اندھے اور اندھیرا

آج کے کالم کے عنوان کے مندرجہ بالا تین الفاظ لکھے تھے کہ کم از کم 70 سال پہلے پڑھے ہوئے‘ بھولے بسرے شعر کا دوسر ا مصرع دماغ میں بجلی کی طرح کوندا:اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
پہلے مصرع کے حوالے سے میرے زنگ شدہ حافظے پر ''شبِ دیجور‘‘ کے دو الفاظ ابھرتے ہیں اور پھر مٹ جاتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے بڑھاپے کا نقصان۔ فائدے بھی مگر بہت ہیں۔ (1):برطانوی حکومت نے مجھے گریٹر لندن میں بس اور ٹرین پر مفت سفر کا پاس دے رکھا ہے جو ہر ماہ میرے سینکڑوں پاؤنڈ بچانے اور انہیں اچھی کتابیں خریدنے پر خرچ کرنے کے کام آتا ہے۔ (2):برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی بدولت ڈاکٹر ہر مریض کو مفت دیکھتے ہیں اور ہسپتالوں میں (مہنگے سے مہنگا) علاج مفت ہوتا ہے مگر 65برس سے زائد عمر کا مریض ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیاں بھی مفت حاصل کرتا ہے۔ (3):پنشن علیحدہ ہے۔ بدقسمتی سے یہ سارے شمال اور مغربی یورپ کے ممالک کے مقابلے میں برطانیہ میں سب سے کم ہے۔ اوسطاً تین سو پاؤنڈ ماہانہ اور اگر یہ گزارے کیلئے کافی نہ ہو تو حکومت اس کو دو‘ اور اگر یہ بھی ناکافی ہو تو تین سے ضرب دے دیتی ہے۔ بات چلی تھے اندھے اور اندھیرے سے اور کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔
پچھلے کالم میں سیاست دانوں کو میں نے اُن گنجوں سے تشبیہ دی تھی جو اس کنگھی پر لڑتے ہیں جو ان کے کسی کام کی نہیں۔شائع ہونے کے بعد جب میں نے کالم پڑھا تو بہت شرمندہ ہوا کہ یورپی ممالک میں کسی بھی شخص کے جسمانی عیب کا مذاق اڑانا تو ایک طرف‘ اس کا ذکر کرنا بھی بڑا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اگر برطانیہ میں زندگی کے 55برس گزارنے کے بعد بھی مجھے اس اخلاقی قدر کا احترام اور لحاظ نہیں آیا تو پھر کب آئے گا؟ میں صدقِ دل سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ آج کے کالم میں جن اندھوں کا ذکر ہو گا وہ صرف محاورتاً ہیں۔ آنکھیں رکھتے ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے۔ ان کے اردگرد روشنی ہے‘ سورج کی چمکدار روشنی مگر انہوں نے اپنی آنکھوں پر جہالت‘ کم عقلی‘ ہٹ دھرمی اور حقائق کی نفی کرنے والی موٹی پٹی باندھ رکھی ہے کہ وہ بصارت اور بصیرت‘ دونوں سے محروم ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی اس محرومی کے خود ذمہ دار ہیں۔ انہیں بقول اقبالؔ عقاب کا وہ بچہ نظر نہیں آیا جسے صحبتِ زاغ (کوے سے دوستی) خراب کر گئی۔ انہیں بقول اقبالؔ اپنے صنم کدوں کے بتوں کا پرانا ہو جانا اور اب ناقابلِ پرستش بن جانا بھی گراں نہیں گزرتا۔ وہ نیا شوالہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی اسے بروئے کار نہیں لاتے۔ انہیں یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ جب عشق کی آگ بجھ جائے تو خردِ فرد راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہے۔ پھر وہ اتنی فضول مناجات کرتا ہے کہ اقبالؔ نے یہ دعا مانگی کہ خدا کرے کہ اس کی آرزو بدل جائے۔ لگتا ہے کہ سو سال قبل اقبال کی چشمِ تصور نے ہمارے حکمران طبقے کو دیکھ لیا تھا اور ان کی شاعری میں یہی طبقہ ان کا مخاطَب تھا۔
میں نے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا‘ دوبارہ لکھتا ہوں کہ مقامِ گریہ و زاری ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو نہ دریاؤں میں بہتا پانی نظر آیا کہ وہ سستی پن بجلی بناتے اور توانائی کا بحران ختم کرتے اور نہ انہیں ہمارے آسمان پر قریباً سارا سال چمکتا ہوا سورج نظر آیا کہ وہ (پن بجلی سے بھی زیادہ سستی) شمسی توانائی پر ساری توجہ لگاتے۔ وہ نہ خود سے گوادر کی بندرگاہ کو عالمی معیار کی بنا سکتے ہیں اور نہ ایران سے بے حد سستی گیس اور سستا تیل لے سکتے ہیں‘ ایران کی جانب سے پائپ لائن کا زیادہ حصہ بنا لینے کے باوجود۔ ہمارا الیکشن کمیشن ایسے انتخابات کرانے پر 50ارب روپے خرچ بلکہ ضائع کر دیتا ہے جو نہ Fairہوتے ہیں اور نہ Free۔ ہمیں عنایتِ خسروانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر دودھ کا گلاس پیش بھی کیا جائے تو (پنجابی محاورے کے مطابق) اُس میں ایسی ناپاک چیز کی آمیزش کر دیتی ہے کہ ہمارا دودھ پینے کا شوق دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔
بدقسمتی وہ لفظ ہے کہ میں ایک فارسی شعر کے مطابق ''کاش‘‘ کے حرف کی طرح سینکڑوں جگہ لکھتا جاؤں پھر بھی ایک اور خالی جگہ نظر آتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ خصوصاً ہمارے سیاستدان (جماعت اسلامی‘ ایم کیو ایم اور چھوٹے صوبوں کی قوم پرست جماعتوں پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور ڈاکٹر عبدالمالک کی بلوچ نیشنل پارٹی کے سوا) بڑی تین سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور ہمیشہ ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے جمہوریت کا نعرہ باآواز بلند کرتے ہیں‘ ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور خود سلطانیٔ جمہور کی ہر طرح سے تذلیل کرتے ہیں۔ میں اپنے مؤقف کو مثالیں دے کر واضح کروں گا۔ جب دو سیاسی جماعتوں نے آپس میں بڑے عہدوں کی بندر بانٹ کی تو انہیں ایک لمحہ کیلئے یہ خیال بھولے سے بھی نہیں آیا کہ یورپ کے کسی جمہوری ملک میں گورنر کے عہدے کا نام و نشان نہیں ہوتا (برطانیہ کے بڑے دفاتر میں چپڑاسی اور ملاقاتیوں کے ہیٹ اور چھتری کو سنبھالنے پر مامور شخص کو گورنر کہتے ہیں) ہمارے ہاں چار صوبے ہیں تو اس حساب سے چار گورنر ہیں اور ہر گورنر ہمیں سالانہ کروڑوں روپوں میں پڑتا ہے۔ کام کیا کرتا ہے؟ صفر! اسے انگریزی میں کہتے ہیں Pure and Just Nuisance۔ انہیں یہ نظر نہیں آیا کہ گورنر کا عہدہ جمہوریت کی نفی اور توہین کرتا ہے۔ امریکہ میں ہر ریاست کا گورنر ہوتا ہے مگر وہ عوام کے ووٹوں سے براہ راست چنا جاتا ہے اور وہی اپنی ریاست کے عوام کی آواز ہوتا ہے۔ کتنا اچھا ہوتا (پھر کاش لکھنے کی ضرورت پیش آئی) کہ سیاسی جماعتیں عہد کرتیں کہ وہ اپنے پہلے اجلاس میں آئینی ترمیم کرکے گورنر کا عہدہ (ایک بڑا اور بہت مہنگا سفید ہاتھی) ختم کریں گی۔
اب آگے چلئے ۔ یہاں عقل کے اندھوں کو یہ بھی نہیں پتا کہ ہر جمہوری نظام میں پارلیمان کا سپیکر اس عہدہ پر فائز ہونے کے بعد اپنی پرانی سیاسی جماعت سے رشتہ توڑ لیتا ہے تاکہ وہ اپنے فرائض مکمل غیرجانبداری سے ادا کر سکے۔ سپیکر کا انتخاب پارلیمان اور اسمبلی کے اراکین کا بنیادی حق ہے۔ ممکن ہے کہ وہ دیکھیں کہ اس عہدے کیلئے موزوں ترین شخص وہ ہے جس کی پارٹی کی صرف ایک دو نشستیں ہیں۔ سیاسی پارٹی کا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نامزد کرنا اس اعتراف کے مترادف ہے کہ سپیکر ہمیشہ اپنی پارٹی کے قائد کے احکام کی تعمیل کرے گا‘ یعنی وہ مکمل طور پر جانبدار ہو گا۔ اپنے دھڑے کا وفادار ہو گا اور وہی کردار ادا کرے گا جو اس کی پارٹی کے لیے مفید ہو گا۔ برسوں قبل مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے سپیکر نے حزبِ مخالف کو اتنا زِچ اور ناراض کر دیا تھا کہ انہیں اسمبلی کے اندر‘ کرسی ٔ صدارت پر متمکن تھے‘ تشدد کر کے مار دیا گیا تھا۔ بات یہاں بھی ختم ہو جاتی تو وطنِ عزیز سے چھ ہزار میل دور غم و غصے کے شکار بوڑھا کالم نگار (بشرطیکہ اس کی پنشن اس کی اجازت دیتی) اپنے ساتھ (کرائے پر) نوحہ گر رکھ لیتا۔ اسمبلی صوبائی ہو یا وفاقی‘ ہر بڑی سیاسی پارٹی کے قائد نے اپنی پارٹی کے اراکین کو اس قابل بھی نہ سمجھا کہ وہ اپنا قائدِ ایوان ہی خود چن لیتے۔ کیا کسی (اصلی) جمہوری ملک میں یہ بھونڈا مذاق کیا جاتا ہے؟ ہر گز نہیں! ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم جن سیاسی جماعتوں کے دورِ حکومت کو ''جمہوری‘‘ کہتے ہیں‘ ان میں اور آمریت میں کتنا فرق ہوتا ہے؟ ٹالسٹائی کا یہ قول میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اگر قیدیوں کو اپنا جیلر منتخب کرنے کا حق دے دیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آزاد ہو گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں