ملکی تاریخ میں پہلی بار یومِ آزادی کے موقع پر دفعہ 144 کے نفاذ کی خبریں سننے کو ملیں۔ لوگوں کو ریلیاں نکالنے سے روکا گیا۔ یہ پابندیاں پاکستان کا مقدر تو نہیں! یہ کیسے ہوا‘ کس نے کیا؟ ہمیں اپنی نسلوں کو آزادیوں کے تحفے دینے ہیں نہ کہ ان کی آزادیاں سلب کرنی ہیں۔
عمومی طور پر تمام انسان بینائی لے کر پیدا ہوتے ہیں اور جو قدرتی طور پر قوتِ بصارت سے محروم ہوتے ہیں‘ ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ بہت سے لوگ مکمل اور صحیح قوتِ بصارت کے حامل ہونے پر بھی اپنے گرد و پیش کے حالات و واقعات کو ٹھیک سے نہیں دیکھ پاتے کیونکہ ان کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہوتی ہے۔ البتہ جو اہلِ بصیرت ہوتے ہیں‘ وہ حالات و واقعات اور معاملات کو تعصب سے نہیں بلکہ فہم و فراست، ہوش مندی اور دانائی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری نہیں کہ جو بصارت رکھتا ہو‘ وہ بصیرت کا بھی حامل ہو۔ المیہ یہ ہے کہ جب بھی اہلِ بصیرت کوئی راستہ دکھاتے ہیں تو وہ تمام لوگ‘ جو بصارت تو رکھتے ہیں مگر بصیرت سے محروم ہوتے ہیں‘ اپنی تمام تر قوتِ بصارت کے باوجود کچھ دیکھ نہیں پاتے اور اگر انہیں کچھ نظر آتا بھی ہے تو اُلٹا پلٹا۔ یہ ساری تمہید اس لیے باندھی گئی کہ ملک میں آج بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو تعداد میں تو بہت قلیل ہے مگر ہر شعبۂ زندگی پر پوری طرح محیط ہے اور یہ دو قومی نظریے کے خلاف الٹی گنگا بہانے اور عوام کے دلوں میں شک کے بیج بونے میں ایک لمحے کا بھی توقف نہیں کرتا۔ یہ نام نہاد ''اہلِ بصیرت‘‘ پریشانیوں میں گھرے آج کے پاکستانیوں کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ ان کی غربت‘ معاشی مشکلات اور تکلیفوں کا حل صرف اس میں ہے کہ بھارت کو اپنا دوست بنا لیں۔ ان کے بقول جب بھارت تمہارا دوست بن جائے گا‘ اس کے ساتھ تجارت شروع ہو جائے گی‘ ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا شروع ہو جائے گا تو پھر دونوں ملکوں کے وہی تعلقات ہو جائیں گے جو ''بٹوارے‘‘ سے پہلے تھے۔ پھر کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ۔ اس طرح جنوبی ایشیا کے اس خطے میں ڈیڑھ ارب لوگ امن اور چین سے رہنے لگیں گے۔ سننے کی حد تک یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں مگر یہ دانشور اصل حقائق اور تقسیمِ ہند سے پہلے کے ہندوستانی معاشرے کے حقائق کو فراموش کر دیتے ہیں۔
دو قومی نظریے کی مخالفت کی آڑ میں کچھ لوگ اپنی دکانداری اور سیاست چمکاتے رہتے ہیں۔ ان کے قائداعظم اور دو قومی نظریے کے متعلق دیے جانے والے دلائل کو حقائق اور سچائی کی آنکھ سے دیکھنے کیلئے بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے موہن داس گاندھی کو لکھے گئے خطوط کے مندرجات دیکھئے۔ 10 ستمبر سے 30 ستمبر 1944ء تک کی خط و کتابت میں‘قائداعظم محمد علی جناحؒ نے گاندھی کے نام مکتوبات میں لکھا ''قرآن مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے‘ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرضیکہ سب شعبوں کے احکامات موجود ہیں۔ مذہبی رسومات سے لیکر روزمرہ کے امورِ حیات تک، روح کی نجات سے لیکر جسم کی صحت تک، فرد کے حقوق سے جماعت کے حقوق و فرائض تک، دنیاوی زندگی میں جزا و سزا سے لیکر عاقبت کی جزا و سزا تک، غرض ہر قول‘ فعل اور حرکت پر قرآن مکمل احکام کا مجموعہ ہے، لہٰذا جب میں آپ سے کہتا ہوں مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات و بعد حیات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوں کہ ہر مسلمان کیلئے قرآنی تعلیمات محض عبادات و اخلاقیات تک محدود نہیں بلکہ قرآن کریم مسلمانوں کا دین و ایمان اور قانونِ حیات ہے۔ یہ مذہبی، معاشرتی، تجارتی، تمدنی، عسکری، عدالتی امور اور تعزیری احکام کا مجموعہ ہے۔ ہمارے رسولﷺ کا یہ حکم ہے کہ ہر مسلمان اللہ کے کلام پاک کا غور و خوض سے مطالعہ کرے تاکہ یہ اس کی انفرادی اور اجتماعی ہدایات کا باعث ہو‘‘۔
اسی طرح قائد اعظم نے 4مارچ 1946ء کو شیلانگ میں خواتین کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''ہندو بت پرستی کے قائل ہیں، ہم نہیں ہیں۔ ہم مساوات، حریت اور بھائی چارے کے قائل ہیں جبکہ ہندو ذات پات کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم صرف ایک بیلٹ بکس میں اکٹھے ہو جائیں۔ آئیے! اپنی کتاب مقدس قرآنِ حکیم اور حدیث نبوی اور اسلام کی عظیم روایات کی طرف رجوع کریں جن میں ہماری رہنمائی کیلئے ہر چیز موجود ہے‘‘۔ وہ دانشور اور لبرل حضرات جو ہمہ وقت جنوبی ایشیا میں ایک بڑی طاقت کے نصاب کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں اور قائداعظم کو سیکولر ثابت کرتے نہیں تھکتے‘ جو پاکستان کے نام سے وجود میں آنے والی ایک علیحدہ مملکت کو دو قومی نظریہ کا مرہونِ منت نہیں سمجھتے‘ ان کی حقائق سے چشم پوشی اور مقاصد پاکستان سے انحراف مذکورہ اقتباسات سے واضح ہو جاتا ہے۔
1943ء میں‘ جب ابھی محمد علی جناح کو قائداعظم کا خطاب بھی نہیں ملا تھا‘ جب پاکستان کا مطالبہ ایک خواب کی حیثیت رکھتا تھا‘ مشہور برطانوی وقائع نگار بیورلے نکولس (Beverley Nichols) نے ہندوستان کا ایک طویل مدتی دورہ کیا اور اس دوران قائداعظم محمد علی جناح اور گاندھی سمیت تمام سرکردہ ہندو اور مسلم لیڈران سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ اپنے دورۂ ہندوستان پر اس نے ''Verdict On India‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں بتایا ''کوہاٹ میں ایک ہندو کی لکھی ہوئی ایک نظم نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیاں وہ فساد برپا کیا کہ اس میں 155 افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور ہزاروں لوگ خوف و ہراس سے اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس نظم میں اس ہندو نے اسلام کی توہین کی تھی۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان جو نفرت پائی جاتی ہے وہ اس قدر نمایاں ہے کہ اس کی وضاحت قارئین کی ذہانت کی توہین کے مترادف ہو گی‘‘۔ بیورلے نے اُس وقت لکھا تھا کہ اس بات کے قوی امکانات نظر آ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ علیحدہ مملکت‘ جسے ابھی خیالی مملکت کہا جاتا ہے‘ ایک روز دنیا کے نقشے پر ابھرے گی اور جب کبھی یہ مسلم ریاست نمودار ہو گی تو ایشیا میں کلی طور پر نئے حالات جنم لیں گے، قوت کا توازن بگڑ جائے گا اور دنیا کے ہر ملک کو اپنی پالیسی بدلنا پڑے گی۔ بیورلے کے مطابق: پاکستان کی مجوزہ مملکت کے پس منظر میں جو جذبات کام کر رہے ہیں‘ ان کا مطالعہ ضروری ہے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی جو خلیج ہے اس کا علاج پاکستان کے قیام کے سوا کچھ نہیں۔
آج یو پی اور ہریانہ سمیت پورے بھارت میں جو کچھ مسلمانوں کیساتھ ہو رہا ہے یہ انفرادی فعل نہیں بلکہ ہندوتوا کی اجتماعی سوچ کا نتیجہ ہے۔ وہ حضرات‘ جو دن رات اٹھتے بیٹھتے دو قومی نظریے کو چند جذباتی مسلمانوں کی اختراع کا نام دیتے نہیں تھکتے اور ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیتے ہیں‘ مشہور مفکر ڈاکٹر امبیدکر کی کتاب Thought On Pakistan پڑھ لیں۔ وہ لکھتے ہیں ''ویسے تو پورے ہندوستان میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے خون کی ہولی کھیلتے رہتے ہیں لیکن بمبئی کی صورتحال سامنے رکھیں تو فروری 1929ء سے اپریل 1938ء تک کا اس پُرسکون شہر کا ریکارڈ یہ ہے کہ 1929ء میں دو بار ہندو مسلم فسادات ہوئے‘ پہلا فساد 36 روز جاری رہا جس میں 149 افراد ہلاک اور 739 زخمی ہوئے۔ دوسرا فساد 22 روز جاری رہا جس میں 35 افراد ہلاک اور 109 زخمی ہوئے۔ 1930ء تا 1932ء چار فسادات ہوئے۔ 1932ء کے فسادات‘ جو 49 روز جاری رہے‘ میں دونوں اطرف کے 270 افراد ہلاک اور 2713 زخمی ہوئے۔ 1936ء کا فساد سب سے زیادہ خونریز تھا جو مسلسل 65 روز تک جاری رہا‘‘۔ دو قومی نظریہ اور قیام پاکستان کے پس منظر کو نہ سمجھنے والوں کیلئے ممبئی کی اس بیس سالہ خانہ جنگی کا ریکارڈ اگر کافی نہیں تو میرٹھ اور گودھرا کے تین ہزار مسلمانوں کا قتل عام دیکھ لیں یا ایک نظر 2014ء کے بعد کے بھارت پر ڈال لیں، جس کے بعد ہر پاکستانی کے دل سے صدا نکلتی ہے: شکریہ پاکستان!