ڈِگری اور انقلاب

یہ غالباً 17مارچ 1970ء کا دن تھا کہ جنرل یحییٰ خان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے۔ اس کے کوئی سات سال بعد بھٹو نے 10مارچ 1977ء کو صوبائی اسمبلی اور 7مارچ کو قومی اسمبلی کے انتخابات کروائے۔ بھٹو کسی حد تک ہاتھ کی لکیروں اور اعداد کے علم پر یقین رکھتے تھے۔ یوں انھوں نے دونوں اسمبلیوں کے انتخابات 10+7یعنی 17مارچ کو کروائے۔ محترمہ بینظیر بھٹو بھی پیروں فقیروں، قسمت کا حال جاننے اور سنوارنے والوں…نیز رمل اور فال کے ذریعے مستقبل کے زائچے کھینچنے والوں سے عقیدت رکھتی تھیں ! یہاں یہ بات یاد رہے کہ محترمہ کے دور میں انتخابات باقاعدہ پیری فقیری کے ہچکولوں میں ہوا کرتے تھے۔ وہ انتخابات سے قبل متعدد بار ’پیر تنکا‘ (ایبٹ آباد) کے ہاں تشریف لے جاتیں اور اُس وقت تک سر کو جھکائے رکھتیں جب تک پیر صاحب کی طرف سے اُنھیں سر اُٹھانے کا اِذن نہ ملتا۔اسی طرح زرداری بھی ان چیزوں میں بڑا یقین رکھتے ہیں؛چنانچہ آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ انھوں نے کتنے بنگالی بابے قصرِ صدارت کے کسی تاریک کمرے میں اپنی فتح کے لیے چلۂ معکوس پر بٹھائے ہوں گے۔ اس منتر تنتر کے نتیجے میں اسمبلی توڑنے اور انتخابات کرانے کا جو مہورت نکلا، جنابِ صدر نے اُسی لمحے اسمبلی کو نابود کرنے کا حکم اور نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہو گا۔ اوروں کو تو چھوڑیے ایک جانب…عمران خان جیسا آکسفورڈ پلٹ نوجوان بھی گوجر خان والے پروفیسر احمد اختر رفیق کی ’تھپکی‘ لیے بغیر زمین سے سر نہیں اُٹھایا کرتا۔ گزشتہ ایک برس سے ہمارے سیاسی سٹیج پر صرف ایک ہی طرز کے نعرے گونجتے رہے ہیں کہ ہم ہر حال میں شفاف انتخابات کرانے جا رہے ہیں۔ اب کے کوئی نادیدہ اور غیر آئینی قوت شفاف انتخابات کے راستے میں حائل نہیں ہو سکے گی۔ اب کے عوام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لیے کوئی نیا کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دے گی۔ الیکشن مطلوبہ وقت پر ہوں گے اور کوئی قوت تاریخ بدلنے پر قادر نہیں ہو گی۔ حالت یہاں تک جا پہنچی کہ چیف آف آرمی اسٹاف، چیف جسٹس پاکستان، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعظم، صدر مملکت اور ہر چھوٹا موٹا کارکن ایک ہی صدا دیے جا رہا ہے کہ اس بار انتخابات کے ریلے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اس لحاظ سے یہ ہماری تاریخ کے غالباً پہلے انتخابات ہوں گے جن کا ہر کسی نے دفاع کیا یعنی پوری قوم ’کوٹھے پر ڈانگ لے کرچڑھ امام دینا‘ کی تعبیر ہو گئی۔ بہرطور دونوں بڑی جماعتیں نگران کابینہ کو خوش اسلوبی سے تخت پر بٹھانے میں ناکام رہ گئیں۔ کشمکش کا ایک میدان سا بندھ گیا مگر بھلا ہو میاں نواز شریف کا جنھوں نے بکمال ہمت پنجاب کا سارا بوجھ اپنے کندھوں پر سہار لیا، یوں نجم سیٹھی ’تختِ لاہور‘ پر مسند نشین ہو گئے۔ جونہی نگران قیادت ’میدانِ جنگ‘ میں اُتری، وہ اُسی انترے اور استھائی کی اسیر ٹھہری جس پر وہ ایک عرصے سے رقصاں چلی آئی ہے۔ اب انہوں نے قوم کا یہ وظیفہ اپنے سر پر اُٹھا لیا کہ وہ ہر حالت میں انتخابات کروا کر ہی اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے۔ اب خدا جانے کہ اتنے وعدوں، اتنی پیشین گوئیوں اور اتنے بھنگڑوں کے بعد بھی اگر تاخیر ہو گئی تو پھر یہ طوفانِ بلا کس کے گھر جائے گا؟ جن کو اپنی ڈگریاں اب تک نہیں مل پائیں یا پھر ان کی ڈگریاں ذرا کچی پکی حالت میں نکلیں، وہ بے چارے تو مارے گئے۔ ایک ایسے انتخابات جس میں ڈگری کا ذکر بہت ہلکے انداز میں آیا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں بے چاری ڈگری تو ہمیشہ سڑکوں پر دھکے کھاتی رہی ہے۔ ایوان ہائے اقتدار میں وہی قہرمان کہلایا جو کسی یونیورسٹی سے کوئی ڈگری مکمل کیے بغیر گھر سے جیسے تیسے نکلا اور ایک عدد ڈگری کما لایا۔ ڈگریوں والا بخار تو جنرل مشرف کو چڑھا تھا، اب ہر چہار جانب اللہ کا فضل ہی فضل ہے۔ تقریباً 190 سابق اراکینِ اسمبلی ایسے ہیںجو اپنی ڈگریوں کی تصدیق نہیں کروا سکے۔ اب المیہ یہ ہے کہ اس اسمبلی کا ممبر بننے والا اَن پڑھ ہونے کے باوجود الیکشن کے لیے اہل ہے جبکہ گزشتہ اسمبلی میں جعلی ڈگری والا مجرم ۔اُسے سزا کے لیے ڈھونڈا جا رہا ہے۔ ایک ایسا قانون جس میں ڈگری کی ضرورت کو چیف جسٹس ڈوگر نے بیک جنبشِ قلم فسخ کر دیا تھا، آج کے نئے انتخابات کسی ڈگری کے بغیر اسی منسوخ شدہ قانون پر ہو رہے ہیں۔ یعنی یہ بذاتِ خود سابقہ اسمبلی کا المیہ ہے کہ جہاں اس نے آئین میں کئی ترامیم کروائیں، کئی قانون بدلے…وہاں اس نے یہ قانون تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی کہ 2008ء کی اسمبلی میں منتخب ہونے والے ممبران کے لیے تعلیم کی شرط کو ختم کر دیا جائے۔ ہماری گریجویٹ اسمبلی نے قوم کا جو حشر کیا وہ تو کیا ہی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنا گلا بھی کٹوا بیٹھی۔ سُنی اتحاد کونسل کے چیئرمین اور سابق ممبر قومی اسمبلی صاحبزادہ فضل کریم نے کہا ہے کہ 11مئی کے الیکشن میں بامعنی تبدیلی نہ آئی تو خونی انقلاب آ جائے گا۔ اوّل تو اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ مثبت تبدیلی سے اُن کی مراد کیا ہے؟ کیا ان کی پارٹی کا کامیاب ہو جانا مثبت تبدیلی ہو گی؟ یا ان کا اکیلے ہی سب ممبران پر چھا جانا ان کے لیے مثبت تبدیلی کہلائے گا…یعنی وہ چاہتے کیا ہیں؟ یہ مولوی حضرات جو آج سے پندرہ بیس برس اُدھر تک انقلاب کا نام سنتے ہی تھرا جایا کرتے تھے، آج اُنھیں انقلاب اور خون کے ساتھ ایسی کیا دلچسپی ہو گئی ہے کہ انھوں نے انتخاب کے ساتھ بھی انقلاب کا استعارہ باندھ رکھا ہے۔ یہ انقلاب کے ساتھ بھی بہت بڑی ناانصافی ہے اور اس کے تصور کے ساتھ بھی! انقلاب کے متعلق مائوزے تنگ نے یہ تاریخی فقرہ کہا تھا کہ انقلاب نہ تو موسیقی اور رقص و سرود ہے اور نہ کسی کپڑے کی کڑھائی…بلکہ یہ سماج کو بدلنے کا ایک انتہائی خون آشام اور لہو رنگ فلسفہ ہے۔ مجھے اس بات کا علم نہیں کہ مولانا نے انقلاب کا یہ سارا تصور ازبر کر رکھا ہو گا یا پھر وہ انقلاب کی اسی طالبانی تعبیر کو ہی کافی سمجھتے ہیں کہ جو سامنے آئے اس کی گردن اُتارتے چلے جائو! کسی زمانے میں انقلاب کا لفظ سُن کر ہی لوگوں کے اوسان خطا ہو جایا کرتے تھے۔ اِدھر لفظِ انقلاب فضا میں گونجا اور اُدھر سُننے والوں کے چہرے پسینے سے شرابور ہو گئے۔اور آج یہ حالت ہے کہ مولانا طاہرالقادری سے لے کر ہر مولوی اور سیاستدان کے چہرے پر انقلاب کی تمازت نظر آتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں