وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ آف پاکستان کے فلور پر کھڑے ہو کر کہا ''آئی ایم ایف کے کہنے یا کسی کی ڈیمانڈ پر ہم اپنے لانگ رینج میزائل کوختم یا انہیں تیار کرنے کے مراحل کو فریز نہیں کریں گے‘‘۔ وزیر خزانہ کی زبان سے جرأت و ہمت کے یہ الفاظ سن کر دل خوش ہو گیا مگر ساتھ ہی کچھ دکھ ہوا اور غصہ بھی آیا کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو پاکستان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہ رہے ہیں۔ وہ کون ہیں جو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کو بلیک میل کرتے ہوئے اس پر دبائو ڈال کر اس کی طاقت کو کمزور یا محدود کرنے کے خواہش مند ہیں۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور ان کی مددگار تمام قوتیں آج سے نہیں‘ قریب پچاس سال سے یہی ایک پلان بنائے ہوئے تھیں کہ پاکستان جو ایک بڑی مسلم ریاست ہے‘ کے پاس ایٹمی صلاحیت کو نہ آنے دیا جائے۔ انہوں نے پوری دنیا کو ڈرایا کہ پاکستان کے پاس جوہری طاقت آ جانے سے دنیا میں بڑا طوفان آ جائے گا کیونکہ ان کی نظروں میں یہ حق صرف غیر مسلم ملکوں کو ہی مل سکتا ہے۔ بھارت نے پہلے مئی 1974ء میں ایٹمی دھماکا کیا اور پھر مئی 1998ء میں اس نے ایٹمی دھماکے کیے، کسی ایک ملک نے بھی بھارت پر پابندیوں کی بات نہیں کی۔ 1998ء کے اوائل میں پاکستان کے پاس یہ کنفرم اطلاعات پہنچ چکی تھیں کہ بھارت ایٹمی دھماکے کرنے جا رہا ہے‘ اس پر دفتر خارجہ نے پوری دنیا میں اپنے سفارتخانوں کو متحرک کیا جنہوں نے سبھی اہم ممالک بالخصوص امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور جاپان وغیرہ کو خبردار کیا اور ساتھ ہی درخواست کی کہ بھارت کو اس اقدام سے باز رکھا جائے۔ پاکستان کا مطلب واضح تھا کہ اگر بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے‘ تو پاکستان‘ جو تمام تر عالمی پابندیوں کے باوجود ایٹمی طاقت بن چکا تھا‘ کے پاس بھی اپنی جوہری طاقت کے اظہار کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا تاکہ خطے میں طاقت کا بیلنس متاثر نہ ہو۔ مگر کسی ایک ملک نے بھی پاکستان کی اپیل پر کان نہیں دھرے۔ یہی وجہ ہے کہ مئی 1998ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کو بھی چھ ایٹمی دھماکے کر کے اپنی طاقت کا اظہار کرنا پڑا مگر پھر پاکستان کو سخت ترین معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ایٹمی دھماکوں کے فوری بعد امریکہ سمیت سبھی مغربی ملکوں نے پاکستان پر طرح طرح کی پابندیاں لگا دی تھیں۔ اگرچہ معاملات کو بیلنس کرنے کے لیے کچھ پابندیاں بھارت پر بھی لگائی گئیں مگر بھارت پر لگائی گئی پابندیاں پاکستان کے مقابلے میں عشرِ عشیر بھی نہیں تھیں۔ وجہ صرف یہ تھی کہ امریکہ سمیت مغربی طاقتیں خود یہ چاہتی تھیں کہ بھارت ایک ایٹمی طاقت بنے اور اس مقصد کے لیے اسے بھرپور معاونت بھی فراہم کی گئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مغرب اور امریکہ بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنا چاہتے تھے۔ دلچسپ اور قابلِ غور تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی دھماکوں سے قبل بھارت کی تمام تر دھمکیاں پاکستان کے لیے تھیں اور ان میں چین کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ پاکستان کا بہترین ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو جانے کا کرشمہ آج بھی مغربی طاقتوں کو ہضم ہونے میں نہیں آ رہا اور اسی لیے گاہے گاہے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہرزہ سرائی کی جاتی ہے۔
جب سے وزیر خزانہ نے یہ بیان دیا ہے‘ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ جب اس ملک میں وزیر دفاع اور وزیر خارجہ موجود ہیں تو پھر ملک کی نیوکلیئر صلاحیتوں کو محدود یا کنٹرول کرنے سے انکار کا پالیسی بیان وزیر خزانہ کے دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ جس بات نے تمام معاملات کو مزید الجھا دیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے وزیر خزانہ کے اس بیان کی یہ کہتے ہوئے نفی کر دی ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اس قسم کا کوئی بھی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ خود آئی ایم ایف کی جانب سے بھی اس کی تردید کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی نمائندہ برائے پاکستان ایسٹر پریز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق قیاس آرائیوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات صرف معاشی پالیسی پر ہو رہے ہیں‘ ایٹمی پروگرام تو کبھی زیرِ بحث ہی نہیں آیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا تو وزیر خزانہ نے سینیٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر ایسا بیان کیوں اور کس کے کہنے پر دیا؟ آخر اس قسم کے بیان کا مقصد کیا تھا؟ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بھی سوال کیا ہے کہ وزیر خزانہ نے سینیٹ میں ایٹمی پروگرام پر بیان کیوں دیا؟ کیا ان کو جوہری معاملات پر بیان دینا چاہیے تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ اس بیان نے ملک میں ایک بحران‘ نئی بحث کو جنم دیا ہے، اس بیان پر وزارتِ خارجہ کی ترجمان کو اپنی پریس بریفنگ میں وضاحت دینا پڑی، حکومتیں آتی اور جاتی رہی ہیں، قوم نے اپنی بقا اور دفاع کیلئے اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کی ہے۔ ادھر امریکی سینٹ کام کے سربراہ جنرل مائیکل ای کوریلا نے واشنگٹن میں سینٹ آرمز سروسز کمیٹی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِس وقت پاکستان میں بجٹ، مالی، سیاسی اور انسدادِ دہشت گردی کی صورتحال پر تشویش پائی جاتی ہے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم پر کوئی شبہ نہیں۔سوال یہ ہے کہ اچانک پاکستان کا ایٹمی پروگرام کیوں ہر جگہ موضوعِ سخن بن رہا ہے؟ بعض ناقدین تو معاشی بحران کو ایک سوچے سمجھے منصوبہ کا حصہ بتاتے ہیں اور مقصد اُس کا اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ بالآخر معاملات کو ایسی نہج پر لایا جائے جہاں ایٹمی پروگرام کمپرومائز ہو سکے۔کچھ ناقدین اس قسم کے بیانات کو عوام کی نبض چیک کرنے کا حربہ قرار دے رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کی اس تقریر کے بعد سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا لکھا گیا خط الارمنگ حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے لکھے گئے خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر شریف برادران اور ملک کے ادارے اس معاملے پر ایک پیج پر نہیں۔
اس ساری بحث کو یہیں روک کر پچھلے سال جون میں دیے گئے عمران خان کے ایک بیان کا جائزہ لیتے ہیں۔ عمران خان نے حکمران اشرافیہ کے غلط معاشی فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ صحیح فیصلے نہ کیے تو نہ صرف ایٹمی اثاثوں پر کمپرومائز کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ ملک کی سالمیت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس وقت عمران خان کے اس بیان کو ''ناپاک‘‘ بیان قرار دے کر یکسر رد کر دیا گیا تھا اور اب وزیر خزانہ سینیٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر بیان دے رہے ہیں کہ ایٹمی اثاثوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ سوال وہی ہے کہ سمجھوتا کرنے پر مجبور کون کر رہا ہے؟ اور یہ بیان دینے کی نوبت کیوں آئی۔ یہ بھی عمران خان ہی تھے‘ چند ماہ قبل جنہوں نے عملی طور پر ملک کے دیوالیہ ہونے کی بات کی تو اس بیان کو غداری اور ملک دشمنی سے تعبیر کیا گیا مگر یہی بیان جب وزیر دفاع نے دیا تو سب گنگ نظر آئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیان کھڑے پانی میں پتھر پھینک کر اس کی گہرائی چیک کرنے کی کوئی کوشش تو نہیں؟ کیا لانگ رینج میزائلز پر واقعی اعتراضات کیے جا رہے ہیں؟ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ تمام وزرا اس حوالے سے مہر بہ لب نظر آ رہے ہیں۔ وزیر دفاع صاحب‘ جو ہر اتوار کو سیالکوٹ اور قومی اسمبلی کے ہر اجلاس میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف تقریریں کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ وہ بھی خاموش ہیں۔ ملک کے ایٹمی اثاثوں سے متعلق وزیر خزانہ کے بیان کے بعد انہوں نے ایک بار بھی اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ یہ خاموشی بہت سے خدشات کو تقویت دے رہی ہے۔ خود وزیراعظم صاحب نے بھی کوئی واضح قومی پالیسی بیان نہیں دیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جو عوام کو خوف زدہ کیے جا رہا ہے۔ کیا حکمرانوں کی عیاشیوں اور بدترین معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک کی تشویشناک معاشی صورت حال کا قوم کو یہ نتیجہ دیکھنا پڑے گا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کے دور مار میزائل پروگرام پر قدغن لگانے کیلئے آگے بڑھنا شروع ہو جائیں گے؟ قوم کو بتایا جائے کہ سینیٹ آف پاکستان کے گولڈن جوبلی اجلاس میں وزیر خزانہ کو یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟