"MABC" (space) message & send to 7575

بلائنڈ کرکٹرز ہی بھلے

رواں برس اگست میں برطانیہ میں انٹرنیشنل بلائنڈ سپورٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی اِبسا ورلڈ گیمز 2023ء کے فائنل میں پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم نے روایتی حریف بھارت کو ہرا کر گولڈ میڈل جیتا تو پورے ملک نے خوب سراہا۔ اس سے قبل پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم‘ بلائنڈ عالمی کپ کے مسلسل پانچ فائنل کھیلنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ رواں سال قومی ٹیم کو تیسری مرتبہ عالمی چمپئن بننے کا اعزاز ملا ہے۔ دوسری طرف ہماری وہ کرکٹ ٹیم ہے جو ان دنوں بھارت میں وَن ڈے کرکٹ کے عالمی کپ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہے۔ اس عالمی کپ میں قومی کرکٹ ٹیم کی پہ در پہ چار شکستوں کے بعد ہر کوئی یہی کہنے لگا ہے کہ اس ٹیم سے تو بلائنڈ کرکٹ ٹیم ہی اچھی ہے جو عالمی مقابلوں میں ہر بار ملک کا نام روشن کرتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بلائنڈ کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر کسی نے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ ان کی پہ در پہ کامیابیوں کی ایک ہی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے چونکہ دنیا کی رنگینیاں نہیں دیکھیں‘ محلات نہیں دیکھے‘ پوش علا قوں کے مہنگے ترین بنگلے نہیں دیکھے‘ زرق برق لباس نہیں دیکھے‘ چمکتی دمکتی ہوئی بڑی بڑی گاڑیاں نہیں دیکھیں‘ بڑے بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں کی شان و شوکت نہیں دیکھی‘ اس لیے یہ اچھا کھیلتے ہیں۔ اور کرکٹ میں اتنی شاندار پرفارمنس دکھانے کے بعد بھی ان کے لائف سٹائل میں ویسی کوئی تبدیلی نہیں آئی جیسی قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی زندگی میں آتی ہے۔ اس بات کا اندازہ بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے سٹار بالر شاہزیب حیدر‘ جنہوں نے حالیہ عالمی کپ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا‘ کے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے‘ جو انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ مجھے بلائنڈ کرکٹ میں دنیا کا بہترین بالر مانا جاتا ہے لیکن جب کوئی میچ نہیں ہوتا تو میں والد کے ساتھ یومیہ 1200روپے پر مزدوری کرتا ہوں۔
بھارت میں جاری ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ کے حوالے سے اب یہ کہہ کر اُمید دلائی جا رہی ہے کہ پاکستان کے جتنے بھی میچ باقی ہیں‘ اگر ان میں نا قابلِ یقین رَن ریٹ سکور کر لیا جائے تو سیمی فائنل تک پہنچنے کے امکانات کھل سکتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ افغانستان‘ آسٹریلیا اور بھارت سے جس طرح ہم میچ ہارے ہیں یہ اُمید بھلا کیسے لگائی جا سکتی ہے؟ جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں کھلاڑیوں نے جان ماری ہے‘ اس پر کچھ رعایت دی جا سکتی ہے لیکن اس سے پہلے جو تین میچز ہارے گئے ہیں‘ اُن میں تو یہ کوشش بھی نظر نہیں آئی۔ اس عالمی ٹورنامنٹ اور اس سے پہلے ہونے والے بین الاقوامی میچز میں ناکامیوں کا ذمہ دار ناقص کپتانی کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بابر اعظم ایک سٹار بیٹر ہیں لیکن کپتانی کے لیے فِٹ نہیں بیٹھتے۔ بابر اعظم کی بطور بیٹر صلاحیتوں کی دنیا معترف ہے جس کا ایک ثبوت انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی حالیہ رینکنگ بھی ہے جس میں بابر اعظم کا بدستور پہلا نمبر ہے‘ لیکن ہر کوئی اُن کی کپتانی پر سوال اٹھا رہا ہے۔ ٹیم کی ہار اور جیت میں کپتان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے‘ ہمارا کپتان یہ کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آیا۔ بھلا جنوبی افریقہ کے خلاف آخری اوور کیلئے سپن بالر کو گیند دینے کی کیا تُک تھی؟ کچھ لوگ نہ جانے کیوں اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں کہ اس ورلڈ کپ میں ارینجڈ شکست کا ہاتھ لگتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ملک و قوم سے بد دیانتی ہے۔ ایک کرکٹ ٹیم پر ہی بس نہیں بلکہ پوری قوم آج ہر طرف بددیانتی اور لوٹ مار کے سمندر میں غوطے لگا رہی ہے۔ کئی سال پہلے کرپشن جو کبھی چوری چھپے ہوتی تھی‘ اب فیس اور کمیشن کہلاتی ہے اور یہ فیس اب سڑکوں‘ کچہریوں‘ تھانوں‘ سرکاری دفاتر کے کمروں اور احاطوں‘ اسمبلیوں کے ایوانوں اور وزرا کے گھروں اور حکمرانوں کے محلات کے اندر اور باہر کھلے عام لی جاتی ہے۔ ڈھکا چھپا کچھ بھی نہیں‘ لوگوں کے گھر دن دہاڑے لٹتے ہیں‘ بینکوں میں ڈاکے‘ پٹرول پمپوں پر ڈاکے اور شاہراہوں پر بسیں روک کر مسافروں کی جیبیں خالی کرا لی جاتی ہیں۔ عزتیں یوں لُٹ رہی ہیں جیسے مکھیاں ماری جا رہی ہیں۔ مجرم دندناتے پھرتے ہیں اس لیے کہ ان کو روکنے والوں کی جیبیں نوٹوں سے بھر دی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی آنکھیں اور کان بند رکھیں۔ پاکستان کے کسی بھی محکمے میں چاہے وہ صوبائی ہو یا مرکزی‘ کوئی کام بھی رشوت اور کمیشن کے بغیر نہیں ہوتا۔ حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق زمین کی فرد کی نقل‘ جو پہلے پٹواری پانچ ہزارروپے میں دے دیتا تھا‘ اب دس سے پچاس ہزار بلکہ لاکھوں روپوں میں مل رہی ہے۔ غریب اور لاوارث سائل سالہا سال سے دھکے کھا رہے ہیں لیکن انہیں اپنا حق ملنا تو دور کی بات‘ اہل کار ان کی بات بھی سننے کو تیار نہیں۔ انصاف بڑے گھروں تک محدود ہے بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ انصاف بن چکا ہے۔ پاکستان میں کرپشن کا یہ طاعون روز بروز کیوں پھیلتا جا رہا ہے‘ اس کی ابتدا کیسے ہوئی‘ یہ کس طرح پروان چڑھی‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اس سوال کی طرح کسی کے پاس نہیں کہ انڈے اور مرغی میں سے کون پہلے وجود میں آیا تھا؟
کہتے ہیں کہ کرپشن کو اسی طرح ضرورت کی ماں کہا جا رہا ہے جس طرح ضرورت کو ایجاد کی ماں کہا جاتا ہے۔ جب انسان کی خواہشیں بڑھ جاتی ہیں اور وہ خواہشیں ضرورتیں بن جاتی ہیں تو یہ خواہشیں اور ضرورتیں پوری کرنے کیلئے روپے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ روپیہ حاصل کرنے کیلئے لوگوں کی جائز اور ناجائز خواہشوں کی قیمت لگائی جاتی ہے جسے لوگ اب کرپشن کا نام دینے لگے ہیں۔ بھلا لوگوں کی خواہشات کو جلد از جلد پورا کرنے کو کرپشن کیسے کہا جا سکتا ہے؟ یہ درست ہے کرپشن تو اس معاشرے میں قیام پاکستان سے پہلے بھی تھی لیکن اس وقت اور بعد میں کئی سال تک لوگ رشوت چوری چھپے اور ڈرتے ڈرتے لیتے تھے اور رشوت لینے والے کو نفرت سے دیکھا جاتا تھا۔ دیکھا جائے تو کرپشن 1972ء سے انتہا کو پہنچی جب شہروں‘ قصبوں اور دور دراز کے دیہات سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہنر مند اور غیر ہنر مند پاکستانی خلیجی ممالک میں دھڑا دھڑ جانے لگے اور سال دو سال بعد وطن واپس آتے ہوئے اپنے ساتھ ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈر کے علا وہ جاپانی ریشمی کپڑے اور نہ جانے کیا کیا لانے لگے۔ یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور چند سال بعد ٹی وی اور فریج آنے لگے۔ پرانے گھروں کی جگہ نئے گھر بننے لگے۔ پیسے کی فراوانی ہونے لگی تو شادی بیاہ کیلئے رشتوں کا معیار بھی بدلنے لگا۔ جہیز کا لالچ سر اٹھانے لگا اور آہستہ آہستہ آسیب کی طرح چاروں طرف چھا گیا‘ جس سے ارد گرد کے گھروں میں محرومیوں کا احساس ابھرنے لگا۔ ساتھ ہی خواتین کے رہن سہن اور باورچی خانوں میں بھی تبدیلیاں آنے لگیں۔ قیمتی لباس اور زیورات کو ہمسائے اور گائوں میں رشک اور حسد سے دیکھا جانے لگا۔ یوں حالات نے کروٹ لینا شروع کر دی اور وہ سوچیں دم توڑنے لگیں جب امیر اپنی امارت پر شکر اور غریب اپنی غریبی پر فکر نہیں بلکہ فخر کیا کرتے تھے کیونکہ اس وقت صرف دو وقت کی پیٹ بھر کر سادہ روٹی اور تن ڈھانپنے کیلئے سادہ لباس غنیمت سمجھا جاتا تھا۔ لوگ اپنی قسمت پر شاکر تھے‘ اس لیے کہ انہیں ترغیب دینے والا کوئی نہیں تھا لیکن خلیج کا پیسہ اور ٹی وی جب گلی محلوں اور دیہات میں پہنچنا شروع ہوا اور لوگوں نے رنگی برنگی دنیا کو سکرین پر دیکھنا شروع کیا تو آنکھیں کھلنے لگیں۔ ٹی وی‘ اچھا اور بڑا گھر‘ موٹر سائیکل اور پھرچھوٹی سے بڑی گاڑی کی خواہشیں پیدا ہوئیں اور ان خواہشوں سے کرپشن کا ناسور بڑھنے لگا اور ناسور جب حد سے بڑھتا ہے تو پھر سارا جسم گلنا شروع ہو جاتا اور آج ہمارے معاشرے اور پاکستان کی موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں