اچھے مالیوں کوہمیشہ یہی کہتے سنا ہے کہ اگر درختوں کی کانٹ چھانٹ کی جاتی رہے تو درخت پھلتا پھولتا رہتا ہے اوراس کا تنا بھی مضبوط رہتا ہے۔ بڑے بزرگ تو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر درختوں کی جڑوں میں خون بہایا جائے تو اس سے اس درخت کا پھل میٹھا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی جڑیں بھی مضبوط ہو جاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر افراد عیدا لاضحی کے موقع پر قربانی اپنے گھر کے لان یا کیاریوں وغیرہ میں کرتے ہیں تاکہ جانوروں کا خون مٹی میں مل جائے اور درختوں‘ پودوں کی جڑوں کو تقویت دے۔ شاید مختار مسعود نے اپنی کتاب ''آوازِ دوست‘‘ میں اسی قسم کے کسی تجربے کی بنیاد پر لکھا تھا کہ جن سرحدوں کو خون نہ دیا گیا ہو‘ وہ سرحدیں مٹ جایا کرتی ہیں۔
ایسا شجر جس کی کانٹ چھانٹ اس طرح کی جا رہی ہو کہ سب کو یہ محسوس ہونے لگے کہ سوائے تنے کے‘ اب اس کا کچھ بھی نہیں بچے گا تو پھر ایسے میں آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں کہ سایہ دار اشجار کو مٹ کاٹیے!۔ وہ لوگ جنہیں شجر کاری کا کچھ تجربہ نہیں یا جنہیں وہ درخت ایک آنکھ نہ بھاتے ہوں جن کے لگے ہوئے پھل ان کے آنگن میں نہ گرتے ہوں یا جو ان کی گھنی چھائوں کے بجائے دھوپ کے خواہشمند ہوں یا وہ لوگ جن کے اپنے چھوٹے چھوٹے جھاڑیاں اور پودے نما درخت ہوں‘ وہ کسی بڑے سایہ دار درخت کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ ا س لیے وہ تو یہی کہیں گے کہ ان کے سینوں پر مونگ دلنے والا یہ درخت‘ جس کو تیز دھار آلات سے کاٹا جا رہا ہے‘ جلد ہی سوکھ جائے گا اور جلد ہی اس لاوارث اور سوکھے تنے کو بے کار سمجھ کرکوئی لکڑ ہارا جڑ وں سے ہی اسے اکھاڑ کر لے جائے گا۔ ممکن ہے کہ نشان کے طور پر اس کی کوئی ایک آدھ سوکھی ہوئی جڑ باقی رہ جائے جوہر آنے جانے والے کو یاد دلاتی رہے گی کہ اس گڑھے میں کبھی ایک شاندار اور دو ر دور تک پھیلا ہوا سرسبز درخت ہوا کرتا تھا۔ وقت اسی طرح گزرتا جائے گا اور پھر کچھ عرصے تک اس درخت کی شاخوں سے جھولا جھولنے والے، اس کے سائے میں بیٹھنے والے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے یا اس کا تذکرہ کر کر کے یہی بتاتے رہیں گے کہ یہاں ایک بہت ہی گھنا اور سایہ دار درخت ہوا کرتا تھا‘ اب تو اس کے آثار بھی باقی نہیں رہے۔ اگر کسی درخت کی تراش خراش کے بجائے اس کی تمام شاخوں کو کاٹنا شروع کر دیا جائے، اس پر لگے پھلوں اور کلیوں کو نوچ کر انہیں کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا جائے تو یہ اس علاقے اور اس کے مکینوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔
ایسا شجر جس کے سائے تلے لوگوں نے آرام کیا ہو‘ اس پر کلہاڑوں کے تیز وار سے تمام شاخیں اور چھوٹی موٹی ٹہنیاں کاٹ کر پھینک دی جائیں، اس درخت کی بڑی بڑی شاخوں کو کاٹ کر لے جانے والے اپنے لیے اچھی اچھی میز وں اورگھومنے والی کرسیوں کی شکل دے ڈالیں یا اپنے لیے کمالِ فن سے تیار کرا یا گیاآرام دہ صوفہ بنا کر اس پر فخر کرتے پھریں‘ ہر آئے گئے کو اس کی پائیداری کی کہانیاں سنانی شروع کر دیں او راس درخت کی بنائی گئی پرشکوہ کرسیوں پر بیٹھ کر کسی کو خاطر میں ہی لانا چھوڑ دیں اور گھر گھر جا کر اس کرسی کو تیار کرنے والی فرنیچر کی کمپنی یا ورکشاپ کے حوالے دینا شروع ہو جائیں تو یہ انہی کو زیبا ہے۔ وہ شاید سمجھتے ہوں گے کہ اب یہ کرسیاں اتنی مضبوط اور پائیدار ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوں گی۔ بنانے والوں نے ان کی پائیداری کی گارنٹی دے دی ہے تو ان کی بات پر یقین کرنے کے علا وہ اور کوئی چارہ بھی نہیں لیکن وہ شاید بھول جاتے ہیں کہ اس ایک خالق و مالک کے سوا ہر شے نے فنا ہو جانا ہے۔ اس لیے اس شجر کو کلہاڑوں سے تہس نہس کر کے بنائی جانے والی لکڑی سے بنی تمام اشیا نے بھی ایک مقرر کردہ مدت کے بعد فنا ہو جانا ہے، ویسے بھی مانگی تانگی اشیا کب تک ان کے ساتھ چل سکیں گی ۔آج جو ان کرسی پر بیٹھ کر جامے سے باہر ہو رہے ہیں‘ دیکھ لیجئے گا کہ ایک دن یہی کرسیاں اور صوفے گھر آئے مہمانوں کو ان کی مرضی کا آرام نہ دے سکیں گی اور پھر یہ سب فرنیچر اٹھا کر باہرپھینک دیا جائے گا۔
کچھ لوگ یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ درخت کی جو بڑی شاخیں کاٹی گئی ہیں‘ انہیں اپنے آنگن میں جا کر لگا دیں۔ اس امید پر وہ انہیں پانی بھی دیتے رہتے ہیں کہ شاید یہ ہری بھری ہو جائیں۔ اگر وہ ان شاخوں کی بنیادوں میں پانی کی جگہ خون بھی ڈالیں تو یہ شاخیں ہری بھری نہیں ہو سکیں گی کیونکہ وہ شجرکاری کا بنیادی اصول فراموش کر رہے ہیں کہ ہر وہ درخت، پودا، جھاڑی‘ جس کی کوئی بنیاد نہ ہو وہ چند دن تک اپنے سبزے سے لوگوں کا دل تو لبھا سکتی ہے مگر پھر اس کی قسمت میں مرجھا جانا طے ہے۔ ان کا حال وہی ہوتا ہے جو گلدستے میں لگے پھولوں کا ہوتا ہے۔ رنگ برنگے پھول گلدستے میں حسین بہت لگتے ہیں مگر ان کی عمر زیادہ نہیں ہوتی ۔ چند دن بعد تمام پھول ایک ایک کرکے مرجھانے لگتے ہیں اور پھر پھولوں کی خوشگوار اور دلفریب خوشبو آہستہ آہستہ ایک ناگوار باس میں تبدیل ہو جاتی ہے اور آخرِ کار اس کا مقدر کچرے کی ٹوکری ہی بنتی ہے۔ ہرگلدستہ‘ خواہ کتنا ہی حسین ہو‘ آخرکار کچرے کا ہی حصہ بنتا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ گلدستوں کو پانی میں رکھ کر کچھ زیادہ دیر کے لیے محفوظ بنا لیتے ہیں مگر ہر طرح کی دیکھ بھال بھی ان پھولوں کو مرجھانے سے نہیں روک سکتی کیونکہ وہ پیڑ پودے‘ جن کی بنیادیں مٹی میں نہ ہوں یا جن کی جڑیں گہری نہ ہوں وہ موسم کی گرمی سردی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتے۔ اور جن کی جڑیں سرے ہی سے نہ ہوں‘ ان کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنے کے لیے نباتات کا ماہر ہونا ضروری نہیں۔
یہ قدرت کا اصول ہے کہ وہ درخت جس کی شاخوں اور ٹہنیوں کو کاٹ دیا جاتا ہے‘ وہ درخت اپنے مضبوط تنے کی وجہ سے کئی ہفتوں‘ مہینوں بعد بھی اسی جگہ کھڑا ملے گا۔ خدائے بزرگ و بر تر کی صناعی کا یہ اعجاز ہے کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کر دیتا ہے۔ وہ درخت جس کی تمام شاخیں کاٹ لی جاتی ہیں جسے کے ٹہنے ایک ایک کر کے الگ کر دیے جاتے ہیں‘ وہی درخت کچھ عرصے بعد پھرسے ہرا بھرا ہو جاتا ہے۔ دوبارہ اس میں کونپلیں پھوٹتی ہیں‘ کلیاں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد یہ کلیاں پھل کی شکل اختیار کر کے اپنی بہاریں دکھانے لگتی ہیں۔ اس شجر کا سایہ پھر سے چاروں جانب پھیلتا جاتا ہے اور لوگ اس کے نیچے آرام کرتے ہیں‘ اس کے پھل کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن جن شاخوں اور ٹہنیوں کو درخت سے کاٹ کر الگ کیا جاتا ہے‘ وہ فرنیچر کی تیاری میں نصف سے بھی کم رہ جاتی ہیں، کچھ شاخیں سوکھ کر کسی تنور کا ایندھن بن جاتی ہیں تو کچھ خواہشوں بھرے چولہے پر جل کر راکھ ہوجاتی ہیں۔ اگراس شجر کے کسی بڑے ٹہن سے کسی نے تانگے یا چھکڑے کا پہیہ بنا لیا ہو تو وہ سواری یا سامان کی صورت خود پر لادا گیا بوجھ ڈھوتا رہے گا جو اس کی کمر توڑتا رہے گا۔ کسی گھنے سایہ دار درخت کو کاٹنے چھاٹنے سے کیا مل جائے گا؟ سوائے چند کرسیوں کے، لیکن اگر یہ درخت کھڑا رہے تو اس کا فائدہ اس دھرتی کو‘ اس زمین کو ہی پہنچے گا۔ اس گھنے شجر سے ماحول بھی اچھا رہے گا‘ تازہ آکسیجن ملتی رہے گی‘ پھل پھول بھی کھلتے رہیں گے‘ علاقے کے لوگ بھی اس سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے لیکن لگ رہا ہے کہ اب آکسیجن یا ماحولیات کی کسی کو پروا ہی نہیں۔ بس ایک ضد سی ہے کہ جب تک اس شجر سے نجات نہیں مل جاتی‘ جب تک یہ شجر کسی کونے میں نہیں لگادیا جاتا‘ اس وقت تک نہ تو اس کے ارد گرد کی زمین کاشت کی جائے گی اور نہ ہی یہاں فصلیں لہلائیں گی؟
اگر کسی کو یہ اعتراض ہے کہ لوگ اس درخت کے نیچے گائوں کی پنچایت کیوں لگاتے ہیں تو اس پنچایت کا یا درخت کا کیا قصور۔ کسی بھی مسئلے یا جھگڑے پر پنچایت نے تو حق اور سچ کا ہی فیصلہ کرنا ہے۔ اگر اعتراض یہ ہے کہ پنچایت سے فلاں فلاں کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا تو یہ بات مناسب نہیں لگتی کیونکہ پنچایت کا کام فیصلہ کرنا ہے، اگر اس فیصلے میں انصاف ہی نہ ہو تو ایسی پنچایت کا کیا فائدہ؟ اگر اس پنچایت کا فیصلہ حق اورسچ کے ساتھ دیا گیا ہو تو پھر اس سایہ دار شجر اور اس کے سائے تلے لگنے والی پنچایت بے قصور ہیں۔