آیئے ایک نیا معاہدہ عمرانی لکھیں …(4)

مندرجہ بالا عنوان کے تحت (جو اس وقت نوشۂ دیوار ہے اور وقت کی سب سے اہم ضرورت) یہ آخری کالم ہے۔ میں خوش ہوں کہ بقول اقبال میں اب انجمن میں اکیلا نہیں ہوں‘ اب میرے رازداں اور بھی ہیں۔ ان میں سرفہرست امتیاز عالم صاحب ہیں جنہوں نے بالکل اسی عنوان کے تحت خامہ فرسائی کی اور اس کالم نگار کے بیانیے کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اس میں گراں قدر اضافہ کیا‘ اس کی نوک پلک درست کی اور اسے کہیں زیادہ قابلِ توجہ اور قابلِ صد ستائش بنایا۔ یہ ہوتا ہے فائدہ ساری عمر اپنے وطن میں آنکھیں‘ کان اور دل و دماغ کھول کر رہنے کا۔ اس کالم نگار کو وطنِ عزیز سے چھ ہزار میل (سات نہیں تو تین سمندر پار) رہتے ہوئے 57 سال ہونے کو ہیں۔ ظاہر ہے کہ میں لاکھ کوشش کروں مگر اُس سیاسی شعور کی بلند سطح کو ہرگز چھو نہیں سکتا جو پاکستان میں رہنے والوں‘ سیاسی جدوجہد میں عملی حصہ لینے والوں اور زمینی حقائق کو (قصۂ زمین برسرِ زمین کے مطابق) بہت قریب سے دیکھنے‘ سمجھنے اور سمجھانے والوں کو مل جاتا ہے۔
میں ٹوپی اُتار کر سلام کرتا ہوں فیض صاحب کو‘ حبیب جالب کو‘ احمد فراز کو‘ سبطِ حسن کو‘ عبدالصمد اچکزئی کو‘ عبدالغفار خان کو‘ حیدر بخش جتوئی کو‘ سردار اختر مینگل کو‘ سردار اکبر بگتی کو‘ مرتضیٰ بھٹو کو‘ لطیف پلیجو صاحب اور ان جیسے دوسرے دانشوروں‘ شاعروں‘ صحافیوں‘ سیاسی کارکنوں اور راہ نمائوں کو‘ جو چاہتے تو بڑی آسانی سے ملک چھوڑ کر مغرب کے کسی بھی ملک میں (بشمول روس‘ امریکہ اور کینیڈا) میں سیاسی پناہ لے سکتے تھے مگر وہ آخری دم تک کمال بہادری‘ اولوالعزمی اور بڑے سے بڑے خطرے کی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستان میں رہے۔ انسانی حقوق‘ عوام دوستی اور سماجی انصاف کا پرچم تھامے رکھا اور روشنی کا مینار بنے رہے۔
آج نئے معاہدۂ عمرانی کی آواز کیوں بلند کی جا رہی ہے؟ وجہ سیدھی سادی ہے۔ ہم 76 سال گزر جانے کے بعد مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ ہمارے روز افزوں مسائل کے زیادہ گمبھیر ہونے‘ بحرا نوں کی تعداد اور گہرائی میں اضافے نے آج ہمیں ایک ایسے فیصلہ کن موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں موجودہ آئین‘ موجودہ سیاسی بندوبست اور موجودہ معاشی نظام کا ناکارہ پن‘ کھوکھلا پن‘ بانجھ پن اور بنجر پن عیاں ہے۔ اس حوالے سے اب کوئی شک و شبہ بھی باقی نہیں رہا۔ اجازت دیجئے کہ میں ایک بار پھر وہی لکھوں جو پہلے بھی متعدد بار لکھ چکا ہوں کہ نظامِ کہن (Status Quo) حالتِ نزع میں ہے۔ ہر آنے والا دن اس سے زندگی کی رہی سہی رمق چھین رہا ہے۔ یہ ریت کے گھروندے کی طرح ہر روز‘ ہر لمحہ انہدام پذیر ہوتا جاتا ہے۔ اب بقول اقبال حکمران کی ساحری اور ہمارے حکمرانوں کے غیر ملکی آقائوں کی مالی اور سیاسی سرپرستی زیادہ دیر تک اسے نہیں بچا سکتی۔ انگریزی زبان میں بچوں کے لیے لکھی گئی ایک نظم کے مطابق جب Humpty Dumpty دیوار (یعنی اقتدار کی بلند و بالا مسند) سے ایک بار گر جائے تو آپ لاکھ جتن کریں اُسے دوبارہ دیوار پر نہیں بٹھا سکتے۔ وہ پھر گر پڑے گا۔ کبھی دائیں اور کبھی بائیں۔ ایک گرداب سے ابھی نکلا نہ ہو گا کہ دوسرے میں گرفتار ہو جائے گا۔
ضروری نہیں کہ آپ Hegel اور کارل مارکس کی تصانیف پڑھیں اور تاریخ کے جدلیاتی عمل کو اچھی طرح سمجھیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے تاریخ کئی بار بدلی ہے اور بدلتی رہے گی۔ شاہِ ایران کو دیکھیں کہ کس طرح اپنے ہاتھ میں ایران کی مٹی لے کر اور جان بچا کر بھاگا۔ کہاں گئی پہلوی بادشاہت کی شان و شوکت؟ کہاں گیا یوگو سلاویہ؟ اور ایک سپر پاور (سوویت یونین) کس طرح دنیا کے نقشے سے مٹ گئی؟ دور نہ جائیے! اپنے ملک میں آنے والی بڑی بڑی تبدیلیوں کو ایک نظر دیکھ لیں۔ ایک بڑے طاقتور وزیراعظم (جو قائدِ عوام کہلاتے تھے) کو ایک غیر قانونی فیصلے کے ذریعے پھانسی کی سزا دلوائی گئی اور سزا دینے والے آمر کو دس برس بعد ہوائی 'حادثے‘ کا شکار کرا دیا گیا۔ آج اسکندر مرزا‘ ایوب خان‘ یحییٰ خان اور پرویز مشرف کو کون یاد کرتا ہے؟ کہاں گیا ان کا جاہ و جلال؟ اور اگر لوگ یاد بھی کرتے ہیں تو کن الفاظ میں؟ یہ اعزاز صرف بھٹو صاحب کو ملا کیونکہ اُنہوں نے لاکھوں‘ کروڑوں لوگوں کے دل میں اپنے لیے عزت اور محبت کا رشتہ پیدا کیا۔ کیا یہ مقامِ عبرت نہیں؟
ملک غلام محمد (پہلے آمرِ مطلق) کی قبر کہاں ہے؟ اس پر کون دعائے مغفرت کے لیے جاتا ہے؟ اسکندر مرزا نے لندن میں کس طرح کسمپرسی کے عالم میں وقت گزارا اور کیسے وفات کے بعد پاکستان میں دو گز زمین بھی بطور آخری آرام گاہ نہ مل سکی۔ یہ حال ہوتا ہے عوام دشمنوں کا۔ انصاف‘ مساوات اور قانون کی حکمرانی کی نفی کرنے والوں کا۔ جمہوری اقدار اور حقوقِ انسانی کی پامالی کرنے والوں کا۔ عوامی اُمنگوں کو طاقت کے بل بوتے پر کچلنے والوں کا۔ بھینس کو عقل و دانش سے زیادہ بڑا‘ زیادہ طاقتور اور بالا دست سمجھنے والوں کا۔
یاد رکھیں کہ اگر ہم نے جلد از جلد (ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے) نیا معاہدۂ عمرانی نہ لکھا‘ قوتِ اُخوتِ عوام کو تسلیم نہ کیا‘ سلطانیٔ جمہور (خصوصاً کسان اور مزد ور) کے آگے سر نہ جھکایا‘ غیر آباد زمین (جو لاکھوں ایکڑوں پر محیط ہے) کو بے زمین کسانوں میں تقسیم نہ کیا‘ مزدوروں کو ان کے تمام جائز اور قانونی حقوق دے کر کارخانوں میں حصہ دار نہ بنایا‘ تعلیمی اداروں اور سرکاری دفتروں کی زبان انگریزی رکھ کر 1973ء کے آئین کی خلاف ورزی ختم نہ کی‘ غیر ملکی بالادستی کا طوقِ غلامی اُتار کر اپنے پڑوسی ایران سے گیس کے حصول کے لیے پائپ لائن نہ بچھائی‘ محرومی کے شکار ستم زدہ افراد سے ماورائے قانون و آئین نمٹنا بند نہ کیا‘ جعلی انتخابات کا ڈھونگ رچانے پر فخر کرنے کے بجائے شرمندگی کا صدقِ دل سے اظہار نہ کیا‘ گلگت سے لے کر گوادر تک عوام کے دکھوں کا مداوا نہ کیا تو یہ کالم نگار (تاریخ کا ادنیٰ طالب علم) بڑے بوجھل دل سے خطرے کی سرخ روشنی جلائے گا۔
ہمارے حکمرانوں کی سیاسی کوتاہ اندیشی (اور وہ بھی پرلے درجہ کی) سے 1971ء کا سانحہ پیش آیا۔ ہمیں افغانستان کی دلدل میں پھنسا کر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ ہمیں دیوالیہ پن کے آخری مرحلہ تک پہنچایا گیا۔ ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچوں کو تعلیم سے محروم رکھا گیا۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے بہادر افراد کو ہر سال کئی بار کوئلے میں تبدیل کردیا گیا۔ عوام کو نہ مچھروں سے‘ نہ آوارہ کتوں اور نہ بارش کے سیلابی پانی سے بچانے کا اہتمام کیا گیا۔ مخصوص صنعتی یونٹس کو سالانہ پندرہ سو ارب کی سبسڈی دینے کے جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ زرعی زمینوں پر کنکریٹ کے جنگل اُگائے گئے۔ کالم ختم ہونے کو ہے مگر حکمران طبقے اور اشرافیہ کے جرائم کی فہرست ختم ہونے کو نہیں آ رہی۔ اس سے پہلے کہ موجودہ نظام ہمیں لے ڈوبے‘ ہم رُک کر اپنا احتساب کریں۔ استحصال‘ بے انصافی‘ عدم مساوات اور عوام دشمنی کا سدباب کرنے کے لیے ایک نیا معاہدہ عمرانی لکھیں کیونکہ:
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں
ہم ریت میں منہ چھپانے والا شتر مرغ نہ بنیں۔ ہم اسی بہادری سے نیا نظام خوش دلی سے اپنائیں جس طرح دوسری عالمی جنگ میں شکست کھانے والے جاپان اور جرمنی نے کیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں