لکھوائے گئے۔ ان کی کس طرح شرمناک طریقے سے کردار کشی نہیں کی گئی؟ کیا ان کی نقلی تصاویر بنا کر اشتہاروں کی شکل میں ہیلی کاپٹروں سے پنجاب بھر میں نہیں گرائی گئیں؟ ایک بار پھر آڈیو اور وڈیو کا کھیل شروع کرنے والے سوچ لیں کہ اگر اینٹوں کا جواب پتھروں کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو گیا تو کیا ہو گا؟ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو کسی کا بھی دامن محفوظ نہیں رہے گا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ سیاست کو شرافت کی حدود میں ہی رہنے دیا جائے اور حدود و قیود کی مکمل پاسداری کی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں