بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں جی ٹونٹی کانفرنس میں شرکت اور وہاں سے امریکی صدر کا دورۂ ویتنام اور پھر جنوبی چینی سمندر سے تیل نکالنے اور اس تیل کی بھارت تک ترسیل کا اعلان عام بات نہیں ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جو امریکہ کی جانب سے چین تک پہنچایا جا رہا ہے۔ جنوبی چینی سمندر عالمی جہاز رانی کا بڑا راستہ ہے جو قدرے متنازع ہے۔ چین کے علاوہ اس پر ویتنام، فلپائن اور برونائی بھی اپنی اپنی ملکیت کے دعویدار ہیں۔ چین اور بھارت کے مابین مختلف تنازعات میں سائوتھ چائنیز سی کا تنازع بھی کشیدگی کا باعث بنتا رہتا ہے۔ بظاہر امریکی صدر نے ویتنام میں یہی بیان دیا کہ امریکہ چین کے ساتھ سرد جنگ شروع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور یہ کہ ان کا دورۂ ویتنام کسی نئی سرد جنگ شروع کرنے کی کوشش نہیں بلکہ ویتنام اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو بہتر بنانے اور دنیا بھر میں استحکام کو یقینی بنانے سے متعلق ہے مگر ان کے عملی اقدامات کچھ اور ہی غمازی کر رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حالیہ جی ٹونٹی کانفرنس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اگلے دس پندرہ برس کی سیاست اور جغرافیائی تبدیلوں کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں جن پر ایک علیحدہ مضمون درکار ہو گا۔ اگر آج کوئی اس سے انکار کرے یا اس پر خاموشی اختیار کرے کہ بھارت اور پاکستان کا موازنہ اب محال ہو چکا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور عنقریب تیسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ چین کو آبادی میں پیچھے چھوڑ کر وہ دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ کا درجہ بھی حاصل کر چکا ہے، دنیا کی سبھی بڑی آئی ٹی کمپنیوں میں بھارتی نژاد نمایاں عہدوں پر براجمان ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی وہ اپنے جھنڈے گاڑ رہا ہے اور چاند پر مشن پہنچانے والا چوتھا ملک بن چکا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک ابھی تک خلائی دوڑ سے دور ہیں مگر بھارت یہ میدان بھی سر کرنے نکل پڑا ہے۔ وہ سورج کی جانب بھی مشن بھیج چکا ہے اور اب مریخ پر نظریں ٹکائے ہوئے ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی ہر بااختیار شخصیت نے مجرمانہ اطوار اپنائے رکھے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم عوام کو بجلی کے بل پر سبسڈی دینے کے لیے بھی آئی ایم ایف کی منظوری کے محتاج ہیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری حیثیت اس ریاست کی سی ہو چلی ہے کہ جس کی کوئی منزل نہ ہو‘ جس نے اپنے لیے کوئی راستہ ہی منتخب نہ کیا ہو اور جو بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ جائے۔ عوام سراسیمہ نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر سوال کر رہے ہیں کہ رہبر کدھر ہے مگر کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اپنے اردگرد تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سرسری نہیں بلکہ انتہائی عمیق نظروں سے دیکھنے کی کوشش کریں، آپ کو ہر قدم پر کسی غیر متوقع خطرے کا خوف لاحق ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ میرے جیسے کروڑوں پاکستانیوں کو ایک سے ایک نئی تبدیلی کی سمجھ نہ آ رہی ہو اور وہ ان تبدیلیوں کو ایک معمول کی کارروائی سمجھ کر نظر انداز کر دیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہاں وہی مثال صادق آتی ہے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے خطرہ ٹل نہیں جاتا۔ اگر ہم شترمرغ کی مانند سر ریت میں دبا لیں تو کیا ہو گا؟ کیا ہمارے اردگرد واقع ہونے والی تبدیلیاں پلٹ جائیں گی؟ عقل و شعور کی ہلکی سی رمق رکھنے والوں کو رتی بھر بھی شک نہیں رہنا چاہئے کہ پاکستان سمیت اس خطے کے بارے میں امریکہ اور مغربی قوتوں کے تھنک ٹینکس کے اگلے منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے میدان اور گھوڑے تیار کیے جا چکے ہیں۔
جس طرح امریکہ، برطانیہ اور دیگر طاقتور ملکوں نے دنیا بھر میں اپنے نیٹ ورکس بچھا رکھے ہیں اسی طرح پاکستان کے دفاع اور نظریے کی حفاظت کیلئے ہمارے ریٹائر ہونے والے جوانوں اور افسروں کو خم ٹھونک کر میدانِ عمل میں اترنا ہو گا۔ آج پاکستان کا ہر ادارہ سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ عوام ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ سیاسی نفرتوں کا زہر معاشرے کی رگ رگ میں اتر چکا ہے۔ جانتے بوجھتے منافرت کی آبیاری کی جا رہی ہے اور آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے تیل چھڑکا جا رہا ہے۔ دیکھنے والی ہر آنکھ دیکھ رہی اور سوچنے والا ہر دماغ سوچ رہا ہے کہ کن مقاصد کیلئے اس ملک کی وحدت کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں۔ معاشرے کے ہر طبقے بالخصوص ریٹائر افسران، اساتذہ اور وکلا سمیت نوجوان نسل کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور ایک لمحے کیلئے بھی نہیں بھولنا ہو گا کہ آج انہیں میسر تمام مراعات، تمام عہدے اور تمام سہولتیں صرف اور صرف اس پاکستان کے دم سے ہیں۔ یہ سب بہار پاکستان کے وجود سے ہے۔ اس وقت کے حالات یہ بتا رہے ہیں کہ افغانستان، بھارت، امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کے خلاف یکجا ہو چکے ہیں اور قبل اس کے کہ سانپ اپنے بل سے باہر نکل کر آپ کے گھر میں داخل ہو جائے‘ اسے کچلنے کی کوشش کریں اور آنکھیں بند کر کے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے پہلے ایک لمحے کیلئے شام، عراق، لیبیا، یمن اور افریقہ کے در بدر دھکے کھانے والے افراد کی حالتِ زار پر نظر ضرور ڈال لیں۔
یہ چوبیس کروڑ سے زائد افراد کا ملک ہے۔ ان چوبیس کروڑ کی نہ تو دبئی اور لندن میں جائیدادیں ہیں اور نہ ہی دنیا کے متعدد براعظموں میں کاروبار کہ اگر یہاں پر حالات خراب ہوں تو یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر باہر چلے جائیں اور جب سب کچھ سازگار ہو جائے تو واپس لوٹ آئیں۔ ان چوبیس کروڑ کا جینا مرنا اسی دھرتی کے ساتھ ہے۔ مجھے اپنے سامنے چلتے پھرتے انجان سایوں کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں خوف سا محسوس ہو نے لگا ہے۔ نجانے کیوں میری چھٹی حس مجھے بار بار جھنجھوڑ تے ہوئے کبھی 1947ء کی کٹی پھٹی لاشیں تو کبھی 1965ء سے 1971ء اور پھر 1984ء کا سیاچن اور 1999ء کا کارگل کا میدانِ جنگ دکھا رہی ہے۔ کہیں میں چونڈہ سیکٹر کے ٹینکوں کے سامنے گولہ بارود سے خود کو اڑاتے ہوئے جوانوں کو دیکھ رہا ہوں تو کہیں 2004ء سے آج تک القاعدہ‘ ٹی ٹی پی اور نام نہاد بلوچ قوم پرست تنظیموں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے فوجیوں اور شہریوں کے جنازے دیکھ رہا ہوں۔ یہ پاکستان ہی ہمارے لیے آخری پناہ گاہ‘ آخری قلعہ ہے۔ اس قلعے پر لہراتا سبز ہلالی پرچم ہمارے لیے امید کا پیغام ہے۔ اس پر مختلف اطراف سے مختلف گروہ حملہ آور ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں معاشی طور پر مرعوب کرنے اور نیپال اور بھوٹان کی طرح بھارت کے آگے سرتسلیم خم کرنے کا درس دیتا ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو ہمیں بھارت کے بڑھتے سفارتی روابط اور اس کے بڑے جغرافیے سے خوف دلا رہا ہے۔ ایک گروہ ہم پر نظریاتی طور پر حملہ آور ہے اور کہہ رہا ہے کہ دیکھو! ہم میں اور ان میں کوئی فرق بھی نہیں ہے، وہ بھی وہی کچھ کھاتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ میں ان سب کی باتوں پر کیسے یقین کر لوں۔ ہر آنکھ دیکھ رہی ہے کہ گائے کا گوشت کھانے کا صرف شک ہونے پر بھارت میں مسلمان لڑکوں اور بزرگوں کو پیٹا جا رہا ہے، ان پر خنجروں اور تلواروں سے حملے کیے جا رہے ہیں، ان کی عبادت گاہیں منہدم کی جا رہی ہیں، انہیں گائے کا پیشاب پینے اور ہندومت کے مذہبی نعرے لگانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان سب حقائق کے ہوتے ہوئے میں کیسے یقین کر لوں کہ ہم اور بھارتی ایک جیسے ہیں۔
سوویت یونین نے جب اپنے نظام کے لیے خطرہ سمجھی جانے والی ہر شے کو ڈنڈے کے زور سے کچلنے کی پالیسی اپنائی تو اسے بہت سمجھایا گیا کہ اس طرح کے بہتے دھاروں کے سامنے بند زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتے مگر طاقتوروں کا خرد و دانش سے بیر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کچھ عرصہ تک اسے کامیابی بھی ملی مگر بالآخر ایک دن یہ لاوا پھٹ گیا۔ بھارت کی بنیادوں میں پکتا لاوا سب کو دکھائی دے رہا ہے، مسئلہ صرف وقت کا ہے۔ یہ لاوا آج نہیں تو کل پھٹنا ہی ہے۔ مگر بھارت کے خرابی کی طرف بڑھتے حالات میں ہم اپنی غلطیوں کے جواز نہیں ڈھونڈ سکتے۔ ہمارا سوال اب بھی وہی ہے کہ اس ملک کی ڈگر کو کون ٹھیک کرے گا؟ رہبر کہاں ہے؟