آئیے ایک نیا معاہدۂ عمرانی لکھیں

دنیا کے لگ بھگ ہر ملک میں عوام (Ruled) اور اُن پر حکومت کرنے والوں (Ruler) کے درمیان لکھے ہوئے (ماسوائے برطانیہ کہ جس کا آئین غیر تحریری ہے) معاہدۂ عمرانی (جو مذکورہ فریقین کے حقو ق و فرائض طے کرتا ہے) کی قانونی شکل آئین کہلاتی ہے۔ یہ ہے علمِ سیاسیات کا پہلا سبق۔ سیاسی اور سماجی شعور رکھنے والا ہر شخص‘ جو علمِ سیاسیات کی ابجد سے واقف ہے‘ وہ آج کے کالم کے ابتدائی جملے سے اتنی اچھی طرح متعارف ہے کہ اگر اس معاہدۂ عمرانی کی کسی ایک بھی شق کے خلاف ورزی کی جائے یا اس سے تجاوز کیا جائے یا نہ صرف آئین کے الفاظ بلکہ اس کی روح کا اتنا احترام نہ کیا جائے جس کی وہ مستحق ہے تو توازن درہم برہم ہو جاتا ہے جس کی بدولت ریاست‘ (بقول فیضؔ) گلشن کا کاروبار چلتا ہے۔ اس ضروری تمہید کے بعد ہم آگے بڑھیں تو دیکھتے ہیں کہ پاکستان کس معاہدۂ عمرانی کے تحت معرضِ وجود میں آیا‘ وہ معاہدہ تھا قائداعظم کے بیان کردہ راہ نما اُصول اور تحریک پاکستان کی عوامی پذیرائی‘ جس نے اُن اصولوں کی پاسداری کا وعدہ کرنے والوں پر اعتبار اور اعتماد کے اظہار سے تصدیق کر دی۔ 1947ء سے لے کر 1956ء تک ہمارا ملک قانوناً 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی رُو سے مگر دراصل تحریک پاکستان سے اُبھرنے والے معاہدۂ عمرانی کے تحت چلایا گیا۔ بدقسمتی سے ان نو برسوں میں ہم نے انگریز کے چھوڑے ہوئے نو آبادیاتی‘ فرسودہ اور عوام دشمن نظام میں رَتی برابر ترمیم یا اصلاح نہ کی‘ صرف اخباروں کی آزادی نہیں بلکہ تمام شہری حقوق پامال کیے۔ صوبائی انتخابات میں وہ اَن دیکھی اور اَن سُنی دھاندلی کی گئی (پنجاب میں 1951ء میں) یا انتخابات میں مسلم لیگ کی عبرتناک شکست کے بعد مشرقی پاکستان کی اسمبلی توڑ کر گورنر راج نافذ کرایا‘ (جس طرح مشرقی پاکستان کے پہلے الیکشن میں ہوا) جس طرح کی دھاندلی یا غیرجمہوری حرکت انگریز نے اپنے دو سو سال لمبے راج کی آخری نصف صدی میں ایک بار بھی نہ کی تھی۔ بصد مشکل ہم نے اپنا پہلا آئین (جو اُتنا ہی غیرجمہوری اور عوام دُشمن تھا جتنا کہ اس کا پیش رُو) 1956ء میں بنایا۔ 1958ء میں پہلے قومی انتخابات متوقع تھے کہ Eleventh Hour پر نام نہاد‘ سطحی اور نمائشی جمہوریت کی صف لپیٹ دی گئی۔ یہ معاہدۂ عمرانی کی دوسری بڑی خلاف ورزی تھی۔ ایوب خان (پہلے آمرِ مطلق) نے اپنی مرضی کا آئین اس طرح بنوایا جس طرح آپ درزی کو ماپ دے کر اپنے کپڑے سلواتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس شخص نے دوسرا آئین مرتب کرایا‘ اسی کے ہاتھوں اس آئین کو ردی کی ٹوکری (جو اس کا مناسب اور موزوں مقام تھا) میں پھینکا گیا۔ پہلا آمر ایک اور آمر کو اپنی جگہ پر بٹھا کر رخصت ہوا۔
دوسرے آمر (جنرل یحییٰ خان) نے ایک کمال کا کارنامہ سرانجام دیا اور وہ تھا پہلے قومی انتخابات کا انعقاد اور انتخابات بھی وہ جو Free اور Fair ہونے کے سخت ترین معیار پر پورا اُترتے تھے۔ المیہ یہ ہوا کہ اس آمر نے (جناب بھٹو صاحب کی حمایت اور اعانت سے) قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔ عوام کے ووٹوں سے چنے گئے عوامی نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے اور مشرقی پاکستان کے عوام کا سو فیصد جائز مطالبہ (چھ نکات پر مشتمل صوبائی خود مختاری) تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان کو خانہ جنگی اور قتلِ عام اور آخرکار بھارتی فوجی جارحیت کی طرف دھکیل دیا گیا۔ معاہدۂ عمرانی کے پرخچے اُڑ گئے۔ وہ خاک و خون کے دریا میں بہہ کر خلیج بنگال میں جا گرا۔ یہ معاہدۂ عمرانی کی تیسری اور سنگین ترین خلاف ورزی تھی۔
اب دور شروع ہوا جناب بھٹو کا۔ اُنہوں نے نہ صرف بلوچستان میں جمہوری نمائندوں پر مشتمل اسمبلی کو غیرآئینی طور پر توڑا اور خیبرپختونخوا میں جمہوری حکومت کو احتجاجاً مستعفی ہونے پر مجبور کیا بلکہ دلائی کیمپ اور شاہی قلعہ‘ دونوں کو اپنے سیاسی مخالفین سے آباد کیا۔ خواجہ رفیق اور ڈاکٹر نذیر احمد جیسے مخالفین قتل ہوئے۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جناب عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے اجلاس پر گولی چلی۔ نقطۂ معراج یہ تھا کہ انتخابات میں اتنی بدترین دھاندلی کا مظاہرہ کیا کہ سارے ملک میں زبردست ہنگامے پھوٹ پڑے۔ اتنے بڑے ہنگامے کہ تیسرے آمر (ضیاء الحق) کو مارشل لاء لگانے کا بہانہ مل گیا۔ یہ معاہدۂ عمرانی کی چوتھی خلاف ورزی تھی۔
قطعاً ضروری نہیں کہ میاں نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے لے کر دو آمروں (ضیاء الحق اور پرویز مشرف) کے عہدِ اقتدار اور پھر عمران خان کے پونے چار برس اور پھر شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے ڈیڑھ برس پر (اگر آپ یہ سب جمع کریں تو 1979ء سے 2024ء تک قریباً 45برس بنتے ہیں) ان میں ہر وزیراعظم اور ہرآمر کے دورِ اقتدار میں بے چارہ ستم زدہ‘ مظلوم آفت زدہ معاہدۂ عمرانی آزادی کے 76برس میں کم از کم بارہ دفعہ پامال ہوا۔ روندنے والے البتہ بدلتے رہے۔ اب آپ بتائیں کہ جب 76برسوں میں معاہدۂ عمرانی کا اتنا دردناک انجام ہوا ہو تو کیا اُس کا حلیہ بگڑ نہ گیا ہو گا؟ اب تو وہ پہچانا بھی نہیں جاتا۔ کچھ عجب نہیں کہ آپ اس کے نام سے بھی واقف نہ ہوں۔ کام تو ایک طرف رہا‘ آپ پوچھیں گے کہ آخر وہ کس کام آتا ہے؟ جواب ہے کہ وہی کہ ایک ملک اور قوم کو زندہ اور تابندہ رکھتا ہے۔ وہی ہر قوم کی روح ہے۔ وہی ہر آئینی ڈھانچے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ وہ سرچشمہ ہے قوتِ اُخوتِ عوام کا۔ وہی نہتے فلسطینیوں کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور یوکرین کو اپنے سے سو نہیں‘ ہزاروں گنا بڑی طاقت کے خلاف اور افغان طالبان کو پہلے روس اور پھر امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کے خلاف لڑنے (اور اُنہیں شکست دینے) کی صلاحیت‘ قوت اور ہمت دیتا ہے۔ وہی (بقول اقبالؔ) ممولے کو شہباز سے لڑاتا ہے اور فتح بھی دلاتا ہے۔ اب ہم اپنے زخمی ہاتھوں اور انگلیوں کی طرف دیکھیں تو ہمیں معاہدۂ عمرانی کے چند خون آلود چیتھڑے نظر آئیں گے۔ آئیے! ہم اس تلخ حقیقت کو مان لیں کہ ماہِ فروری میں جو الیکشن ہوئے اور پھر جو فارم 47والی اسمبلیاں معرضِ وجود میں آئیں‘ ناکامی (اور وہ بھی بدترین) ان کا مقدر ہے۔ ان کی تعمیر میں خرابی کی ایک نہیں‘ بہت سی صورتیں مضمر ہیں۔ یہ کاٹھ کی ہنڈیا ہے‘ جلد یا بدیر چوراہے میں پھوٹے گی۔ وجہ؟ یہ قوتِ اُخوتِ عوام کی برکتوں سے مالامال نہیں۔
جناب محمود شام‘ جناب خورشید ندیم اور دیگر‘ جنہوں نے بہت عالمانہ چشم کشا اور فکر انگیزکالم لکھے اور ہماری اجتماعی دانش میں اضافہ کیا‘ میں نے ان کے بیانیے کو اپنے دل و دماغ کی آواز بنا کر اُن کی بات کو آگے بڑھایا۔ ہمیں ضرورت ہے‘ بقول اقبالؔ اک نئے شوالہ کی۔ ایک نئے معاہدۂ عمرانی کی۔ انصاف‘ مساوات اور قانون کی حکمرانی کی۔ عوام دوستی کی۔ ان ستونوں پر ایک نئی روشن اور پائیدار عمارت تعمیر کرنا ہو گی۔ میرے قارئین پوچھیں گے کہ کب ہمارے اُفق پر ایک نیا سویرا طلوع ہو گا‘ دوبارہ لکھتا ہوں: ہم جاگیں گے تو ہی سویرا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں