"MABC" (space) message & send to 7575

لیاقت باغ سے وزیرآباد تک

27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردوں نے باریک بینی سے طے کردہ ایک منصوبے کے تحت شہید کیا تھا۔ اس حوالے سے کس کس کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا‘ فردِ جرم کس پر عائد ہوئی‘ کس نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کی‘ کس کو سزا ہوئی‘ اقوام متحدہ اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقات میں کیا سامنے آیا‘ ان سب باتوں سے قطع نظر سول سوسائٹی اور مخصوص مائنڈ سیٹ کے لوگوں کی جانب سے سب سے زیادہ معتوب وہ لوگ ٹھہرائے گئے جنہوں نے لیاقت باغ کے ایک داخلی دروازے کو‘ جہاں بے نظیر بھٹو کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا تھا‘ دھونے کا حکم دیا تھا۔ اگرچہ ان افراد کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ کو دھونے سے پہلے ہر قسم کے شواہد اکٹھے کر لیے گئے تھے مگر یہ کام ایک الزام بن کر آج بھی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ آج بھی جب اور جہاں بی بی کی شہادت کی بات ہو‘ ان افرا دکا ذکر ضرور ہوتا ہے اور یہی الزام دہرایا جاتا ہے کہ انہوں نے جائے وقوعہ کو دھو کر موقع پر موجود شہادتوں کو ضائع کرتے ہوئے ایک جرمِ عظیم کا ارتکاب کیا۔ لیاقت باغ کی جائے وقوعہ کو نہ دھونے سے‘ بقول پیپلز پارٹی‘ بی بی شہید کے قاتلوں تک رسائی ہو سکتی تھی‘ ایک ایسا مفروضہ ہے جس کا اصل مدعے، مقدمے اور محترمہ کی شہادت کے کیس سے کوئی ٹھوس تعلق نہیں لیکن چونکہ اس میں ایک سازشی تھیوری سموئی ہوئی تھی لہٰذا یہی ایک ایسا مدعا تھا جس کو آئے دن کی پریس کانفرنسوں میں سب سے زیادہ اٹھایا جاتا تھا اور اسی ایک نکتے کو لے کر مقامی انتظامیہ اور اس وقت کی وفاقی و پنجاب حکومت پر الزامات عائد کیے جاتے رہے۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کی وجہ سے اس وقت کی پنجاب کی برسر اقتدار جماعت کو ''قاتل لیگ‘‘ کہا گیا۔ یہ الگ بات کہ اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب بعد میں پیپلز پارٹی ہی کی حکومت میں نائب وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔
بی بی کی شہادت کو ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر جائے وقوعہ کو دھو کر شواہد ضائع کرنے کا الزام اب تک متعلقہ افراد کا پیچھا کرتا رہتا ہے‘ حتیٰ کہ اس کی وجہ سے کئی لوگوں کوبرسوں تک عدالتوں اور جیلوں کے دھکے کھانا پڑے۔ اس واقعے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا سوچئے کہ پنجاب حکومت کی تحلیل کے ایک ہفتے بعد ہی وفاقی حکومت کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تفتیش کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کس نظر سے دیکھا جائے گا؟ اس وقت پی ٹی آئی اور وفاقی حکومت کے مابین معاملات پہلے ہی خاصی تلخ سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ عمران خان وفاقی حکومت کے اہم ذمہ داران کو اس کیس میں نامزد کرتے ہیں۔ ایسے میں بجائے یہ کہ وفاقی حکومت شفاف تحقیقات یقینی بناتی تاکہ حقائق کھل کر قوم کے سامنے آ سکتے، اس نے ایسا اقدام کیا ہے جس سے معاملات پر چھائی دھندمزید گہری ہو گئی ہے۔ محکمہ داخلہ نے تین دن قبل جاری نوٹیفکیشن میں جے آئی ٹی کی پوری ٹیم ہی تبدیل کر دی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جے آئی ٹی سربراہ سے اختلافات پر تمام ارکان تبدیل کیے ہیں۔ نئے ارکان میں تین افراد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ کسی بھی محکمے کے چوتھے رکن کی تقرری کا فیصلہ جے آئی ٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل حکومت کی جانب سے وزیرآباد حملہ کیس پر بننے والی پہلی جے آئی ٹی کے چار افسران کے خلاف چارج شیٹ جاری کی گئی تھی اور الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ افسران جان بوجھ کر کیس خراب کر رہے ہیں، یہ ممبران نہ صرف گمراہ کر رہے ہیں بلکہ تعصب بھی رکھتے ہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل کی انکوائری رپورٹ میں جے آئی ٹی کے چار ارکان کو متعصب قرار دیتے ہوئے ان کا موبائل فون ضبط کرنے اور قانونی کارروائی کی سفارش بھی کی گئی تھی۔ وزیرآباد معاملے پر جے آئی ٹی کو جس طرح متنازع بنایا جا رہا ہے‘ یہ سوال اگر آج نہیں تو کل لازمی اٹھایا جائے گا کہ وزیر آباد میں جوخوفناک سازش رچائی گئی‘ اس پر بنائی گئی جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم کے ممبران میں سے کچھ نے شہادتوں کو ضائع کرنے کی کوشش کی تاکہ اصل ملزمان کو بچایا جا سکے۔ یہ الزام بھی عائد کیے جائیں گے کہ جائے وقوعہ کی شہا دتوں کو مٹانے یا حذف کرنے یا جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ پھر مطالبہ کیا جائے گا کہ بتایا جائے یہ سب کچھ کیوں اور کس کے کہنے پر ہوا۔ اس طرح قومی نوعیت کا ایک اور اہم کیس مفروضوں اور سازشی تھیوریوں کے نیچے دبتا چلا جائے گا اور شاید اس کے اصل حقائق کبھی عوام کے سامنے نہیں آ سکیں گے۔
جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو عالمی شہرت کی حامل تھیں‘ اسی طرح عمران خان بھی نہ صرف اندرونِ ملک مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ کئی افراد تو پاکستان کو عمران خان کے حوالے سے جانتے ہیں اور اس کا تجربہ بیرونی ممالک میں بسنے اور سیر و سیاحت کیلئے جانے والے ہزاروں پاکستانیوں کو ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے مایہ ناز فوک گلوکار عارف لوہار بھی اپنا واقعہ سناتے ہیں کہ پہلی بار جب وہ امریکہ گئے تو انہیں وہاں سے کینیڈا جانا تھا، کینیڈا میں امیگریشن کائونٹر پر جب ان کے پاسپورٹ پر پاکستان کا نام دیکھا تو امیگریشن آفیسر نے پوچھا 'عمران خان اور نصرت فتح علی خان والا پاکستان؟‘۔ عارف لوہار کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے حوالے سے صرف ان دو 'خانوں‘ کو ہی جانتے تھے۔ یقینا عمران خان کے نام کے حوالے سے بیرونِ ملک ملنے والا یہ احترام ہم سب کیلئے باعثِ فخر ہے۔
ایسے وقت میں جب ملک بھر میں توانائی کا بحران ایک اژدھے کی طرح پھنکارتا ہوا ملکی معیشت کو نگلنے کیلئے بڑھتا چلا آ رہا ہے‘ وفاقی کابینہ اور اتحادی حکومت کو ایک ہی فکر لاحق ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ عمران خان نہ صرف اس سیاسی نظام سے آئوٹ ہو جائیں بلکہ ان کے لیے میدان پوری طرح صاف ہو جائے۔ صرف عمران خان نہیں‘ پی ٹی آئی کے حامی بھی سرکار کے نشانے پر رہتے ہیں اور اس کا ایک مظاہرہ گزشتہ سال 25 مئی کو ہم کر چکے ہیں کہ کس طرح ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی سابق صوبائی وزیر اور نہتی خاتون کی گاڑی پر ڈنڈوں اور لاٹھیوں کی برسات کی گئی، کیسے رات کے اندھیروں میں پی ٹی آئی کے حامیوں کے گھروں میں گھس کر ان کی تذلیل کی گئی۔ شنید ہے کہ اب پھر نہ صرف ایک سخت کریک ڈائون بلکہ عمران خان کی گرفتاری کا بھی پلان بنایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بیان بازی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے تاکہ عوامی ردِعمل کو جانچا جا سکے۔ جو لوگ بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں‘ وہ ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔ یہ لوگ شاید یہ چاہتے ہیں کہ ایک جانب ملک عزیز کے70فیصد عوام اٹھ کھڑے ہوں اور دوسری طرف 80فیصد اوور سیز پاکستانیوں‘ جو ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتے ہیں‘ کے لیڈر عمران خان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے کہ لاکھوں تارکینِ وطن انتقام اور نفرت کی آگ میں ملکی معیشت کی بہتری کے احساس اور جذبے سے دور ہو جائیں۔
وزیرآباد میں ہوئے حملے سے قبل ہی عمران خان نے اس سازش سے آگاہ کر دیا تھا کہ ان پر حملہ ہو گا اور حساس نوعیت کے الزامات لگائے جائیں گے۔ ایسا شخص جو سکولوں میں قرآن پاک کی تعلیم کو لازمی قرار دے چکا ہو‘ جو نکاح نامے میں ختم نبوت کے اقرار نامے کو لازمی قرار دے چکا ہو‘ اگر اس کے خلاف ایسا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جائے تو اس پر حیرانی نہیں ہو گی؟ افسوس کہ وزیرآباد حملے کے سازشی عناصر کو سامنے لانے کے بجائے تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں اور دھڑا دھڑ اپنے کیسز ختم کر کے اور عمران خان کے خلاف کارروائیوں کا عندیہ دے کر اندرون و بیرونِ ملک مقیم سبھی پاکستانیوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ جو کوئی بھی کرپشن کو برا سمجھتا ہے‘ اس ملک میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں