"MABC" (space) message & send to 7575

تجربہ کاروں کے کیا کہنے

سابق صدر آصف علی زرداری صاحب نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ آج اگر کسی بھی پاکستانی سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتا ہے تو وہ نہ تو آٹا مانگتا ہے‘ نہ روٹی اور نہ ہی بجلی بلکہ وہ صرف اور صرف موجودہ حکومت سے نجات مانگتا ہے۔ آج ملک میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے‘ جس کی شان میں کسی نجی محفل ہی میں نہیں بلکہ قومی اسمبلی کے فلور سے لے کر میڈیا کے پلیٹ فارم تک حکومتی وزرا واشگاف الفاظ میں یہ اعلانات کرتے ہیں کہ کپتان کو امریکہ نے نہیں بلکہ ان کی ناقص کارکردگی نے نکالا ہے۔ اگر ممکن ہو سکے تو کسی دن حکومتی وزرا کسی مارکیٹ‘ بازار‘ کھیت کھلیان‘ فیکٹری یا کارخانے کے سامنے کھڑے ہو کر عوام سے پوچھیں تو سہی کہ وہ کیا مانگتے ہیں تو انہیں ایک ہی جواب ملے گا کہ وہ پی ڈی ایم سے نجات مانگتے ہیں اور اپنی اس دلی خواہش کا اظہار وہ پنجاب سمیت ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں کر بھی چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کے حکمران اگر کبھی کسی غریب گھر کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کے مکینوں کی باتیں سنیں تو انہوں سرگوشیاں نہیں بلکہ ہر گھر سے دہائیاں دیتی ہوئی آوازیں سنائی دیں گی‘ بلکتے ہوئے بچے اور بوڑھے ماں باپ ایک ہی دعا مانگتے سنائی دیں گے کہ انہیں اس حکومت سے جلد از جلد نجات مل جائے جس کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اتحادی حکومت پٹرول‘ ڈیزل اور ایل پی جی روز بروز مہنگی کیے جا رہی ہے۔ گندم اور آٹا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ دالیں بھی کئی گنا تک مہنگی ہو چکی ہیں۔ کوئی بھی سبزی 80روپے کلو سے کم میں دستیاب نہیں۔ دودھ اور جان بچانے والی ادویات روز بروز مہنگی ہو رہی ہیں اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یہ حالات مزید خراب ہوں گے کیونکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کے نرخ ابھی مزید بڑھیں گے۔ باوصف اس کے کہ ملک میں مہنگائی 48سال کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے‘ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کیا کوئی عوام کی حالت زار پر بھی غور کرے گا؟
سٹاک مارکیٹس بھی اب تو مندی کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ گزشتہ مہینے سٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کو ایک کھرب 21ارب روپے سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ڈالر شتر بے مہار کی طرح قابو میں ہی نہیں آ رہا۔ ٹیکسوں اور شرحِ سود میں بیس فیصد اضافہ کیا جا چکا ہے جس سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں مزید ماند پڑنے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے کیونکہ ملکِ عزیز میں عموماً بڑے بڑے سرمایہ کار اور کاروباری حضرات ہی بینکوں سے قرض لیتے ہیں اور اسے اپنے کاروبار میں لگاتے ہیں لیکن اب قرض پر سود بیس فیصد ہونے کے بعد کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاید چیمبر آف کامرس سمیت سب کاروباری اور تجارتی تنظیمیں ہاتھ کھڑے کر چکی ہیں۔ ٹیکس اور شرحِ سود میں اضافے کے بعد صنعت کار گیس بجلی اور اضافی اجرتوں کا بوجھ حسب معمول صارفین پر ہی ڈال رہے ہیں جس سے عوام کا مزید بھر کس نکلے گا۔ کسی فلم کا ڈائیلاگ ہے کہ ''اگر پال نہیں سکتے تو پھر پیدا کیوں کرتے ہو‘‘ تو اگرحکومت کے پاس عوام کودینے کے لیے کچھ نہیں‘ مہنگائی کو روک نہیں سکتی‘ بے روزگاری کم نہیں کر سکتی تو پھر یہ حکومت کیوں چل رہی ہے۔ پھر اٹھارہ اٹھارہ سرکاری گاڑیوں کا پروٹو کول کس خوشی میں ہے؟ دہائی خدا کی۔ معاشی بحران کا شکار ہو کر بھی ایک جم خانہ کے تیس کمروں میں نئی ایل سی ڈیز کیوں لگوائی گئیں؟ ان کمروں کو نئے سرے سے کیوں اور کس کے حکم سے رینو ویٹ کیا گیا؟ کیا کسی اہم مرکزی یا بین الاقوامی شخصیت نے اس جم خانہ میں کچھ روز کے لیے ٹھہرنا تھا؟ آخر یہ کروڑوں روپے کے اخراجات کس لیے؟ کون بتائے گا‘ کون جواب دے گا؟ پھر کہتے ہیں کہ ہم کفایت شعاری مہم چلا رہے ہیں۔ نہ جانے کس نے ان کے ذہنوں میں بٹھا دیا ہے کہ انہوں نے انگریز کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ملک کو فتح کیا ہوا ہے اور وہی اس کے واحد حکمران ہیں۔ کسی اور کو اس کے نزدیک آنے کا حق ہی نہیں اور اگر کوئی دوسرا اس کے قریب بھی آنے کی کوشش کرے تو آپ کا مقرر کیا گیا لاؤ لشکر اسے گردن سے پکڑ کر دور پھینک دیتا ہے۔ شاید تاریخ میں اب پہلی دفعہ آپ کو احساس ہونے لگا ہے کہ یہ قبضہ گروپ اب زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ عوام کو ان کا حق آخر مل کر ہی رہنا ہے کیونکہ عوام کی طاقت ووٹ کے ذریعے ہر غاصب کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی ہے۔ یاد ہے ناں کس طرح پوری پی ڈی ایم اپنی علیحدہ علیحدہ سواریوں پر اسلام آباد کی جانب 2022ء کے اوائل میں مہنگائی مکاؤ کے نام پر مارچ کرتے ہوئے کہتی تھی کہ عمران خان نا اہل ہیں اور ہم جیسا تجربہ کار دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں‘ ہم چٹکیوں میں سب مسئلے حل کر دیں گے‘ ہر طرف خوشحالی ہو گی۔ میاں شہباز شریف‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کہا کر تے تھے کہ عوام کو روٹی‘ آٹا‘ سبزیاں اور بچوں کو دودھ اور تعلیم نہیں چاہیے بلکہ وہ صرف عمران خان کا استعفیٰ چاہتے ہیں۔ ان کے گھر جانے سے سب خوش ہو جائیں گے کیونکہ ہم سب تجربہ کار اور ذہین لوگ ہیں جو عمران خان کی حکومت ختم کرتے ساتھ ہی پٹرول‘ ڈیزل‘ ایل پی جی سمیت آٹا‘ دالیں‘ گھی‘ سبزیاں‘ پھل اور گھریلو استعمال کی ہر شے سستی کر کے دکھائیں گے کیونکہ یہ تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ان کے تمام لیڈران عوام کو یقین دلاتے پھر رہے تھے کہ دیکھیے گا‘ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے دو چار مہینوں بعد ہی بسوں‘ ویگنوں‘ گاڑیوں‘ ٹرینوں اور غریبوں کی موٹر سائیکلوں کو پٹرول اور ڈیزل سستا ملنا شروع ہو جائے گا‘ بچوں کی تعلیم مفت ہو جائے گی بلکہ یہ ہوگا کہ پاکستانی عوام کے پیٹ ان نعروں ہی سے بھر جائیں گے جو وہ پی ڈی ایم کی حکومت کے لیے لگائیں گے اور انہیں روٹی کی حاجت ہی نہیں رہے گی۔ غریب اور متوسط لوگوں کے بچے جب دودھ کے لیے بلکیں گے تو ان کے ماں باپ ان کے کان میں یہ خوش خبری ڈال دیں گے کہ عمران خان کو گھر بھیج دیا ہے‘ اس پر دیکھیے گا کہ وہ دودھ مانگنا بند کر دیں گے۔ شاید یہی ایک دعویٰ کرنے کی کسر رہ گئی تھی کہ اگر کسی کا کوئی کام رکا ہوا ہے تو جیسے ہی عمران خان کو حکومت سے باہر نکالیں گے‘ سب کے رکے ہوئے کام ہو جائیں گے۔ یہ سب خواب آج ایک خوفناک تعبیر کی صورت میں ہر کسی کو ڈرا رہے ہیں‘ غریب اور نچلے متوسط طبقے کا کل بھی کوئی نہیں تھا‘ آج بھی کوئی نہیں ہے۔ عوام کے نام پر سیاست کرنے والے کل تک جس کو بد دیانت کہتے تھے‘ آج اسی کو دیانتدار ثابت کر رہے ہیں۔ جمہوریت میں عوام فیصلہ کرتے ہیں‘ کوئی ایک دوسرے پر لشکر کشی نہیں کرتا۔ آئین کی عزت اور حرمت کی قسمیں کھانے والے‘ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نوے روز میں انتخابات کرانے کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کی اپنی خواہشات پر مبنی تشریحات کیے جا رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید وہ نوشتۂ دیوار پڑھ چکے ہیں کیونکہ ان کا تیار کرایا گیا ہر زاویہ اور سروے چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ لوگ ان نجات مانگ رہے ہیں۔
28فروری کو بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ میں مزید کمی کیوں کی ہے‘ پاکستان کے غریب غربا کو اس کا علم نہیں لیکن اہلِ علم تو جانتے ہیں کہ موڈیز کی ریٹنگ مزید نیچے گرنے کا کیا مطلب ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں