موسم سرما کا گلدستہ…(3)

شاخوں پر لگے ہوئے پھولوں کی تعداد پھول چننے والے کے اندازہ سے زیادہ تھی؛ چنانچہ نوبت تیسرے (مگر آخری) گلدستہ تک پہنچی۔ تمہید کی کوئی گنجائش نہیں سیدھے خبروں کی طرف چلتے ہیں:
(1): یورپ اور امریکہ نے صنعت و حرفت اور علم و فن کے ساتھ ساتھ ایجادات میں کمال حاصل کیا ہے۔ انسانی فلاح و بہبود اور آزادانہ اظہارِ خیال کے بڑے مستحکم ادارے بنائے ہیں مگر ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ مافیا(جرائم پیشہ افراد کی تنظیم) بھی یورپ کی پیداوار ہے۔ ہٹلر نے لاکھوں یہودی افراد (عورتیں اور بچے بھی) کو گیس کی بھٹیوں میں جلا کر راکھ میں تبدیل کر دیا۔ یورپ میں چھوٹے چھوٹے بینک بھی اربوں ڈالروں کے کھاتوں کے مالک ہوتے ہیں مگر دوسری طرف فراڈ کرنے والے افراد بھی عالمی چیمپئن ہیں۔ ہر چند سالوں کے بعد کوئی معمولی فرد یا اس کی کمپنی اربوں ڈالروں کے فراڈ میں پکڑی جاتی ہے۔ ملزم کو کڑی سزا ملتی ہے۔ خبر اخباروں کے صفحہ اوّل کی زینت بنتی ہے۔ ٹیلی ویژن پر ناظرین کی تفریح کا پروگرام کرنے والوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ خبر باسی ہو کر لوگوں کے ذہن سے محو ہوجاتی ہے۔وہ خبر ناموں کا مزید حصہ نہیں بنتی بلکہ نہ نظر آنے والا دھبہ بن جاتی ہے۔ ماہ نومبر میں جس سکینڈل کو امریکہ اور یورپ میں صفحہ اوّل پر جگہ ملنے کا اعزاز ملا وہ تھا کرپٹو کرنسی (Crypto Currency )کے وسیع کاروبارکی آڑ میں دس ارب ڈالر کا فراڈ۔ ملزم ایک نوجوان امریکی تھا نام ہے Smy Bankman Fries ۔ امریکی عدالت میں کئی دن مقدمہ کی سماعت نہ ہوئی۔ ماہرین نے ملزم کی فریب کاریوں کا پول کھول دیا۔ ملزم کی ذہانت یقینا داد طلب ہے کہ اُس نے کئی ہزار افراد کی آنکھوں میں خاک ڈال کر اُن کی عمر بھر کی کمائیوں کو ایک ایسے منصوبہ میں سرمایہ کاری میں جھونک دینے پر آمادہ کر لیا جو سراسر دھوکہ اور فراڈ تھا۔ ملزم کی کوئی عیاری اور چالاکی اُس کے کام نہ آئی اور جیوری نے متفقہ فیصلہ اُس کے خلاف کیا اور اسی مجرم ٹھہرایا۔ اس مجرم کو سالِ نو میں قید کی سزا سنائی جائے گی جو امریکی قانون کے تحت سو برس بھی ہو سکتی ہے۔ (2): امریکہ کی چوٹی کی ایک یونیورسٹیJohns Hopkins کے مورخوں نے بڑی چھان بین کر کے یہ رپورٹ شائع کی کہ ستارہویں اور اُنیسویں صدی کے درمیان یورپی اقدام نے افریقہ سے لاکھوں معصوم افراد کو غلام بنا کر امریکہ درآمد کر لیا۔ (45 پائونڈ فی کس کے حساب سے) اس مذموم تجارت میں ملوث افراد اور کاروباری اداروں کی فہرست مرتب کی گئی تو اُس میں برطانیہ کے ایک چوٹی کے بینک (Lloyds) کا نام بھی سامنے آیا۔ اس بینک کے ارباب ِبست و کشاد نے بحث کرنے کی بجائے اپنا سنگین جرم مان لیا اور سابقہ غلاموں کی اگلی نسلوں کی فلاح و بہبود اور نسلی مساوات کے نظام کو مضبوط تر بنانے کیلئے 52 ملین (یعنی پانچ کروڑ بیس لاکھ) پائونڈ کا عطیہ بطور ہرجانہ ادا کردیا۔ (3): آپ نے ہندوستانی آرٹ میں مغل سکول اور کانگڑہ سکول کے نام ضرور سنے ہوں گے مگر اب ایک نیا سکول منظر عام پر آیا ہے جس کا نام ہے کمپنی سکول‘ جو ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قریباً ایک سو سال طویل دورِ حکومت کے درمیان معرضِ وجود میں آیا۔ 13 نومبر کو روزنامہ Times نے اس دور کے ایک بڑے مصور Sita Ram کی بنائی ہوئی چاندنی میں تاج محل گاہ تصویر( Painting) کو مشہور نیلامی ادارہ Sotheby's نے نیلام کیا تو وہ متوقع قیمت سے دس گنا زیادہ رقم (4,82,600 پائونڈ) میں فروخت ہوئی۔ پتہ چلا ہے کہ برٹش میوزیم کے پاس مذکورہ نامور مصور کی 183 تصویروںکا بیش قیمت ذخیرہ ہے جو آنے والے دنوں میں نیلامی کے ذریعہ فروخت کیا جائے گا۔ (4): انسا نی ذہن میں جبلت فکریعنی نئی باتیں سوچنے کی کوئی حد نہیں۔ اس کی ایک مثال بھارت میں ایک ذہین خاتون کے اپنے ایک نئے کاروبار کی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے جو خبر بن کر برطانوی اخبار The Timesمیں شائع ہوئی۔ دنیا بھر میں اس کی دھوم مچ گئی۔ مذکورہ خاتون نے یورپ سے بھارت میں آنے والے سیاحوں کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ (120-150 پائونڈ) دیں تو وہ اُنہیں بھارت یاترا کے دوران ایک روایتی شادی کی رسومات میں حصہ لینے کا دعوت نامہ بھجوا سکتی ہے۔ یہ کاروباری منصوبہ بڑا منافع بخش ثابت ہوا۔ پاکستان میں یارانِ نکتہ داں کی کوئی کمی نہیں۔ کیا مذکورہ غیر معمولی تفریحی فارمولا اُنہیں صدائے عام نہیں دیتا؟ (5): برطانوی فضائیہ کے ایک عمر رسیدہ پائلٹ کا نام ہے‘Jack Hemmings اور اُس نے اپنی سالگرہ نمبر102 بنانے کا یہ طریقہ سوچا کہ اُس نے Lock Heed Hudson نامی جو طیارہ اُڑا کر دُوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا‘ وہ اُسے پھر اُڑائے گا مگر اس بار Pilot Co-کی حیثیت میں۔ جب اس بہادر شخص کا سواں جنم دن منایا گیا تو رائل ایئر فورس کے مشہور سکواڈرن (Red Arrows ) نے اس کے اعزاز میں خصوصی پرواز کی اور طیاروں نے جھک کر سلام کیا۔ (6): آپ جانتے ہیں کہ Global Warmingکی وجہ سے سمندروں میں سطحٔ آب آہستہ آہستہ بلند ہوتی جا رہی ہے۔ آسٹریلوی شہر سڈنی اور بحر اوقیانوس میں ہوائی نامہ جزیرہ (جہاں امریکی بحریہ کا ایک بیڑا ہمیشہ لنگر انداز رہتا ہے) کے درمیاں نو چھوٹے چھوٹے جزیروں کی آبادی کا نام Tuvalu ہے۔ کل آبادی 11,200 ہے۔ ماضی قریب میں ماہرین نے پیش گوئی کی کہ یہ جزائر اگلے 60 برس میں سمندر میں ڈوب جائیں گے۔ یہ خبر سن کر اُن جزائر میں رہنے والوں کی جان میں جان آئی ہوگی کہ پڑوسی ملک آسٹریلیا نے (280 افراد سالانہ کے حساب سے ) ساری آبادی کو اپنے ملک میں پناہ لینے اور آباد ہو جانے کی اجازت دے دی ہے۔ (7): یقینا میرے قارئین کی بھاری اکثریت جو پاکستان کے حالات کی ابتری کی وجہ سے پریشان ہے یہ جان کر اُسے تعجب ہوگا کہ جنوبی (لاطینی) امریکہ کے ایک ملک Ecuadorمیں ان دنوں انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے اور امنِ عامہ کی صورتحال وہاں بھی ابتر ہے۔ ماہ نومبر کے شروع میں ایک صدارتی امیدوار کو سر پر تین گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ پولیس کو سب سے زیادہ شبہ اُس ملک میں مجرموں اور بدمعاشوں کے ایک گروپ (جو ہیروئن اور کوکین کی تیاری اور امریکہ سمگلنگ کے فن کا ماہر ہے) کے سربراہ Fito Villamar Joseکے اس جرم میں ملوث ہونے کا ہے ۔ یہ شخص جیل میں (جہاں سے وہ دس برس قبل بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا)34 برس کی قید بھگت رہا ہے۔ حکومت نے سوچا کہ عام جیل سے اس کے فرار کے روشن امکانات ہیں اسے اس ملک کی سب سے محفوظ(High Security) جیل میں منتقل کر دینا چاہئے۔ فیصلہ تو ہو گیا مگر اس کو عملی شکل دینا کتنا مشکل کام تھا اس کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگالیں کہ جب مجرموں کے ایک سرغنہ کو ایک جیل سے دوسری جیل تک پہنچایا گیا تو اس کارروائی کو سو فیصدی محفوظ اور بلا خوف و خطر بنانے کیلئے 3600 مسلح سپاہیوں کی ضرورت پڑی اور سارے شہر میں آدھے دن کیلئے ٹریفک معطل رہی۔ (8): سو سال قبل اقبال نے یورپ میں کئی سال گزارنے کے بعد لکھا:
افرنگ کا ہر گوشہ ہے فردوس کی مانند
مگر اُنہوں نے اٹلی کے آمرِ مطلق (مسولینی) کو مل کراطالوی مظالم کا بھی ذکر کیا۔ اپنے ملک کو جنت بنا لینے والے فرنگی غیر ممالک (خصوصاً تیسری دنیا کو)جہنم زار بنانے کی قابلِ صد مذمت روش پر صدیوں سے عمل پیرا ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں