بات ہو رہی تھی کہ اگر ملک میں تیل کے استعمال میں کفایت شعاری کا مظاہرہ نہ کیا گیا یا توانائی کے دیگر وسائل کو جلد از جلد بروئے کار نہ لایا گیا تو 2030ء کے بعد پیدا ہونے والے تیل بحران سے کیسے نمٹا جائے گا۔ ایٹمی توانائی سے حاصل کی جانے والی بجلی عالمی سطح پر توانائی کی فراہمی کے لیے سود مند ثابت ہو سکتی ہے لیکن کیا ملک میں ایٹمی توانائی کو توانائی کا متبادل ذریعہ بنانے کی ابھی سے کوئی سنجیدہ کوشش کی جائے گی؟ کوئلہ بھی مستقبل کے لیے توانائی کے حصول کا ایک بڑا وسیلہ بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے زیر نگرانی جب تھر کول پروجیکٹ شروع کیا گیا تو اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی لیکن حکومت نے انہیں ضروری فنڈز کی فراہمی سے ہاتھ روکے رکھا جس کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور اس سے بھی تیز رفتاری سے گرتی ہوئی پاکستانی کرنسی کے علاوہ ملک میں غیر مستحکم سیاسی نظام اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں نے پاکستان کی معیشت اور اس کی عالمی حیثیت کو کمزور کر رکے رکھ دیا ہے۔ آج کی اس دنیا میں کمزور کا کوئی بھی اس وقت تک ساتھی نہیں ہوتا جب تک اس نے اسے اپنے کسی خاص مقصد کے لیے استعمال نہ کرنا ہو۔ اس کی مثال یوکرین کے صدر کی دنیا کی بڑی طاقتوں‘ مثلاً امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی وغیرہ‘ میں غیرمعمولی استقبال سے لی جا سکتی ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے ہم قربانی کے لیے خریدے گئے جانور کو عیدِ قربان سے پہلے نہلا دھلا کر اس پر رنگ برنگے نقش و نگار بنا کر اور گلے میں رنگین پٹے ڈال کر گلی محلے میں اس کا گھماتے پھرتے ہیں۔ دور نہ جائیے‘ یوکرین کے صدر سے کئی گنا زیادہ استقبال تو افغانستان کے مجاہدین لیڈران بلکہ بعد میں طالبان کا کیا جاتا رہا لیکن جیسے ہی مطلب نکلا انہی طالبان لیڈران کو گولیوں کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ اب یہ کہنے یا بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کی سب سے بڑی وجہ توانائی کا بحران ہے جس کا تعلق تیل اور بجلی سے ہے۔ اس شعبے پر اٹھنے والے بھاری اخراجات نے پاکستان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘لیکن اگر ہر وقت یہی رونا روتے رہیں گے کہ ہمیں IPPs نے تباہ کر دیا ہے تو مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ آئی پی پیز سے زیادہ ہمیں اس حالت تک پہنچانے کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنہوں نے یہ معاہدے کیے تھے۔ لہٰذا بجائے رونے دھونے کے یہ بوگس معاہدے کرنے والوں اور ان کی آڑ میں کک بیکس لینے والوں کو کٹہرے میں لے کرآیا جائے۔ ملک و قوم کے مفاد کو گروی رکھنے والوں کے ساتھ وہ سلوک کیوں نہیں کیا جاتا جس کے وہ مستحق ہیں۔ ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات کیوں نہیں بنائے جاتے۔ ان کا سپیڈی ٹرائل کیوں نہیں کیا جاتا۔ اسی خاموشی کا یہ لوگ ہمیشہ سے فائدہ اٹھاتے چلے آئے ہیں۔
ملک میں اب وہ کون سا گھر ہے جو گیس کی لوڈ شیڈنگ کا شکار نہیں۔ لاہور شہر کی بات کریں تو اس کی آدھی سے زیا دہ آبادی میں صرف چند گھنٹوں کیلئے گیس آ رہی ہے اور یہ گرمیوں کی بات کی جا رہی ہے۔ سردیوں میں تو قدرتی گیس کا نام ہی سننے کو ملتا ہے۔ جس طرح ہر جاندار کے لیے سانس لینے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح دنیا کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو توانائی کے بغیر زندہ رہ سکے لیکن بد قسمتی دیکھئے کہ پاکستان اس پورے خطے کا وہ واحد ملک ہے جس نے اپنی توانائی غیر ملکی سیا سی دباؤ کے عوض تباہ کرکے رکھ دی ہے۔بھارت نے گزشتہ پچاس برسوں میں ہمیں پانی اور بجلی کے سستے اور مقدار میں بڑھ کر توانائی ضروریات پوری کرنے والے ہائیڈل پاور سٹیشنز کی تعمیر سے روکے رکھا۔ ذرا تحقیق کرکے تو دیکھئے کہ کالا باغ اور دیا مر بھاشا ڈیمز کی طرز کے منصوبوں کی مخالفت کون‘ کیوں اور کس وجہ سے کرتا رہا؟ بم مار کر ڈیم اڑا دینے کی دھمکیاں دینے والے کون تھے‘ ان کے پیچھے کون سی طاقتیں تھیں‘ ان کے مقاصد کیا تھے؟ ایک طرف سے کہا گیا کہ کالا باغ ڈیم شروع کیا تو اس سے نو شہرہ ڈوب جائے گا۔ دوسری طرف کہا گیا کہ اس ڈیم سے سندھ کا پانی ختم ہو جائے گا۔ اب ان نعروں کے خالق ملائیشیا اور دبئی سمیت دنیا بھر میں موجیں کر رہے ہیں اور نوشہرہ اور سندھ کے عوام کو مہنگی بجلی‘ غربت‘ افلاس اور ڈاکوؤں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ سندھ کی غربت اور وہاں کے عوام کی زبوں حالی کی جھلک دیکھنی ہے تو ذرا اندرونِ سندھ چلے جائیں‘ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ لگتا ہی نہیں کہ یہ آج کی دنیا کے لوگ ہیں۔ یہ تھیں وہ سیا سی اور علاقائی قوتیں جنہوں نے توانائی کے ذرائع کے آگے نفرتوں کے بند باندھے۔
ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں قدرتی گیس کا تیس فیصد سے زائد حصہ ہے لیکن اس میں ملکی پیداور کے علاوہ امپورٹ کی جانے والی گیس بھی شامل ہے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ اس وقت درآمدی گیس پر پاکستان 660ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔ قدرتی گیس کے ذخائر توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوتے جا رہے ہیں۔ کل تک ہم سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کرتے تھے لیکن اب اپنی صنعتوں کا پہیہ چلانے کے لیے گرمیوں میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ کرنا پڑرہی ہے۔ ملک کے اندر گیس کے نئے ذخائر ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ کیا گیس کے بین البراعظمی انتقال کے لیے کسی نظم کی تشکیل کو سنجیدگی سے لیا جائے گا؟ کیا ملک میں موجود تیل والی ریت‘ بھاری تیل اور تیل والی مٹی جیسے معدنی ایندھن کو استعمال میں لانے کی کوشش کی جائے گی؟ ملک میں پن بجلی گھروں (ہائیڈل پاور سٹیشنز) کی تعداد بغیر کسی دبائو کے بڑھانے کا عزم صمیم کیا جائے گا؟ کیا سورج کی شعاعوں سے توانائی کے حصول کا کوئی منصوبہ بنایا جائے گا جس کے لیے تھوڑی سی تحقیق کے بعد سندھ اور بلوچستان میں شمسی توانائی کا بے حد مؤثر استعمال ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ کیا ہوا سے توانائی حاصل کرنے کی کوئی پختہ کوشش کی جائے گی؟ ملک کے وسیع سمندر کی سمندری لہروں سے توانائی کے حصول کی کوئی کوشش کی جائے گی؟ بجلی کیلئے زیرِ زمین حرارت کا استعمال بھی اب عام ہو رہا ہے‘ اس سلسلے میں فلپائن اور انڈونیشیا سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا سوچا جائے گا؟
اگر توانائی کے شعبے میں کفایت کرنی ہے تو اس کا فیصلہ حکومت‘ صنعت اور صارفین کو مل کر کرنا پڑے گا اور اس پر آج سے ہی کام شروع کر دینا چاہیے۔ تیل کا ممکنہ بحران کوئی انوکھی چیز نہیں۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عرب ممالک کے تیل بائیکاٹ کا اثر تیسری دنیا کو محسوس تک نہیں ہوا تھا لیکن امریکہ اور مغرب اس کی شدت کو ابھی تک نہیں بھولے۔ اس کے بعد 1980ء کی ایران‘ عراق جنگ کے دوران آبنائے ہرمز کی بندش اور تیل کی تنصیبات کی تباہی کی شدت سب نے بھگتی جب پہلی دفعہ تیل کی قیمت 45ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی تھی۔ یاد رکھیے دن‘ مہینے اور سال گزرتے دیر نہیں لگتی۔ ضیاالحق کے گیارہ سال کیسے گزرے‘ پی پی پی اور نواز لیگ کے بیس سال کیسے گزرے؟ پرویز مشرف کے نو سال کس طرح گزر گئے؟ ایک مرتبہ پھر پی پی اور نون لیگ کے مشترکہ دس سال کیسے گزرے؟ اور پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سال کے بعد پی ڈی ایم کے سولہ ماہ کس طرح گزرے؟ یہ دن رات کیسے گزر رہے ہیں‘ سب کے سامنے ہے۔ اگر اب بھی ''ہنوز دلی دور است‘‘ کے نعرے لگتے رہے تو پانی ناک سے بلند ہونا شروع ہو جائے گا۔ لہٰذا اس کے بارے میں ابھی سے سوچنا شروع کیجئے جناب! ابھی سے۔