چہرے نہیں نظام بدلو …(2)

سب سے پہلے کالم نگار کی طرف سے تمام قارئین و اہلِ وطن کو سالِ نو کی مبارکباد اور نیک تمنائوں کا اظہار! قارئین کو یاد ہوگا کہ کالم کے عنوان کے آخری دو الفاظ کی اہمیت یہ نہیں کہ اُنہیں ڈاکٹرمبشر حسن نے 1965ء میں اور ایئرمارشل (ر) اصغر خان نے 1970ء میں اور اُن کے بعد علامہ طاہر القادری نے 1980ء کی دہائی میں ادا کیا اور تینوں اپنے خواب کو پورا ہوتے نہ دیکھ سکے۔ تقریباً چار عشرے گزر جانے کا مرحلہ قریب آپہنچا تو خلافِ توقع تحریک انصاف نے ان دو الفاظ کو اپنے انتخابی منشور کا عنوان بنا دیا۔ تحریک انصاف کی قیادت اگر پنجاب پر عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا پر محمود خان کی وزارتِ اعلیٰ کی شکل میں عوام کو سزا (اور وہ بھی بامشقت) دینے کو اس کڑے وقت میں یاد رکھتی تو دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنا بڑا زلزلہ انگیز اور طوفانی نعرہ بلند کرنے کی بے جواز کوشش پر قابو پاتی اور اس سے ایک درجہ (بلکہ کئی درجات) کم درجہ حرارت والا نعرہ (مثلاً عوام دوست اصلاحات کا نفاذ) بلند کرتی۔ آپ پی ٹی آئی کی وفاقی کابینہ سے ڈاکٹر شیریں مزاری اور شفقت محمود کو نکال کر‘ باقی ماندہ اراکین کی شکلیں ذہن میں لائیں۔ علی امین گنڈا پور سے لے کر شہزاد اکبر تک۔ ایک سے ایک بڑھ کر عقل وفہم کے زندہ و تابندہ ہونے کا شاہکار۔ کتاب لکھنا تو درکار‘ ان افراد نے شاید زندگی بھر میں بھی کوئی اچھی کتاب نہ پڑھی ہو۔ اگر ان سابق وزرا کے درمیان احمقانہ فیصلے کرنے کا مقابلہ کرایا جائے تو او ل انعام غلام سرور خان کو ملنا چاہیے جو وزیر ہوا بازی تھے اور جنہوں نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر بڑی دیدہ دلیری اور پرلے درجے کی حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ لرزہ خیز انکشاف کیا کہ قومی ایئر لائن کے جہاز اُڑانے والوں کی اکثریت غیر تربیت یافتہ ہے جو جعلی لائسنس حاصل کر کے بوئنگ طیارے اُڑاتی پھرتی ہے۔ نتیجہ... ؟ یورپی ممالک (سب سے پہلے برطانیہ) نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی عائد کر دی۔ قریب تین سال گزر چکے ہیں مگر یہ پابندی بدستور نافذ ہے۔ پی آئی اے کی حالت پہلے ہی بڑی مخدوش تھی‘ پی ٹی آئی کے وزیر ہوا بازی نے اس کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دیا۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے پہلے ہی اُن کے وزیر باتدبیر کا انکشاف غلط اور گمراہ کن ثابت ہو چکا تھا مگر گزر جانے والے سانپ کی زمین پر نظر آنے والی لکیر کو پیٹنے سے کیا حاصل؟ یہ تو صرف ایک مثال ہے جو اس وقت ذہن میں آئی‘ دیگ میں سے نکالی ہوئی چاولوں کی ایک مٹھی، کالم کی محدود جگہ ہر وزیر کی کارکردگی کو خورد بین کی نیچے رکھ کر اس کا سچائی‘ غیر جانبداری اور دیانتدار ی سے جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتی۔اگرچہ مذکورہ تینوں الفاظ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی لغت میں شامل نہیں ہیں۔
پی ٹی آئی نے اپنی سیاسی زندگی کے کم از کم پہلے دس‘ بارہ سال ظفر علی روڈ (لاہور) پر ایڈ مرل (ر) جاوید اقبال کے گھر کو (کوئی کرایہ دیے بغیر) اپنا دفتر بنا کر گزارے۔ جونہی اکتوبر 2011ء میں مینارِ پاکستان پہ تحریک انصاف کا تاریخی اور بے حد کامیاب جلسہ عام ہوا‘ ایڈمرل صاحب کو پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے (جس پر وہ دس سال سے زائد عرصہ فائز رہے) اچانک برطرف کر دیا گیا۔ بھلے وقتوں میں جب ایڈمرل صاحب کو پتا چلا کہ جن دنوں (انیس سو ساٹھ کی دہائی کے وسط میں) کالم نگار ایچی سن کالج لاہور میں پڑھاتا تھا اور عمران خان وہاں زیرِ تعلیم تھے‘ تو اُنہوں نے (میری شدید مزاحمت کے باوجود) مجھے آخری صف سے اُٹھا کر صفِ اوّل میں بٹھانا شروع کر دیا۔ میں نے پاکستان کے ہر دورے میں وقت نکال کر ظفر علی روڈ پر ایڈمرل صاحب کے گھر جانا اور اس نوزائیدہ پارٹی کے قائد سے سنجیدہ اور فکر انگیر تبادلۂ خیال شروع کر دیا۔ میں پارٹی کے مٹھی بھر اراکین (اُن دنوں پارٹی کے کل اراکین ایک نہیں تو دو تانگوں میں آرام سے سما سکتے تھے) کے سامنے چہروں کے بجائے نظام بدلنے اور انقلابی اصلاحات کے نفاذ کے موضوع پر لمبے لمبے لیکچر دیتا تھا (امین ذکی صاحب اس کی گواہی دیں گے)۔ پارٹی کے بانی چیئرمین اُن باتوں کو خاموشی اور توجہ سے سنتے تھے اور تائید میں سر ہلاتے تھے۔ اتنے سال گزر گئے‘ کالم نگار مزید بوڑھا ہو گیا۔ اب اچھے حافظہ پر غرور خاک مل چکا ہے مگربہت اچھی طرح یاد ہے (جیسے کل کی بات ہو) کہ میں نے سب سے زیادہ مقامی حکومتوں کے کلیدی کردار‘ جمہوری نظام میں عوامی شرکت‘ اس کی جمہوری نظام میں گھاس کی جڑوں والی اہمیت اور ارتکازِ اقتدار کا خاتمے پر زور دیا اور بار بار دیا۔امریکہ اور یورپ کی مثال دے کر بتایا اور سمجھایا کہ ہر جمہوری نظام کی بنیاد مقامی حکومتوں (جو خود مختار ہوں) پر رکھی جاتی ہے۔
میں نے بھی یہ مشورہ دیا کہ سرکاری تبادلے (جو کسی ترقی یافتہ یورپی ملک میں نہیں ہوتے) دورِ غلامی کی یادگار ہیں‘ ان پر سالانہ اربوں روپے برباد ہوتے ہیں‘ ان کو فی الفور ختم کیا جائے۔ لاکھوں ایکڑ زرخیز مگر غیر آباد زمین کو بے زمین کاشتکاروں میں مفت تقسیم کر دیا جائے۔ کراچی سٹیل مل کے کارکنوں کو اس کا مالک بنا دیا جائے۔ دُکانداروں‘ تاجروں‘ جاگیرداروں‘ بڑے زمینداروں‘ سٹاک ایکسچینج اور ریئل اسٹیٹ کے میدان میں کروڑوں‘ اربوں روپے کمانے والوں پرٹیکس لگایا جائے۔ پولیس کو مقامی حکومتوں کے ماتحت کیا جائے۔ اُردو کو (آئین کے مطابق) سرکاری زبان بنایا جائے۔ احتساب کو حد درجہ غیر جانبدار اور شفاف بنایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ جاوید اقبال کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے مجھے چیئرمین تحریک انصاف کو بہت سے اچھے‘ قابلِ عمل اور مثبت مشورے دینے کے متعدد مواقع فراہم کیے۔ پی ٹی آئی کو اقتدار ملا تو نہ ایڈمرل صاحب کا دُور دُور تک کوئی نام و نشان تھا اور نہ چھ ہزارمیل کا سفر کر کے لندن سے اپنے خرچ پر لاہور جانے والے والے بوڑھے شخص اور اس کے مشوروں کا۔ بہت سے مخلص کارکنوں کی طرح پارٹی کے لیے ہم دونوں بھی قصۂ پارینہ بن چکے تھے۔ چلئے یہ پرانی باتیں ہیں‘ ان کو یاد کرنا اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا پرانے زخموں کو کھرچنا۔ رات گئی بات گئی‘ (اگرچہ رات چارسال طویل تھی)۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار گیا تو پارٹی کی ''صف اوّل‘‘ جان بچا کر بھاگ گئی مگر صاف نظر آتا ہے کہ اس وقت پنجاب اور پختونخوا میں اس کی خاطر خواہ حمایت موجود ہے۔ ضیاء الحق بھٹو صاحب کو پھانسی دے کر پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کر سکے اور نہ ہی پرویز مشرف میاں نواز شریف کے سیاسی کیریئر اور اُن کی مسلم لیگ(ن) کا کچھ بگاڑ سکے۔ اس منطق کی رُو سے ایک بات پکی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو‘ جن کی عوام میں حمایت موجود ہو‘ زور و جبر سے صفحۂ ہستی سے نہیں مٹایا جا سکتا۔ انسانی تاریخ میں ریورس گیئر نہیں لگتا۔ جن لاکھوں افراد کے شعور کی سطح سیاسی ارتقا اور جیسی تیسی سیاسی جماعتوں نے بلند کی ہے‘ وہ اب کسی صورت نیچے کی طرف نہیں دھکیلے جا سکتے۔ البتہ یہ طے ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو آج بھی مقامی حکومتوں کی برکتوں کا علم نہیں تو یہ المیہ ہے۔ اُس نے اپنے زوال سے نہ عبرت پکڑی ہے نہ کوئی سبق سیکھا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کم از کم یہ تو کر سکتی ہے کہ ایم کیو ایم کی طرف سے خود مختار ضلعی حکومتوں کے قیام (بذریعہ آئینی ترمیم) کے مطالبے کی تائید کرے۔
گھپ اندھیرے سے روشنی کا سفر طے کرنا اب کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں رہی۔ واحد حل ایک قومی حکومت (وسیع ترین سیاسی اتحاد) کا قیام ہے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی عیاشی کا ہمارا موجودہ نیم مردہ نظام مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ ٹریفالگر کی بحری جنگ میں جب امیر البحر لارڈ نیلسن (Lord Nelson) کے جہاز کو آگ لگ گئی تو اُس نے جہاز کے سارے عملے (باورچی خانہ میں کھانا پکانے والوں کوبھی) کو پکارتے ہوئے کہا: All hands on the deck ۔(ہر کوئی جہاز کے عرشے پر آئے) تاکہ سب مل کر آگ بجھا سکیں۔ آج یہ کالم نگار بھی اہلِ وطن کو مخاطب کر کے یہی پانچ الفاظ دُہراتا ہے۔ خدا کرے وہ میری فریاد سن لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں