11 فروری 1990ء کا دن دنیا میں ایک نئے پیغام اور ایک نئے طرزِ عمل کا سورج لے کر طلوع ہوا تھا۔ یہ وہ دن تھا جب مشہور سیاہ فام افریقی رہنما نیلسن منڈیلا کو ''وکٹر ورسٹر‘‘ جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ منڈیلا کی رہائی کے وقت جیل کا انچارج تھر تھر کانپ رہا تھا کیونکہ جسمانی اور ذہنی تشدد کا کوئی ایسا حربہ نہیں تھا جو اس نے منڈیلا پر نہیں آزمایا تھا مگر اگلے ہی لمحے ایک عجیب اور غیر متوقع منظر اس کے سامنے تھا۔ قید خانے سے نکلتے وقت منڈیلا واپس مڑا اور جیلر سے ہاتھ ملایا‘ اس کی اور اس کے خاندان والوں کی خیر خیریت پوچھی‘ اس کا شکریہ ادا کیا اور باہر کی جانب چل دیا جہاں لاکھوں کا ہجوم اس کا منتظر تھا۔
منڈیلا کے دشمنوں میں ایک نام پرسی یوتر (Percy Yutar) کا تھا جو جنوبی افریقہ کا ایک کامیاب سفید فام وکیل اور پہلا یہودی اٹارنی جنرل تھا۔ وہ دل سے اس بات کا قائل تھا کہ کالے اور گورے کبھی برابر نہیں ہو سکتے اور کالوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ 1963ء میں یہ پرسی ہی تھا جو حکومت کی طرف سے مشہور رائیوونیا ٹرائل (Rivonia Trial) میں نیلسن منڈیلا کے خلاف وکیل مقرر ہوا تھا۔ اسی مقدمے میں نیلسن منڈیلا کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی اور اسے کیپ ٹائون سے قریب سات کلومیٹر دور روبن آئی لینڈ (Robben Island) کے عقوبت خانے میں منتقل کر دیا گیا تھا جہاں منڈیلا نے 18 سال قید کاٹی۔ اس ٹرائل کے بعد پرسی اپنے ملک کا ایک ایسا ہیرو بن کر ابھرا جس نے دنیا کے خطرناک ترین مجرموں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا تھا۔ نیلسن منڈیلا کا جنوبی افریقہ کا صدر بننا پرسی کے لیے ایک ڈرائونا خواب تھا۔ جب منڈیلا نے صدارت کا حلف اٹھایا تو پرسی ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک منتقل ہونے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اسی دوران ایوانِ صدر سے اسے پیغام موصول ہوا کہ صدر اس کے اعزاز میں ڈنر دینا چاہتے ہیں۔ پرسی سمجھا کہ یہ ایک مذاق ہے۔ اس نے اپنی فیملی سے الوداعی ملاقات کی کیونکہ اسے لگ رہا تھا کہ قصرِ صدارت میں یا تو اسے قتل کر دیا جائے گا یا باقی کی عمر کسی اندھی جیل میں سڑنے کے لیے پھینک دیا جائے گا۔ وہ ایوانِ صدر گیا جہاں منڈیلا نے دروازے پر اس کا استقبال کیا اور سادہ سے کھانے سے اس کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد منڈیلا نے پرسی کا شکریہ ادا کیا، اسے معاف کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ تو محض ایک وکیل کی حیثیت سے اپنے فرائض پورے کر رہا تھا۔ اس ملاقات کے بعد پرسی کبھی نیلسن منڈیلا سے نظریں نہیں ملا پایا۔ کرسٹو برینڈ (Christo Brand) اُس جیل کا ملازم تھا جہاں منڈیلا قید تھا۔ وہ ایک نیم تعلیم یافتہ شخص تھا جو گوروں کو اپنے ملک کا نجات دہندہ سمجھتا تھا جن کی وجہ سے ملک میں امن قائم تھا۔ اس کا تبادلہ روبن آئی لینڈ کی اس جیل میں کیا گیا جہاں منڈیلا قید تھا۔ ڈیوٹی کے پہلے دن ہی اسے سمجھایا گیا کہ اس جیل میں دنیا کے خطرناک ترین مجرم قید ہیں جو کسی رعایت کے مستحق نہیں لہٰذا ان سے کسی قسم کی نرمی مت برتنا ورنہ اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ کرسٹو برینڈ انتہائی درشت رویے کا حامل تھا۔ منڈیلا نے ایک دن اس سے کیاری میں لگانے کے لیے بیج مانگے تو کرسٹو نے اسے بری طرح جھڑک دیا؛ تاہم چند دن بعد کچھ بیج لا کر اسے دیدیے۔ منڈیلا سارا دن یا تو مطالعہ کرتا رہتا یا اپنی کیاریوں میں پودوں کی دیکھ بھال کرتا رہتا۔ قوانین کے مطابق کرسٹو کو ان خطرناک قیدیوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ اس کا رویہ ہمیشہ بہت تلخ بلکہ ظالمانہ رہا مگر جب منڈیلا صدر بنا تواس نے کرسٹو کو بھی مدعو کیا اور اس کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور اسے بھی معاف کر دیا۔ نیلسن منڈیلا کی عام معافی کی بازگشت پوری دنیا میں گونجی اور جنوبی افریقہ کے لوگوں میں اپنے صدر کا رویہ دیکھ کرصلح پسندی اور امن کے جذبات ابھرنے لگے۔
اس وقت وطنِ عزیز میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر ابھر رہی ہے۔ تربت، پسنی ، ٹانک، وزیرستان اور میانوالی میں حالیہ دہشت گردی نے ہر پاکستانی کو ہلاکر رکھ دیاہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں جس قدر جانی اور مالی نقصان کا وطن عزیز کو سامنا کرنا پڑا ہے‘ وہ انتہائی دردناک اور تشویشناک ہے۔ قوم کے بیٹوں نے اپنی جانیں قربان کر کے دہشت گردوں کے حملوں کو ناکام بنایا لیکن ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ اسے کس طرح مستقل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس کا کوئی حل ہے؟
جب گزشتہ حکومت میں ٹی ٹی پی اور دوسرے گروپوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو پی ڈی ایم نے اس کی بھرپور مخالفت کی تھی اور آج بھی دہشت گردی کی لہر کو بلاجواز طور پر ان مذاکرات کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مذاکرات نہیں کرنے تو پھر کیا آپشن ہے؟ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے اور یہ عفریت ہر کچھ عرصے بعد دوبارہ سر اٹھانے لگتا ہے۔ ان آپریشنز میں جانی و مالی نقصان ایک طرف‘ ملکی معیشت بھی ان سے شدید متاثر ہوتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں بلوچستان میں امن قائم کرنے کے نام پر بھرپور فوجی ایکشن کرایا مگر اس سے دونوں جانب نجانے کتنی جانیں ضائع ہوئیں اور وہ سلسلہ جو محدود پیمانے پر تھا‘ پورے صوبے پہ محیط ہو گیا۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق نے مارشل لگایا تو ان تمام افراد‘ جو ریاست پر حملوں میں ملوث تھے‘ کے خلاف آپریشن کو طول دینے کے بجائے سب کو عام معافی دینے کا اعلان کر دیا جس سے پورے صوبے میں امن قائم ہو گیا جو دو دہائیوں تک قائم رہا۔ اس سے پہلے جنرل ایوب خان کے دور میں بلوچستان میں پہلی بار شورش پر قابو پانے کیلئے فوج بھیجی گئی تھی اور دونوں اطراف کو نقصان ہوا لیکن آخرکار عام معافی کا اعلان کرنا پڑا۔ مشرف دور میں اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد معاملات خراب ہوئے تو آصف زرداری نے اپنے دورِ حکومت میں متعدد مرتبہ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کیلئے عام معافی کا اعلان کیا۔
یقینا ملک و قوم کو دہشت گردی سے ہونے والے جانی نقصانات کا دکھ کبھی بھی نہیں بھول سکتا لیکن دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ وہ ملک‘ جو کئی کئی سال بلکہ کئی کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے اور ان جنگوں میں کئی لاکھ افراد ہلاک ہوئے‘ بالآخر ان کا نتیجہ بھی مذاکرات کی میز پر ہی نکلا۔ یورپ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ تمام ملک ایک دوسرے کے جانی دشمن رہے‘ فرانس اور برطانیہ میں پانچ صدیوں تک جنگیں لڑی گئیں مگر نتیجہ کیا نکلا؟ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں میں کئی کروڑ انسان ہلاک ہوئے‘ پھر بھی حتمی نتیجے کے لیے تمام ملکوں کو امن کی خاطر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا۔ جرمنی نے شکست اور جاپان نے ہزیمت کے باوجود امن مذاکرات کی میز پر سب کچھ برداشت کرتے ہوئے کڑوا گھونٹ بھرا اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ دو چار نہیں‘ بیس برس تک طالبان سے خونریز جنگ لڑنے کے بعد امریکہ ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ نے بھی طالبان کیلئے عام معافی کا اعلان کیا اور انہیں دنیا میں کہیں بھی سفر کرنے کی اجازت دی۔ پانچ برس تک مذاکرات ہوتے رہے اور پھر ایک امن معاہدہ کیا گیا جس کے نتیجے میں طالبان آج افغانستان میں اپنی حکومت قائم کیے ہوئے ہیں۔
ٹی ٹی پی اور اس کی معاون تنظیموں نے جس قدر نقصان اس ملک و قوم کو پہنچایا‘ اس کا حساب نہیں لیکن اس کا پس منظر جاننے کیلئے اجیت دوول کا ایک بھارتی یونیورسٹی سے کیا گیا خطاب سامنے رکھیں‘ جس میں وہ بتاتا ہے کہ بھارت کو پاکستان سے جنگ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے‘ جنگ پر ہونے والے خرچ کے ایک چوتھائی سے بھارت پاکستان کے لوگوں کو تقسیم کر کے انہیں جنگ سے زیادہ نقصانات پہنچا رہا ہے۔ بلاشبہ بھارت پراکسی وار لڑ رہا ہے لیکن کیا اس کی یہ پراکسی وار کچھ جھک کر ناکام نہیں کی جا سکتی؟ دیکھا جائے تو امن بھی ایک جیت ہوتی ہے۔ اگر مسلح دہشت گرد امن مذاکرات سے ہتھیار ڈال کر پھر سے قومی دھارے میں شامل ہو جائیں اور خطرناک پہاڑیوں اور پُرپیچ گھاٹیوں اور وادیوں میں تعینات نفری کو کسی دوسری جگہ تعینات کر کے امن قائم کر لیا جائے تو اس میں برائی کیا ہے؟