خبر ہے کہ اسلام آباد کی خاتون نے ایمرجنسی پولیس ہیلپ لائن 15 پر کال کی اور کہا کہ میرے بچے دن سے بھوکے ہیں جس پر متعلقہ اہلکاروں کو اطلاع دی گئی اور تھوڑی ہی دیر بعد ایک پولیس اہلکار خاتون کے گھر راشن لے کر پہنچ گیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ لیہ میں پیش آیا جہاں ایک مفلوک الحال کنبے کے سربراہ نے بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ کر ایمرجنسی نمبر 15پر کال کی اور کہا کہ بھوک کے سبب وہ خودکشی کرنا چاہتا ہے‘ ایک آخری امید کے طور پر پولیس کو کال کر رہا ہے، کچھ ہی دیر بعد متعلقہ ڈی پی او راشن اور دیگر سامان لے کر نہ صرف اس مفلوک الحال آدمی کے گھر پہنچ گئے بلکہ ایک راشن بینک بھی قائم کر دیا اور اعلان کیا کہ اس ناقابلِ برداشت مہنگائی اور گرانی کے دور میں خود کشی کر کے گنہگار ہونے کے بجائے پولیس سے حسبِ ضرورت راشن حاصل کر سکتے ہیں۔ یقینا یہ پولیس فورس کے وہ کام ہیں جنہیں نمایاں کرنے کی ضرورت ہے ، مگر دیکھا گیا ہے کہ ایک طرف پولیس اپنی امیج بلڈنگ کا کام کرتی ہے تو دوسری جانب کوئی ایسا واقعہ پیش آ جاتا ہے جس سے اس کے تشخص کو شدید دھچکا پہنچتا ہے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک پولیس کانسٹیبل کی ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ انتہا درجے کی بدکلامی کرتا اور یوٹیوبر پر تشدد کرتا نظر آیا۔ اس پر پنجاب پولیس بالخصوص آئی جی صاحب فوری حرکت میں آئے اور ایک پریس بریفنگ میں بتایاکہ مذکورہ پولیس اہلکار متعدد طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور‘ جو خود کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے گریجویٹ ہیں‘ نے ماہرِ نفسیات ڈی آئی جی ڈاکٹر انعام وحید کے ہمراہ ایک وڈیو پیغام بھی جاری کیا جس میں بتایا گیا مذکورہ پولیس کانسٹیبل کو نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے اور اس کا پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں علاج جاری ہے۔بعد ازاں آئی جی صاحب نے مذکورہ کانسٹیبل سے ہسپتال میں ملاقات کی اور اسے گلے لگایا۔ پولیس اہلکاروں کے نفسیاتی مسائل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اہلکاروں کی نفسیاتی سکریننگ کا عمل کچھ عرصہ سے شروع کیا ہوا ہے۔ ماضی میں پنجاب کی دو لاکھ پولیس فورس کے ہیپاٹائٹس بی، سی، اور ایچ آئی وی اور دیگر امراض کی سکریننگ مکمل کی تھی اور متاثرہ افراد کو علاج کی سہولتیں فراہم کیں۔انہوں نے بتایا کہ شروع میں ہم نے ان لوگوں کو چنا جو ماضی میں نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے یا وہ اہلکار جنہیں محکمانہ سزائیں دی گئی تھیں‘ کچھ ایسے لوگوں کو بھی سکریننگ سے گزرا جن کی غیر حاضری کی شکایات تھیں۔آئی جی پنجاب کے مطابق پولیس فورس کے اہلکاروں کی نفسیاتی پروفائلنگ کا ایک خصوصی پروگرام ڈیزائن کیا گیا ہے جس میں دوسرے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو بھی شامل کیا جائے گا اور نفسیاتی مسائل کے علاج سے گزرنے والے اہلکاروں کی رپورٹس ضلعی ڈی پی او کر بھیجی جائیں گی تاکہ سنگین مسائل کا شکار رہنے والوں کو حساس فرائض سے دور رکھا جا سکے۔
ابھی کانسٹیبل والے واقعے کی بازگشت کچھ تھمی تھی کہ اب ایک اور ایسا واقعہ پیش آ گیا ہے جس نے پولیس اہلکاروں کے رویے پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ خبر کے مطابق فیصل آباد میں پولیس اہلکاروں نے ایک ناکے پر ایک خاتون اور مرد کو پکڑا، جس کے بعد وہ خاتون کو تھانے کی بجائے نامعلوم مقام پر لے گئے اور وہاں پر اس سے مبینہ طور پر زیادتی کی گئی۔ ابتدائی طور پر اس واقعے کو چھپانے کی کوشش کی گئی مگر اعلیٰ حکام کے علم میں یہ واقعہ آنے پر فوری طور پر ایکشن لیا گیا اور تین اہلکاروں کو گرفتارکرلیا گیا ہے۔ مذکورہ خاتون اس وقت تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں زیر علاج ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ وہ حافظہ قرآن ہے اور کچھ عرصہ قبل ہی اس کی شادی ہوئی تھی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کہیں جا رہی تھی کہ راستے میں ایک جگہ پر پولیس اہلکاروں نے میاں بیوی کو روکا اور ان سے نکاح نامہ طلب کیا جو ان کے پاس موجود نہیں تھا، جس پر ان کو تفتیش کے لیے تھانہ لے جانے کا فیصلہ ہوا مگر خاتون کو نامعلوم مقام پر لے جا کر مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
قریب دو سال قبل ایک خاتون کے ساتھ لاہور‘ سیالکوٹ موٹر وے پر رات گئے ایسی ہی بربریت روا رکھی گئی تھی۔ اس شرمناک اور دلوں کو تڑپا دینے والے سانحے نے پورے ملک کو کئی دن تک لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ہر گھر میں سوگ تھا کہ اب کوئی ملک کی سڑکوں پر‘ اپنی گاڑی میں بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس واقعے کا ایک تلخ ترین پہلو یہ تھا کہ اس عورت کو اس کے بچوں کے سامنے بربریت کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ کئی دن کی انتھک کوششوں سے پولیس اس درندہ صفت انسان کو گرفتار کر نے میں کامیاب ہوئی تھی جس کے بعد عوامی سطح پر یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ ایسے افراد کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت‘ پیسہ‘ تعلقات اور سفارش کے ساتھ ساتھ قانونی مو شگافیوں کے ذریعے بھی انصاف کو عوام سے دور کر دیا جاتا ہے اور غریب مظلومین کی بے بسی ان کے حوصلے توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ انصاف کے عمل کو جس قدر کھینچا جائے گا‘ جس قدر اس میں تاخیر کی جائے گی‘ جرم کی زندگی اتنی ہی بڑھتی رہے گی اور پھر تفتیش میں کمزوریاں‘ بہانوں اور نذرانوں کے سقم مل کر سنگین سے سنگین جرم کو بھی ایک بھولی بسری داستان بنا دیں گے۔ اگر آئے روز قوانین میں تبدیلیاں اور ترامیم کی جاتی رہیں اور چند افراد کو بچانے کے لیے قانون کو ہی بدل دیا جائے تو ایسے میں انصاف کی امید کیونکر زندہ رہ سکتی ہے۔ آئے روز ناکوں پرشہریوں کی تذلیل کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ کیا یہ قانون نہیں بن سکتا کہ ''گھروں سے باہر کسی بھی کام سے نکلنے والوں سے نکاح نامہ نہیں مانگا جائے گا‘‘۔ ہونا تو یہ چاہئے کسی کو بھی نہ روکا جائے۔ اگر کسی پر شک ہے تو آئی ڈی کارڈ دیکھنے کے بعد اسے جانے دیا جائے۔ اعلیٰ پولیس افسران عوام کو یقین دہانیاں کراتے ہیں کہ اس قسم کے بودے اور تضحیک آمیز قوانین کا خاتمہ کیا جا رہا ہے مگر آئے دن ایسا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے جس سے ساری کاوشیں رائیگاں جاتی ہیں۔ اس وقت پولیس کے امیج کو بہتر بنانا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار تو میں نے دیکھا
والا معاملہ بن چکا ہے۔ اعلیٰ افسران کو یہ تہیہ کرنا ہو گا کہ کسی بھی عہدے اور مرتبے والا شخص اگر راہ چلتے کسی سے نکاح نامہ مانگے یا کسی بھی مرد و عورت کو ساتھ دیکھ کر بلاوجہ روکے تو اسے عام قسم کی وارننگ یا ایک‘ دو انکریمنٹ روکنے جیسی سزائیں نہیں دی جائیں گی بلکہ یا تو اس کی ایک‘ دو درجے تنزلی کی جائے گی یا پھر سروس ہی سے ڈسمس کر دیا جائے گا۔ جب ہائی کمان کی جانب سے حکم مل چکا ہو کہ کسی کو روک کر اس قسم کے سوالات نہیں کرنے‘ آتی جاتی فیملیوں کو تنگ نہیں کرنا اوراس کے باوجود کوئی اہلکار اپنے کمانڈر کی حکم عدولی کرتا ہے تو اسے سروس میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہئے۔ پولیس کو عوام دوست بنانے کے لیے ایسے سخت قسم کے فیصلے کرنا ہوں گے۔ پولیس اہلکاروں کی نفسیاتی پروفائلنگ کے ساتھ ساتھ ان کے باقاعدگی سے میڈیکل ٹیسٹ کو بھی لازمی قرار دیا جائے تاکہ پتا چل سکے کہ کتنے فیصد اہلکار ایسے ہیں جو مختلف قسم کی نشہ آور چیزوں کے عادی ہیں۔ اس سے پولیس کا عوام سے برتائو بھی بہتر ہو جائے گا اورجرائم میں بھی کمی آ سکے گی۔نچلے درجے کے اہلکاروں کا رہن سہن بھی اگر نظر میں رکھا جائے تو پولیس کے خلاف شکایات میں کمی اور نیک نامی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ اہلکاروں کی تعداد کو پورا کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے، نیز پولیس فورس میں رولز کے مطابق خواتین کا کوٹہ دس فیصد ہے مگر فورس میں ایک فیصد سے زیادہ خواتین نہیں ہیں۔ پڑھی لکھی خواتین کی فورس میں بھرتی بھی پولیس کے خوف کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔