اس وقت لاہور اور پنجاب کے ہر تھانے اور ضلعی جیلوں میں دو قسم کے حوالاتی موجود ہیں‘ ایک وہ جو عادی مجرم ہیں اور دوسرے پندرہ سولہ سال کے وہ بچے جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں جیسے جرائم میں عادی مجرموں کے ساتھ بند کیے جا رہے ہیں۔ ایک دو روز قبل ایک صاحب نے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا تھا کہ ہر تھانے کو باقاعدہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ آپ نے 24گھنٹوں میں اتنے بچوں کو گرفتار کر کے وائرلیس پر اطلاع دینی ہے۔ 48گھنٹوں میں ہزاروں بچوں کو ہنگامی احکامات جاری کرتے ہوئے ٹریفک کی خلاف ورزی پر جیلوں میں بند کر دیا جائے اور یہ بچے اچھے یا درمیانے کسی بھی سکول میں ساتویں یا نویں جماعت میں پڑھ رہے ہوں اور انہوں نے اس سے پہلے پولیس سٹیشن کو باہر سے ہی دیکھا ہو اور یہ بچے جب تھانوں کی بدبو دار حوالاتوں اور ضلعی عقوبت خانوں میں جرائم کے سرغنوں کے درمیان بند کر دیے جائیں تو ان کی ذہنی کیفیت کیا ہو جائے گی‘ اس کا شاید کسی کو اندازہ ہی نہیں ہو رہا؟ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے والدین بھی اس کے ذمہ دار ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے والدین یا تو ملک سے باہر ہو سکتے ہیں یا کسی دوسرے شہر میں ملازمت کرتے ہوں گے اور بہت سے صبح سویرے کام پر جاتے ہوں گے اور رات کو واپس آتے ہوں گے‘ بہرحال پھر بھی یہ والدین قابلِ پُرسش ضرور ہیں لیکن وہ بھی ایک حد تک۔
بچوں اور بڑوں کو سمجھانے کا طریقہ ہمیشہ سے مختلف ہی ہوتا ہے لیکن یہاں پر پندرہ‘ سولہ سال کے بچے اور چالیس سالہ اشتہاری کو ایک ہی طریقے سے ہانکا جا رہا ہے۔ کیا کسی قوم کے لیے منا سب ہے کہ سکولوں کے بچوں کو عادی مجرموں کے ساتھ جیلوں میں قید کر دیا جائے؟ محکمہ پولیس میں بے تحاشا سوشیالوجی اور سائیکالوجی میں ایم فل مرد و خواتین ملازمت کر رہے ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ ان کو آن بورڈ لیتے ہوئے ایسے بچوں کو کسی این جی او یا یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور ماہرینِ نفسیات کی نگرانی میں دے دیا جاتا یا بچوں کو ایسے سکولوں اور دارلامان میں رکھا جاتا جہاں اس قسم کے بچو ں کی تربیت کی جا رہی ہے۔ ایک ایسا بچہ جس نے زندگی میں کسی پولیس سٹیشن کا ماحول نہیں دیکھا ہوتا‘ اسے پولیس سٹیشنوں کے ایسے ماحول میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں اُگلی جانے والی گالیوں اور پولیس کے تفتیشی طریقہ کار سے اُبھرنے اور گونجنے والی چیخوں سے یہ بچے نفسیاتی مریض بن سکتے ہیں۔ آپ انہیں ایک یا دو چار دن بعد جیلوں سے نکال بھی دیں گے لیکن ان کے ذہن اور دماغ سے پولیس سٹیشن کا خوف اور ماحول جلد نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا ایس ایچ او صاحبان کے پاس یہ اختیارات نہیں ہوتے کہ وہ کچھ ایف آئی آرز میں پولیس سٹیشن میں ہی ضمانت لے سکتے ہیں‘ کیا ان بچوں کو شخصی ضمانتوں پر رہا نہیں کیا جا سکتا تھا؟ ان بچوں کی عادی مجرموں کے ساتھ وڈیوز بنا کر ان کو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر وائرل کرکے کیا نیکی کا کام کیا گیا ہے؟ گزشتہ دنوں لاہور میں ہونے والے ٹریفک حادثے‘ میں چھ قیمتیں جانیں ضائع ہوئیں (اسے ٹریفک حادثہ کہہ لیں یا ہر ایک کی اپنی اپنی تحقیق کے مطابق اخذ کیا جانے والا نتیجہ سامنے رکھ لیں) لیکن اس حادثے میں جس طرح چھ انتہائی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں‘ وہ پورے معاشرے کے لیے انتہائی افسوسناک ہی نہیں بلکہ اندوہناک بھی ہے۔ لاہور کے اُس علا قے‘جہاں یہ حادثہ پیش آیا بلکہ عین حادثے والی جگہ کے سامنے اور ارد گرد رہنے والے لوگوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم تو اُس حادثے کے بعد سے ابھی تک ٹھیک سے سو بھی نہیں سکے اور خاص طور پر بچے تو اس جگہ کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ڈرنے لگے ہیں۔ یہ علاقہ تو دن کے وقت بھی سنسان رہتا ہے اور رات کو تو سناٹا طاری رہتا ہے۔ اس سناٹے میں تیز رفتاری سے دوڑائی جانے والی ہیوی بائیکس کی گونج اور بڑی بڑی گاڑیوں کی زناٹے بھرتی ہوئی آوازیں اور اچانک لگائی جانے والی بریکوں کی خوفناک چرچڑاہٹ تو سونے ہی نہیں دیتی۔ جس مقام پر یہ حادثہ پیش آیا تھا‘ وہاں کے مکینوں نے نہ جانے کتنی بار سکیورٹی کے ذمہ داروں کے علاوہ مقامی انتظامیہ سے درخواستیں کیں لیکن کسی نے ان کی بات پر کان دھرنا گوارا نہ کیا اور دیکھنے والے دیکھتے تھے کہ یہ کسی رہائشی علاقے کی سڑکیں نہیں بلکہ کوئی وسیع میدان ہے جہاں کسی ریلی کے لیے پریکٹس کرنے والوں کو لائسنس ٹو کِل دے دیا گیا ہے۔ اس جگہ یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں تھا بلکہ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ یہاں تو راہزنی کی بھی نہ جانے کتنی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ عوام کی شکایات کے بعد اب یہاں پر پولیس کے ناکوں اور بیریئرز کی بھر مار کر دی گئی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم اس وقت ہی جاگتے ہیں جب سر پر پہاڑ ٹوٹتا ہے۔ کیا ہمارے ملک کا قانون اور آئین حادثوں کا ہی محتاج ہے۔ ہر ایک دو سال بعد میڈیا پر گونجنے والی پکار اور دکھائی جانے والی وڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ جس وجہ سے یہ جانکاہ حادثہ ہوا‘ اس کے متعلق تو نہ جانے کب سے ہمارے ملک میں قانون موجود ہے تو پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شروع دن سے ہی اس قانون پر عملدرآمد کیوں نہیں کرایا؟ کیا قانون صرف بنانے یا اس کو پرنٹ کروا کر کتابوں کی صورت میں محفوظ کرنے کے لیے ہی رہ گئے ہیں؟
چند ماہ سے ملتان پولیس کی سوشل میڈیا پر دیکھی جانے والی وڈیوز سے ان کی نیک دلی اور جرائم کے خلاف جنگ کی دل سے قدر و منزلت کرنے لگے تھے لیکن تین روز قبل وہاں کی ایک وڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک کم عمر بچے کو‘ جو موٹر سائیکل پر سوار ہے‘ اسے معاف کرنے‘ تنبیہ کرنے یا اس کے والدین کو بلا کر اس کے سامنے ڈانٹنے یا سمجھانے کے بجائے اسی بات پر زور دیا جاتا رہا کہ اگر اس بچے کو معاف کیا گیا تو یہ باقی سب سے زیا دتی ہو گی‘ اگر اسے آج بند نہ کیا گیا تو کل کو یہ کسی بڑے حادثے کا موجب بن سکتا ہے؟ ان کا یہ فرمان سر آنکھوں پر لیکن جناب یہ تو بچہ ہے لیکن وہ لوگ‘ وہ مجرم جن کو آپ پکڑ کر اچھی خاصی تفتیش کرنے کے بعد جیلوں میں ڈال دیتے ہیں کیا وہ وہاں سے سدھر کر آتے ہیں؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ جرائم کی اصل اکیڈیمی یہ جیلیں ہی ہیں۔ ڈکیتوں کے گینگ یہیں سے جنم لیتے ہیں اور ایسے گینگز اور گروہوں کے ساتھ معصوم بچوں کو جیلوں کی شکلیں دکھائی جائی رہی ہیں۔ ان بچوں کو جیلوں میں بند کرنے کے بجائے کیا ان کے سکولوں میں جا کر انہیں سمجھایا جانا بہتر نہیں تھا؟ ہاں جس لڑکے نے کسی بھی طریقے سے چھ قیمتی جانیں لی ہیں‘ اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خدا کی پناہ‘ پندرہ‘ سولہ سال کے بچوں کے خلاف اس طرح ایف آئی آرز درج کی جا رہی ہیں جیسے وہ کسی انتہائی سنگین جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنے اس شاہی فرمان کو واپس لیتے ہوئے ان بچوں کے خلاف درج کرائے گئے مقدمات کو خارج کرائے۔ اگر ہماری ملکی املاک کو نقصان پہنچانے والوں‘ سکیورٹی اداروں کے افسروں اور جوانوں کو شہید کرنے والوں‘ ان کو عمر بھر کے لیے اپاہج کرنے والے دہشت گردوں کو ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونے پر عام معافی اور ان کے خلاف درج تمام مقدمات خارج ہو سکتے ہیں تو ان بچوں کے مقدمات کیوں نہیں واپس لیے جا سکتے؟