لگ بھگ دو ہفتے قبل جب لندن سے پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اگلے ماہ (21 اکتوبر) وطن واپسی کا اعلان کیا گیا تو سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ یہ اعلان ملکی سیاسی میدان میں ایک ہلچل پیدا کر دے گا۔ شاید کچھ ابال آیا بھی مگر محاورے کی زبان میں یہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے سے زیادہ نہ تھا۔ لندن میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے خود یہ اعلان کیا تھا کہ 21 اکتوبر کو پورا پاکستان لاہور میں میاں نواز شریف کا استقبال کرے گا۔ اس کے لیے ابتدائی طور پر دس لاکھ لوگوں کو اکٹھا کرنے کی حکمتِ عملی بنائی جانے لگی مگر جب زمینی صورتحال پر نظر ڈالی گئی تو وہ خاصی مایوس کن تھی۔ مسلم لیگ کے اپنے گڑھ میں بھی اس کے مخالفین کی سیاسی پوزیشن مستحکم نظر آئی۔ حالیہ سرویز میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم لیگ نواز کو لاہو ر میں اپنے گڑھ میں بھی الیکشن میں خاصا ٹف ٹائم ملے گا۔ (ن) لیگ کے حامی سمجھے جانے والے ایک تجزیہ کار نے یہاں تک کہا کہ لاہور میں 12 میں سے آٹھ سیٹیں (ن) لیگ کے ہاتھ سے نکل جائیں گی۔ شنید ہے کہ جب زمینی معاملات کی خبر پارٹی کے اعلیٰ حکام تک پہنچائی گئی تو ایک بار پھر بڑوں کی بیٹھک ہوئی جس میں دوبارہ وطن واپسی کی حکمتِ عملی پر غور و خوض ہوا اور پھر اعلان کیا گیا کہ چونکہ اکتوبر میں شادیوں کا سیزن ہوتا ہے، اس لیے عوام کو تکلیف سے بچانے کے لیے لوگوں کو ایئرپورٹ پر اکٹھا کرنے کے بجائے مینارِ پاکستان پر جلسہ کرنے کے لیے بلایا جائے گا۔
پنجاب میں (ن) لیگ کی سب سے بڑی حریف پی ٹی آئی تو مینارِ پاکستان پر کافی جلسے کر چکی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پی ٹی آئی کی سیاست میں مینارِ پاکستان کے جلسے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ گزشتہ سال وفاق میں حکومت ختم ہونے کے بعد دو بار پی ٹی آئی کی جانب سے مینارِ پاکستان میں میدان سجایا گیا۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد‘ رمضان المبارک میں بھی مینارِ پاکستان پر جلسہ کیا گیا جو سحری کے وقت تک چلتا رہا۔ اس جلسے کے حوالے سے ناقدین کا خیال تھا کہ یہ جلسہ ناکام ہو جائے گا مگر جابجا رکاوٹوں کے باوجود جس طرح عوام نے اس جلسے میں شرکت کی اس کے بعد مسلم لیگ (ن) پر دبائو مزید بڑھ گیا اور اسے بار بار چیلنج کیا جانے لگا کہ وہ مینارِ پاکستان کا گرائونڈ بھر کے دکھائے۔ دسمبر 2020ء میں پی ڈی ایم نے بھی مینارِ پاکستان پر ایک جلسہ کیا تھا اور یہ جلسہ ہی پی ڈی ایم تحریک کا تابوت ثابت ہوا۔ تمام مرکزی قائدین کی سٹیج پر موجودگی کے باوجود ساری جلسہ گاہ خالی تھی۔ اس جلسے کی ناکامی کے بعد ہی پی ڈی ایم میں اختلافات شروع ہوئے اور نتیجتاً یہ تحریک غیر مؤثر ہو کر رہ گئی۔ دوبارہ یہ تحریک کسی طرح اٹھی، کس نے اس غبارے میں ہوا بھری یہ ساری باتیں اب آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہیں۔ بہرکیف اگر (ن) لیگ لاہور میں مینارِ پاکستان پر جلسہ کرتی ہے تو گزشتہ کئی سالوں میں یہ اس کا مینارِ پاکستان پر پہلا جلسہ ہو گا اور اس پر جلسہ گاہ بھرنے اور پی ٹی آئی کا ریکارڈ توڑنے کا پریشر بھی خاصی حد تک موجود ہو گا۔
اتحادی حکومت کے دور میں وزیر دفاع خواجہ آصف سے جب نواز شریف کی وطن واپسی بارے پوچھا گیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب کی واپسی اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک ''رسک زیرو‘‘ نہ ہو جائے۔ اب اس حوالے سے بھی متعدد سوالات گردش کر رہے ہیں۔ کیا 'رسک‘ زیرو ہو چکا ہے؟ ابھی تک ضمانت کا معاملہ ہی حل نہیں ہوا جبکہ نیب ترامیم کالعدم ہونے سے بند ہونے والے کیسز بھی کھل چکے ہیں۔ اب تو مشکلات بظاہر پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ وطن واپسی کے بعد سب سے پہلے عدالتوں کے سامنے سرنڈر کرنا پڑے گا، اس کے بعد ہی درخواستِ ضمانت دائر ہو سکے گی۔ کتنے عرصے میں ان درخواستوں پر فیصلہ ہو گا، اگر اس دوران میڈیکل ریکارڈ اور ضمانت نامے کو چیلنج کر دیا گیا تو کیا ہو گا، یہ علیحدہ معاملہ ہے۔یعنی رسک زیرو والی باتیں بھی اب خیالِ خام ہی کا درجہ رکھتی ہیں۔یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ لندن میں ہوئی پارٹی میٹنگ میں ایک رہنما یہ کہتے ہوئے پھٹ پڑے کہ اگر رسک زیرو ہونے کا انتظار ہی کیا جاتا رہا تو پھر پارٹی کو ختم ہی سمجھیں۔ شنید ہے کہ گزشتہ دنوں جب لندن سے پاکستان واپسی کا بیانیہ عام کر دیا گیا تو وہاں موجود کچھ افراد نے سوال کیا کہ شنید ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے اہلِ خانہ کو آپ کے مقابلے کے لیے فعال کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے آپ کی جوابی حکمتِ عملی کیا ہے؟ اس پر پارٹی لیڈرشپ کچھ جزبز دکھائی دی۔وہاں موجود کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ جاننے کے بعد مسلم لیگ کی لیڈرشپ کا حال ایسا تھا جیسے ان کے ساتھ دوبارہ ہاتھ کیا جا رہا ہے۔ شنید ہے کہ اس حوالے سے انہوں نے دبے دبے کچھ مطالبا ت اور خواہشا ت کا بھی اظہار کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پہلے کی طرح‘ ان پر عملدرآمد ہو سکے گا؟
پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ لندن کی میٹنگوں میں استقبالیہ انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ اس کے لیے پارٹی فنڈز بھی لیے گئے ہیں۔ فیصلہ ہوا ہے کہ لاہور اترنے سے پہلے سے وہی بیانیہ دہرایا جائے گا جو اس سے قبل وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے بعد اسلام آباد تا لاہور براستہ جی ٹی روڈ ریلی میں اپنایا گیا تھا، نیز دو تین اہم عہدیداروں اور تین‘ چار سابق ججوں کو نشانے پر لیا جائے گا۔ گزشتہ روز ہی نواز شریف صاحب نے لندن سے بیان جاری کیا کہ عوام روٹی کھائیں، بجلی کے بل دیں یا دوائی خریدیں؟ ملک اور عوام کو ان حالات سے دوچار کرنے والے کون لوگ ہیں؟ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ایئرپورٹ پر ہزار سے پندرہ سو کے قریب جانثار کارکنوں کی حاضری یقینی بنائی جائے گی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ کارکن گرفتاری کی صورت میں مزاحمت کریں گے اور ممکن ہے کہ ہزاروں کارکنوں کی موجودگی میں حکومت کی جانب سے ایسی کسی کاوش سے ہی گریز کیا جائے۔
قبل ازیں لندن میں ہونے والے ایک اجلاس میں ایک ایک کر کے سب پارٹی لیڈران سے پوچھا گیا کہ الیکشن میں اترنے کے لیے ہمارا کیا بیانیہ ہونا چاہئے۔ بجلی‘ گھی‘ آٹا‘ چینی‘ گیس‘ پٹرول کی کمر توڑ بلکہ لوہا توڑ مہنگائی کے بعد عوام کو اپنے قریب لانے کیلئے کوئی ایسا بیانیہ ہونا چاہیے جس سے لوگ کھنچے چلے آئیں۔ اس پر یہی بتایا گیا کہ اس وقت عوام کا جو موڈ ہے اس میں مقتدرہ مخالف بیانیہ ہی پارٹی کو سُوٹ کرے گا۔ اس وقت لندن میں نواز شریف گروپ سمجھے جانے والے لیڈر زیادہ متحرک ہیں اور وہ سب ان باتوں کی تائید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ لاہور کی پارٹی قیادت کی بات آئی تو خواجہ برادران کے بجائے اب کھوکھر برادران اتفاق کیا گیا کیونکہ وہ کسی بھی وقت پانچ سے سات ہزار افراد اکٹھے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ دس‘ بیس ہزار ووٹ بھی وہ اپنی جیب میں لے کر گھومتے ہیں۔ کے پی اور پنجاب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو بالترتیب پانچ ہزار اور ڈھائی ہزار افراد جلسہ گاہ میں لانے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔ یہاں تک کہا گیا ہے کہ پنجاب اور کے پی کے ہر حلقے سے پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ جلسہ گاہ میں افراد کی تعداد دیکھ کر کیا جائے گا اور اس کیلئے با قاعدہ مانیٹرنگ کا بند وبست بھی کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ میاں نواز شریف کی پاکستان آمد سے پہلے سات سے دس جلسے کیے جائیں گے تاکہ ان کی آمد سے پہلے عوام کے ٹمپو کا اندازہ ہو جائے کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں اور کتنی تعداد میں مینارِ پاکستان پہنچ پائیں گے۔
برا ہو ناقدین کا جواس صورتحال پر نہایت منفی تبصرے کر رہے ہیں۔ کسی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ملکہ برطانیہ نے ہندوستان پر حکمرانی کرنے کیلئے بظاہر وائسرائے مقرر رکھا تھا لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے معاملات کیلئے بنیادی پالیسیاں بنانے کیلئے وقتاً فوقتاً لندن میں اجلاس بلائے جاتے تھے۔ اسی طرح جب ہندوستان کی آزادی کا فیصلہ ہوا تو تقسیم ہند کا فارمولا طے کرنے کیلئے لندن ہی اجلاس بلایا جاتا تھا، تو کیا اب یہ سمجھ لیا جائے کہ ابھی فیصلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور تاج برطانیہ کے در سے ہی ہوتے رہیں گے؟