گزشتہ دنوں شرقپور روڈ پر واقع ایک کالونی میں نصب ٹرانسفارمر عین اس وقت چوری کر لیا گیا جب حسبِ معمول اس علاقے کی بجلی منقطع ہوئی تھی۔ باخبر ملزمان یہ ٹرانسفارمر یقینا اپنے کندھوں کے بجائے کسی لوڈر قسم کی گاڑی میں ہی لے کر گئے ہوں گے۔ انہیں کوئی دیکھ بھی رہا ہو گا۔ اہلِ علاقہ کے سامنے پول پر چڑھ کر انہوں نے یہ ٹرانسفارمر اتارا ہو گا اور پھر کسی پک اَپ وغیرہ میں لوڈ کر کے لے گئے ہوں گے۔ یہ کم از کم چار‘ پانچ افراد پر مشتمل گینگ ہو گا۔ یہ تو ایک آبادی کی کہانی ہے‘ ضلع قصور میں ایک‘ آدھ نہیں بلکہ چار دنوں میں چار مقامات سے ٹرانسفارمرز چوری کیے جا چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کچھ ٹرانسفارمرز جب اتارے گئے‘ اس وقت بجلی کی سپلائی جاری تھی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ڈاکوئوں کے یہ منظم گروہ اس وقت کیا ''اَت‘‘ مچائے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی وارداتیں اور سینہ زوریاں اسی وقت ممکن ہو سکتی ہیں جب اتنی بڑی واردات کرنے والوں کو علم ہو کہ انہیں جرم کرتے ہوئے کوئی نہیں دیکھے گا اور اگر کسی کی نظر پڑ بھی گئی تو دیکھنے والے خود ہی آنکھیں جھکا کر کہیں دبک کر بیٹھ جائیں گے۔
چند روز پہلے ضلع قصور میں ایک نوبیاہتا جوڑا‘ جس کی شادی کو ابھی دو دن ہی ہوئے تھے‘ کسی عزیز کے ہاں دعوت کھانے کے بعد گھر واپس جا رہا تھا کہ ایک مصروف چوک میں ایک گاڑی نے اس جوڑے کو روکا، گاڑی سے کچھ لوگ اترے اور نئی نویلی دلہن کو اسلحے کے زور پر اٹھا کر یہ جا‘ وہ جا۔ یہ پاکستان کی ایک غریب بیٹی کے ساتھ ہونے والا وہ ظلم و ستم ہے جس نے اس کی پوری زندگی تباہ کر کے رکھ دی ہے۔ اس قسم کی دیدہ دلیری اور بے خوفی اسی وقت نظر آتی ہے جب مجرموں کو یقین ہو کہ انہیں نہ تو کوئی پکڑ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی روک سکتا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر میں ایسی بے خوفی اسی وقت دیکھی جا سکتی ہے جب انہیں پولیس و سیاسی شخصیات کی اشیرباد حاصل ہو، جب سفارش سے نہیں بلکہ پیسوں کے زور پر پوسٹنگز اور ٹرانسفرز ہونے لگیں۔ جب مجرموں کو ہر قسم کی سرپرستی حاصل ہو‘ تبھی بے خوفی ایک رواج بن پاتی ہے اور اسی وقت اس قسم کے جرائم کو ایک کھیل تماشا سمجھ کر سرانجام دیا جاتا ہے۔ پنجاب کے کسی بھی ضلع میں جرائم کے حوالے سے پولیس کا صرف ایک ماہ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجئے اور اگر سمجھتے ہیں کہ پورے ضلع کا ریکارڈ بہت بھاری ہو جائے گا تو پھر صرف لاہور کے نواحی علاقوں کا کرائم ریکارڈ اور میڈیا کی رپورٹس کو دیکھ لیجئے۔ ایسا لگے گا جیسے یہ کچے کا کوئی جنگل ہے جہاں رات ڈھلے نہیں بلکہ سرشام ہی جرم اس طرح ناچنا کودنا شروع کر دیتا ہے جیسے جنوں اور بھوتوں کے خوف سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ان علاقوں میں داخلہ ممنوع ہو۔ یہ راہزن‘ چور اور ڈاکو شتر بے مہار کی طرح جب چاہیں‘ جسے چاہیں فائرنگ کر کے اڑا دیں‘ جس کو چاہیں لوٹ لیں‘ جس کی بہن اور بیٹی کو چاہیں‘ اٹھا کر لے جائیں انہیں کوئی ڈر‘ کوئی خوف نہیں۔ افسوس کہ ڈپٹی کمشنرز‘ جو ضلع کے امن و امان کے انچارج ہوتے ہیں‘ کو کوئی خبر ہی نہیں۔ لگتا ہی نہیں کہ پورے ملک میں امن و امان کیلئے کوئی ایک بھی ذمہ دار تھوڑا سا بھی سنجیدہ ہے۔ سب لوگ سیاسی کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ساری مشینری الیکشن کے حوالے سے مینجمنٹ اور اپنے خاص بندوں کو مخصوص جگہوں پر لگوانے پہ لگی ہو گی تو پھر امن و امان کو کون دیکھے گا۔ ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے۔ یا تو سیاسی ایجنڈے پورے کیے جا سکتے ہیں یا عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
ضلع قصور کا ایک نوجوان رہائشی رحمت بدقسمتی سے ڈاکوئوں کے ایک گروہ کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس نے مزاحمت کا ارادہ ہی کیا تھا کہ بے خوف اور سفاک رہزنوں نے اس کی ٹانگ پر فائرنگ کر دی جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ ڈاکوئوں کے جانے کے بعد کچھ مقامی لوگوں نے اسے ہسپتال پہنچایا۔ مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ ٹانگ کی ہڈی آتشیں اسلحے سے اس قدر متاثر ہوئی کہ زخم پوری طرح بگڑ گیا اور پھر ڈاکٹروں کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ رہا کہ رحمت کی زندگی بچانے کیلئے اس کی ٹانگ کاٹ دی جائے۔ ٹانگ کٹ جانے کی وجہ سے اب یہ نوجوان زندگی بھر کے لیے معذور ہو چکا ہے۔ جہاں یہ تصور جڑ پکڑ لے کہ کوئی کمزور کسی طاقتور اور پیسے والا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘ اس کے جرائم پر اسے سزا نہیں دلوا سکتا‘ وہاں اشتہاریوں پر مشتمل اسلحہ بردار اور رحمت جیسے معذور افراد ہی دکھائی دیں گے۔ جب کوئی سنگین جرم سرزد ہوتا ہے‘ یا میڈیا و سوشل میڈیا پر کسی جرم کو لے کر خوب شور مچایا جاتا ہے‘ تب محکمۂ پولیس کے چند ذمہ داران کسی بڑے ڈیرے دار کے پاس جاتے ہیں اور وہاں موجود چند اشتہاریوں کو پکڑ کر 'سرکاری مہمان‘ بنا لیتے ہیں۔ اس پر کیسز ایسے بنائے جاتے ہیں کہ ایک طرف فائلوں کا پیٹ بھر جائے اور دوسری طرف جب اسے نکالنا پڑے‘ نکال لیا جائے۔ قانون، پولیس، انتظامیہ اور عوام کے درمیان یہ آنکھ مچولی کئی دہائیوں سے چلی آ رہی ہے۔
اگر پنجاب کی بات کریں تو لاہور، شیخوپورہ، نارووال، قصور اور گجرات کے نواح سمیت متعدد اضلاع میں طاقتور سیاستدانوں کے ڈیروں پر کئی اشتہاری آرام کرتے مل جائیں گے۔ ہر باخبر صحافی یہ بات جانتا ہے۔ اپنی پوسٹنگ لینے کیلئے آنے والا ہر چھوٹا بڑا افسر بھی ان افراد کو ڈیروں پر دیکھ چکا ہے لیکن کسی کی ہمت نہیں کہ ان کو ہاتھ بھی لگا سکے۔ اگر جرائم کی بنیاد پر علاقوں کا تعین کیا جائے اور پھر پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو محکمے کی کالی بھیڑوں کی بہ آسانی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ اگر اعلیٰ حکام جرائم میں کمی ہی نہیں بلکہ ان کا مکمل خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے انہیں سائنسی اور جنگی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا۔ گو کہ راستہ کٹھن اور وقت طلب ہے لیکن آج کیا ہوا یہ کام ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے باعثِ راحت ہو گا۔ قانونی طور پر کسی بھی تھانے کا ایس ایچ او اپنے علاقے میں ہونے والے جرائم کا براہِ راست ذمہ دار ہوتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ایک بھی تھانہ اپنے علاقے میں موجود جوا خانے، قحبہ خانے، منشیات فروشوں کے اڈے اور جعلی اشیا کی تیاری سے بے خبر ہو؟ جب ہر غیر قانونی دھندے سے منتھلی نیچے سے اوپر تک جاتی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پولیس کو اپنے علاقے میں رہنے والے جرائم پیشہ افراد اور ان کے ٹھکانوں کا علم نہ ہو؟ چند باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یکایک جرائم میں اضافے کی وجہ کچھ ڈیرے داروں کی جانب سے الیکشن کے اخراجات اکٹھے کرنے کے لیے دی جانے والی ''ملازمتیں‘‘ ہیں، ورنہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دیپالپور روڈ‘ جہاںساری رات ٹریفک چلتی رہتی ہے‘ وہاں ایک ہفتے میں لاری اڈے سے 9 دکانوں کے شٹر اور تالے توڑ کر اندر موجود تمام سامان لوٹ لیا جائے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا یہ بھاری ساز و سامان چور اپنی جیبوں میں ڈال کر لے گئے تھے؟ اس قسم کی کارروائی کے لیے کئی گھنٹے درکار ہوتے ہیں اور یہ دیدہ دلیری ایسے ہی نہیں آ جاتی۔ بڑے شہر ہوں یا چھوٹے دیہات و قصبات‘ سبھی علاقے اس وقت چوروں‘ ڈاکوئوں اور رہزنوں کے رحم و کرم پر ہیں اور کسی شہری کی جان و مال محفوظ نہیں۔
البتہ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری پولیس کے پاس نہ تو مطلوبہ نفری ہے اور نہ ہی ضروری سامان اور ذرائع آمدورفت۔ سرکار کی جانب سے تو پٹرول بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں کوئی اہلکار کیا کر سکتا ہے؟ اگر حکومت پٹرول کی فراہمی یقینی بنانے کے بعد پولیس افسران کو الاٹ کیے گئے تھانوں اور علاقوں میں ہونے والی وارداتوں کی سختی سے باز پرس کرے تو اس سے جرائم میں نمایاں حد تک کمی ہو سکتی ہے۔ کسی زمانے میں ہر تھانے میں ''بیٹ انچارج‘‘ ہوتے تھے۔ ان کو علاقے کے ایک ایک گھر، ہر دکاندار، گھروں میں آنے والے مہمانوں تک کی تعداد بارے درست خبر ہوتی تھی۔ علاقے کے لوگوں کا ذریعہ معاش اور وسائل کا بخوبی اندازہ ہوتا تھا۔ جیسے ہی کوئی شخص اپنی چادر سے باہر نکلتا دکھائی دیتا‘ اس پر کڑی نظر رکھ لی جاتی اور ساتھ ہی مخبروں کو اس کے پیچھے لگا دیا جاتا لیکن اس وقت ملک کی آبادی دس کروڑ سے بھی کم تھی اور مشروموں کی طرح جگہ جگہ کالونیاں اور بے ہنگم گھروں کی بھرمار نہیں تھی۔ ملک کی آبادی جس تیزی سے بڑھی ہے‘ پولیس کے وسائل میں اسی رفتار سے کمی آئی ہے۔