روایت ہے کہ شیریں کی محبت اور عشق میں فرہاد ایسا دیوانہ ہو چکا تھا کہ اس کے سامنے جب یہ شرط رکھی گئی کہ پہلے اس پہاڑ کو کاٹ کر اس میں سے دودھ کی نہر نکالنا ہو گی‘ اس کے بعد ہی شیریں سے شادی ہو سکے گی تو بغیر سوچے سمجھے فرہاد آسمان کی بلندیوں کو چھونے والے سنگلاخ پربت کو کاٹنے میں جُت گیا تاکہ پہاڑ کو کاٹ کر دودھ کی نہر نکال سکے۔ پہاڑوں کو کاٹ کر صرف نہر نکالنے کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ شرط کہ نہر دودھ کی ہو‘ آج کی دنیا میں تو شاید کسی طور ممکن ہو‘ لیکن سینکڑوں برس پہلے یہ قطعی ناممکن اور نا قابل یقین بات تھی۔ دودھ کی نہر اگر آج نکالنی ہو تو زیادہ مشکل کام نہیں ہے کیونکہ ہمارے ملک کا ہر گوالا اور دودھ فروش آج فرہاد بن چکا ہے۔ جس شہر‘ قصبے یا گائوں میں چلے جائیں‘ آپ کو ہزاروں کی تعداد میں فرہاد مل جائیں گے جن کا پانی خود بخود دودھ بن جاتا ہے۔ سینکڑوں برس پہلے کا فرہاد تو شیریں کے عشق میں بری طرح مبتلا ہونے اور اپنی دیوانگی کے باعث امر ہو چکا مگر اب تو ہمارے ہر گائوں‘ ہر ڈیرے پر دولت کے عشق میں دیوانے فرہاد اس تعداد میں مو جود ہیں کہ بلا شبہ لاکھوں تک پہنچ چکے ہیں۔ یہی وہ فرہاد ہیں جو ہمیں ''دودھ والی نہروں‘‘ سے ہر روز سیراب کرتے ہیں۔ پاکستان بھر میں ایسی نہروں کے ہر طرف جال بچھے ہوئے ہیں۔ ''اردو کی آخری کتاب‘‘ میں ابن انشا نے لکھا تھا کہ ''بھینس بہت مفید جانور ہے، پنجاب کے بیشترعلاقوں میں اسے ''مج‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ قد میں عقل سے تھوڑی بڑی ہوتی ہے۔ چوپایوں میں واحد جانور ہے جو موسیقی کا ذوق رکھتا ہے، اس لیے لوگ اس کے آگے بین بجاتے ہیں۔ بھینس دودھ دیتی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوتا، لہٰذا باقی دودھ گوالا دیتا ہے اور ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے‘‘۔ دہائیوں پہلے اگر یہ صورتحال تھی تو آج کیا معاملہ ہو گا‘ بتانے کی ضرورت نہیں۔
شیریں اور فرہاد کا قصہ یہ ہے کہ شیریں کے عشق میں مبتلا فرہاد اپنا تیشہ لے کر پہاڑ کاٹنے میں جت جاتا ہے‘ وہیں شیریں کی سہیلی اسے شیریں کی موت کی جھوٹی خبر سناتی ہے جسے سن کو وہ اپنا تیشہ اپنے ہی سر میں مارتا ہے اور وہیں دم توڑ دیتا ہے۔ ادھر شیریں تک جب یہ بات پہنچتی ہے تو وہ بھی فوراً موت کو گلے لگا لیتی ہے اور یوں دونوں بابِ عشق میں امر ہو جاتے ہیں۔ اس داستان میں ایک بات تو واضح ہے کہ فرہاد نے جس کام کا بیڑہ اٹھایا تھا یعنی پہاڑ تراش کر نہر کھودنے کا‘ وہ مکمل نہیں کر سکا مگر بھارتی ریاست بہار کے شہر ''گیا‘‘ کے ایک چھوٹے سے گائوں گہلور کا رہنے والا دشرتھ مانجھی اس حوالے سے ضرور منفرد رہا کہ صرف ایک تیشے اور ہتھوڑے کی مدد سے وہ مسلسل بائیس برس تک ایک پہاڑ کاٹنے میں جتا رہا اور آخر کار اپنا کام کو تکمیل تک پہنچایا۔ پہاڑ سے اس کی دشمنی کی وجہ یہ تھی کہ اسی پہاڑ کی وجہ سے اس کی بیوی پھاگنی دیوی موت سے ہمکنار ہوئی تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ پھاگنی گاؤں سے دور کام کرنے والے دشرتھ مانجھی کو کھانا دینے جارہی تھی مگر پہاڑی پگڈنڈی پر پھسل کر گری جس سے پتھر سر میں لگنے سے اسے بری طرح چوٹ آئی۔ چونکہ گاؤں اور شہر کے بیچ پہاڑ حائل تھا اور قریب ترین ہسپتال بھی گاؤں سے 55 کلومیٹر دور تھا اس وجہ سے دشرتھ مانجھی کی بیوی کو بروقت ہسپتال نہ لے جایا جا سکا اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ یہ 1960ء کا واقعہ ہے۔ اس سانحے نے دشرتھ مانجھی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس پہاڑ کو کاٹ کر راستہ بنائے گا تاکہ گاؤں اور شہر کا فاصلہ کم ہو سکے اور آئندہ کسی کا بھی عزیز ہسپتال وقت سے نہ پہنچنے کی وجہ سے موت کا شکار نہ ہو۔
بائیس برس تک ایک تنہا انسان ایک اونچے اور طویل پہاڑ کو کاٹ کر راستہ بناتا رہا اور آخرکار دو دہائیوں سے زائد پر محیط کٹھن مشقت کے بعد وہ 110 میٹر طویل ایک ایسی سڑک بنانے میں کامیاب ہو گیا جس کی چوڑائی 30 فٹ اور گہرائی 25 فٹ تھی۔ اس راستے کے سبب شہر اور گائوں کا فاصلہ 55 کلومیٹر سے کم ہو کر صرف 15 کلومیٹر رہ گیا۔ 1982ء میں گہلور کا مانجھی اپنی شیریں کے لیے نہر کھودنے میں کامیاب ہوا‘ جبکہ وہ اسے دیکھنے کے لیے موجود بھی نہیں تھی مگر مانجھی کے اس حیرت انگیز اور نا قابلِ یقین کارنامے نے دنیا بھر میں دھوم مچا کر رکھ دی۔ لوگ بھارت سمیت دنیا بھر سے مانجھی اور اس کی تیار کی گئی سڑک کو دیکھنے کے لیے امڈ پڑے۔ دشرتھ مانجھی‘ جس کا 2007ء میں انتقال ہو چکا ہے‘ اس نے پہاروں کو کاٹ کر دنیا کے ہر شخص کو بتا دیا کہ انسان چاہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ انسان کے ارادے اور نیت کے سامنے پہاڑ ایک رائی کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ آج لوک داستانوں میں شیریں‘ فرہاد کا نام تو ہر جگہ سننے میں آتا ہے جو ایک فرضی قسم کی داستان ہے، حقیقی داستان تو دشرتھ مانجھی کی کہانی ہے جس نے اپنی بیوی پھاگنی دیوی کی چاہت میں گم ہو کر وہ باب رقم کیا کہ جس سے دنیا بھر میں اسے اور اس کے گائوں کو ایک پہچان ملی اور دنیا اسے ''مائوٹین مین‘‘ کے نام سے یاد کرنے لگی۔ اس کے اس نا قابل یقین کارنامے پر بھارت میں ''مانجھی دی مائونٹین مین‘‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی۔ دشرتھ مانجھی کا کارنامہ صرف یہ نہیں کہ اس نے ایک پہاڑ کو کاٹ کر سڑک بنا دی بلکہ اس نے رہتی دنیا تک اپنے اس عشق‘ جذبے اور ہمت سے یہ ثابت کیا کہ انسان چاہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اگر مانجھی اپنی بیوی کی حادثاتی موت کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر کر کے بیٹھ جاتا تو کیا وہ یہ ناقابلِ یقین کارنامہ سر انجام دے سکتا تھا؟ گائوں سے قصبے کے ہسپتال کی راہ میں حائل اس پہاڑی سلسلے کی رکاوٹ نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس پہاڑ سے اس کی نفرت ایک ایسی دشمنی میں بدل گئی کہ اس نے قسم اٹھائی کہ وہ پھاگنی کی موت کے اصل ذمہ دار اس پہاڑی سلسلے‘ جو اس کی بیوی کے ہسپتال پہنچنے میں رکاوٹ بن گیا تھا‘ کو ریزہ ریزہ کرکے رکھ دے گا تاکہ پھر کسی کی بیوی کے شہر یا ہسپتال جانے کی راہ میں یہ رکاوٹ نہ بن سکے۔ جب کسی کام کیلئے انسان اپنے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے نکل کھڑا ہوتا ہے تو پھر اس کیلئے کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔ بالکل اسی طرح ہم سب نے دیکھا کہ ہمارے ملک میں بھی ایک شخص نے اپنی ماں کو کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتے اور درد کی شدت سے تڑپتے ہوئے دیکھا تو اپنے رب سے عہد کیا کہ وہ ایک ایسا ہسپتال بنائے گا جہاں ہر غریب اور نادار کا علاج ہو سکے گا اور کسی کو تڑپنا نہیں پڑے گا۔
دشرتھ مانجھی کی کہانی کا سب سے بڑا حاصل یہ ہے کہ لوگوں نے اس سے باقاعدہ ترغیب حاصل کی۔ بہار ہی میں دارالحکومت پٹنہ سے تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں کیوٹی سے بھی ایک ایسی ہی داستان سامنے آئی جہاں رام چندر داس نامی شخص نے 15 برس کی سخت محنت سے پہاڑ کاٹ کر 10 میٹر لمبی اور چار میٹر چوڑی سڑک بنائی۔ رام چندر‘ جو مشہور صوفی شاعر کبیر کے نظریات سے اس قدر متاثر ہوا کہ اپنا نام رام چندر یادیو کے بجائے رام چندر داس رکھ لیا‘ نے جب ''دشرتھ بابا‘‘ (دشرتھ مانجھی) کی کہانی سنی تو اسے بھی اس کام کی ترغیب ملی لہٰذا اس نے 1993ء میں پہاڑ کاٹنے کا کام شروع کر دیا۔ ہر روز وہ پانچ سے دس من پتھر توڑتا اور ہر بار نئے عزم کے ساتھ کام کا آغاز کرتا۔ آخر کار پندرہ سال کی محنت کے بعد وہ 2008ء میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ۔اب اس کے گائوں سے قریبی دیہات کا فاصلہ سات کلومیٹر سے کم ہو کر قریب ڈھائی کلومیٹر رہ گیا ہے۔
دشرتھ مانجھی نے جب تیشے اور ہتھوڑے سے پہاڑ پر پہلی ضرب لگائی تھی تو گائوں والوں نے اسے پاگل کہنا شروع کر دیا تھا اور یہ بات دور‘ نزدیک کے سبھی دیہات تک پھیل گئی کہ اپنی بیوی کے غم میں دشرتھ مانجھی اس قدر پاگل ہو چکا ہے کہ اکیلا ہی پہاڑوں کو کاٹنا شروع ہو گیا ہے لیکن دشرتھ مانجھی نے کسی کی باتوں‘ ہنسی اور ٹھٹھے کی پروا نہ کی اور اپنے کام میں جتا رہا۔ اس کے ہاتھ پائوں زخمی ہو گئے‘ اس نے بھوک اور پیاس کا سامنا کیا مگر اپنے کام میں جتا رہا۔ پہلے اس کے گائوں میں ایک چھوٹی سی دکان کے سوا کسی بازار کا وجود تک نہ تھا مگر جیسے ہی پہاڑ کاٹ کر اس نے سڑک بنائی تو دور دور سے ایک دنیا اسے دیکھنے کیلئے اس طرح امڈنا شروع ہو گئی اور وہاں دیکھتے ہی دیکھتے دکانیں بننا شروع ہو گئیں اور پھر ایک ہسپتال بھی بن گیا جہاں لوگ دور‘ دراز سے اپنے علاج کیلئے آنا شروع ہو گئے۔