ماہِ نومبر کے آخری تین دن

28، 29، 30 نومبر۔ یہ تینوں دن ہماری چھہتر سالہ قومی تاریخ کے اہم سنگِ میل ہیں۔ میں ہر ایک کا باری باری تعارف کراتا ہوں۔ 28 نومبر اس لحاظ سے یادگار دن بنا کہ پہلی بار پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کو حرفِ حق ادا کرنے کی توفیق ہوئی‘ وہ سیاسی جماعت ایم کیو ایم ہے۔ یقینا بڑی متنازع فیہ! اس دن وہ مقامی حکومتوں کے نئے‘ جاندار‘ فعال اور عوام دوست نظام کا مطالبہ لے کر میدان میں نکلی۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ میڈیکل کالج کی ایک طالبہ کا بس ڈرائیور کی وحشیانہ ڈرائیونگ کا شکار ہو کر ہلاک ہو جانا اس سیاسی جماعت کے جنم کا باعث بنا۔ یہ بات 15 اپریل 1984ء کی ہے۔ صبح سویرے کالج جاتے ہوئے طالبہ نے کالج کے قریبی سٹاپ پر اترنا تھا مگر صبح کے وقت وہاں بس پر سوار ہونے والا کوئی مسافر نہیں تھا‘ اس لیے ڈرائیور کی کوشش تھی کہ دوسری کسی بس سے پہلے اگلے سٹاپ پر پہنچ کر وہاں موجود مسافروں کو سوار کر لیا جائے، اسی جلد بازی میں ڈرائیور نے کالج سٹاپ پر بس روکنے کے بجائے رفتار بڑھا دی۔ مگر جب طالبات نے ڈرائیور اور کنڈیکٹر سے کہا انہیں کالج کے سٹاپ پر اترنا ہے تو ڈرائیور نے کہا کہ وہ بس روکے گا تو نہیں مگر رفتار کم کرسکتا ہے‘ جب بس کی رفتار آہستہ ہوئی تو طالبات نے چلتی بس سے اترنے کی کوشش کی اور اسی کوشش میں وہ لڑکھڑا گئیں اور اسی منی بس کے پچھلے پہیوں سے کچلی گئیں۔ایک طالبہ (بشریٰ زیدی) نے موقع پر ہی دم توڑ دیا جبکہ اس کی ایک بہن (نجمہ زیدی) کی ٹانگ پہیوں سے کچل کر ٹوٹ گئی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسافروں میں سب سے زیادہ تعداد شہر کی قدیم اردو بولنے والی آبادی کی تھی جبکہ ڈرائیورز اور عملہ (کنڈیکٹر ، کلینر وغیرہ) غیر مقامی تھے لہٰذا پنجابی پختون اتحاد کا مقابلہ کرنے کیلئے ایم کیو ایم(مہاجر قومی موومنٹ) وقت کی ضرورت بن کر اُبھری اور دیکھتے ہی دیکھتے سندھ کے دو شہروں (کراچی اور حیدرآباد) میں چھا گئی۔
کوئی شک نہیں کہ سندھ میں اُردو بولنے والے اور ہندوستان سے ہجرت کر کے سندھ کو اپنا مسکن بنانے والے ایک جداگانہ قومیت تھے (صد افسوس کہ چھہتر سال کے بعد بھی ہیں) اُنہوں نے جماعت اسلامی اور مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم سے اپنی ترجمانی اور قیادت کا حق واپس لے کر متوسط طبقہ کے تعلیم یافتہ افراد کو صوبائی اور قومی اسمبلی میں (اپنے ٹکٹ پر کامیاب کرکے) اپنی ترجمانی کا فرض سونپا۔ کاش کہ اس جماعت کو الطاف حسین کی قیادت نصیب نہ ہوتی۔ کاش کہ اس پر دہشت گردی‘ بھتہ خوری‘ اپنے مخالفین کے قتل (مثلاً حکیم محمد سعید اور صلاح الدین احمد) اور بھتہ نہ ملنے پر ایک فیکٹری کو آگ لگا کر 275 کے قریب بے گناہ اور معصوم کارکنوں (جن کی اکثریت اپنے گھرانے کی کفالت کی ذمہ دار تھی) کو جلا کر راکھ کر دینے کے بھیانک الزامات نہ لگتے۔ اب الطاف حسین اور اُن کا سیاہ دور (جس میں وہ سراسرغیر جمہوری اور فسطائی رہنما تھے) تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اب کراچی میں بوری میں بند لاشیں نہیں ملتیں۔ اب اہالیانِ کراچی کے سروں کے اُوپر اس طرح بھتہ خوری کی تلوار بھی نہیں لٹکتی۔ وہ زمانہ تھا کہ لندن سے فون پر تقریر کرنا ہوتی تو سارے کراچی کا سانس (اور ٹریفک) رُک جاتا تھا۔ اب قائدِ ایم کیو ایم لندن میں اس خاموشی کے ساتھ دم سادھے کسی تاریک کونے میں پڑے ہیں کہ میں جب کبھی اُن کے لندن میں رہائشی محلہ Mill Hill جاتا ہوں تو اُن کے مکان سے چوں کی آواز بھی نہیں آتی۔ اُن کے پڑوسیوں نے عرصہ ہوا کہ اُن کی شکل دیکھی ہے نہ آواز سنی ہے۔ مقامِ صد شکر ہے کہ ایم کیو ایم کئی متحارب گروہوں میں تقسیم ہو جانے کے بعد پھر متحدہوگئی ہے (یعنی اسم بامسمیٰ ہے)۔ تحریک انصاف سے پہلے وہ ہمارے ملک میں متوسط طبقے کی واحد جماعت تھی۔ اب تحریک انصاف زیرِ عتاب ہے تو تاریخ نے ایم کیو ایم پر پھر متوسط طبقے کی نمائندگی کا فریضہ عائد کر دیا ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرتی اور جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کر کے کراچی کے عوام کی نمائندگی کرتی۔ مقامِ حیرت ہے کہ اتنے برسوں کے سیاسی تجربے کے باوجود ایم کیو ایم نے وہی فاش غلطی کی جو اس سے پہلے دُوسری سیاسی جماعتیں کر چکی اور اس کا خمیازہ بھگت چکی ہیں۔
28 نومبر کو جو خوشخبری آئی میں اس کا سہرا خالد مقبول صدیقی‘ ڈاکٹر فاروق ستار‘ مصطفی کمال اور کشور زہرہ کے سر باندھتا ہوں۔ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے یہ کمال کر دکھایا کہ نہ صرف خود مختار اضلاعی حکومتوں کی شکل میں مقامی حکومتوں کے نئے‘ جاندار‘ فعال اور عوام دوست نظام کا مطالبہ کیا بلکہ اس کو ایک آئینی ترمیم (غالباً چھبیسویں ترمیم) کی شکل میں لکھ کر متعارف کرایا۔ وقت کا پھیر دیکھئے کہ بھتہ خوری کے الزامات سے بلند ہو کر ایک سیاسی جماعت قومی ضمیر کی آواز بن جاتی ہے۔ اس مطالبے نے کالم نگار کا جھکا ہوا سر خوشی اور فخر سے پھر اُونچا کر دیا۔ ذاتی مبارکباد تو میں کشور زہرہ صاحبہ کو دے چکا ‘اس کالم کے ذریعے نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ سارے اہلِ وطن کو مبارک ہو کہ ہمارا اندھیرے سے روشنی کی طرف سفر شروع ہوا‘ پہلا قدم تو اُٹھایا! ایک خیر خواہ کے طور پر میرا فرض ہے کہ میں یہ دوستانہ مشورہ دوں کہ اپنی مجوزہ آئینی ترمیم پر نظر ثانی کرتے ہوئے ضلع کے بجائے ڈویژن کو مقامی حکومت کی خود مختار اکائی بنائیں۔ ہر ضلع کے پاس اتنے کم وسائل‘ کم آبادی اور کم رقبہ ہوتا ہے کہ وہ خود مختار ہونے کا بوجھ نہ اُٹھا سکے گا۔ یہ کام صرف اور صرف ڈویژن کر سکتی ہے۔ کراچی اور لاہور کو توصوبائی درجہ دینا ہوگا۔ اس حوالے سے انہیں چاہیے کہ صحافیوں‘ سیاسی کارکنوں‘ یونیورسٹی اساتذہ‘ قانونی ماہرین اور پاکستان میں مقامی حکومتوں کے ایک پرانے (راجہ منور احمد) اور دو نئے ماہرین (زاہد اسلام اور سلمان عابد) سے مشورہ کریں۔
28 نومبر کا دن مجوزہ آئینی ترمیم کی وجہ سے اتنی جگہ لے گیا ہے۔ 29 نومبر اس لیے بڑا یادگار دن رہا کہ پاکستان میں پہلی بار سو ل سوسائٹی (صحافیوں‘ دانشوروں‘ وکلا‘ اساتذہ اور مزدوروں) نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور اہلِ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے اتنے بڑے جلوس اور احتجاجی مظاہرہ کا اہتمام کیا۔ میں ساری سیاسی جماعتوں کا شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے بھی اس میں اپنی شرکت کا اعلان کیا۔ میں اہالیانِ کراچی کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے اپنی نوعیت کے پہلے عوامی مظاہرے کو کامیاب بنایا۔میں چالیس برس سے کہہ اور لکھ رہا ہوں کہ سول سوسائٹی کا فعال اور جاندار اتحاد ہی ہماری کایا پلٹ سکتا ہے۔
30نومبر ایک گمنام مگر قابلِ صد ستائش سیاسی رہنما جناب فاروق قریشی کی وفات کا دن ہے۔ وہ ساری عمر اُصول پرستی اور اعلیٰ سیاسی اقدار کے علمبردار رہے۔ جناب بھٹو اور ضیاء الحق‘ دونوں نے اُنہیں (کسی عدالت میں مقدمہ چلائے بغیر) قید بامشقت کی سزائیں دیں۔ وہ ولی خان‘ شیر باز مزاری‘ میاں افتخار الدین‘ مولانا بھاشانی اور (بائیں بازو کے) ترقی پسند رہنمائوں کے قریبی ساتھی رہے۔ کئی عشروں پر پھیلا ہوا سیاسی کردار بے داغ رہا۔ کتنا اچھا ہو کہ میڈیا ہر روز اُن لوگوں کو یوم پیدائش اور یوم وفات کے حوالے سے یاد کرے جو ہمارا قیمتی سرمایہ تھے۔ غالبؔ نے خاک سے مخاطب ہو کر اس سے پوچھا تھا کہ اُس نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے؟ میں اپنے صحافی دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ اُنہوں نے فاروق قریشی کی طرح آسمان پر چمکتے ہوئے درخشاں ستاروں کو کیوں بھلا دیا جو ہمیں روشن مستقبل کی نوید دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں