دست نگری

اگست 1976ء کی وہ ملگجی شام اب تک میرے حافظے پر جیسے کندہ ہو۔ لاہور کے تاریخی قلعے کے کشادہ دامن میں فوجی بینڈ کی ہلکی ہلکی موسیقی ہوا کے دوش پر تھی۔ بھٹو اس تقریب کے میزبان تھے اور امریکہ کے خارجہ سیکرٹری ہنری کسنجر اس شام کے خصوصی مہمان۔ کسنجر کے اس اہم ترین دورے کا مقصد پاکستان کو بہرقیمت جوہری بم کے فیصلے سے باز رکھنا اور فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کا سودا منسوخ کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ یاد رہے تب پاکستان کو دو لخت ہوئے فقط چار سال گزرے تھے اور اس کا باقی ماندہ وجود ابھی تک تاریخ کی دہلیز پر سوالیہ نشان کی مانند لٹکا ہوا تھا۔ صورت حال کی نزاکت بھٹو کے چہرے سے عیاں تھی۔ انھوں نے ہنری کسنجر کو جام صحت تجویز کرتے ہوئے اپنے عزم کا یوں اعلان کیا: ’’کسنجر اور لاہور کے نام! لاہور ہمارا ری پروسیسنگ سنٹر ہے اور اس کا گلا ہم کبھی نہیں گھونٹنے دیں گے۔‘‘ بلند قامت اور خمیدہ کمر کسنجر دراصل جرمن یہودی تھا، جس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنے والدین کے ہمراہ امریکہ میں ہجرت کی تھی۔ کسنجر کو شاطرانہ ڈپلومیسی اور سیاسی ذہانت کا مرقع سمجھا جاتا تھا۔ وہ دبیز شیشوں کی عینکیں ناک پر ٹکائے خندہ کناں آہستہ آہستہ اٹھا اور جام لہراتے ہوئے ذومعنی انداز میں بولا، ’’بھٹو اور پاکستان کے نام! ہر حکومت کو چاہیے کہ اپنی پالیسیوں کی ری پروسیسنگ کا عمل جاری رکھے تاکہ اسے یہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہے کہ اسے کس چیز کو ری پروسیس کرنے کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘‘ گویا نہ بھٹو اپنے مؤقف سے بال برابر پیچھے سرکنے کو تیار تھے اور نہ امریکہ اس فیصلے کو برداشت کرنے پر آمادہ۔ بھٹو رُکے اور پیچھے دیکھے بغیر اپنے ہدف کی سمت میں سرپٹ دوڑتے رہے۔ انہیں بالآخر اپنے اس فیصلے کی ’قیمت‘ اپنی گردن پر پھانسی کے پھندے کی شکل میں چکانا پڑی۔ فرانس نے سودا منسوخ کر دیا اور امریکہ نے حسب توقع سیمنٹن ترمیم (Syminton Ammendment) کے زیر عنوان پاکستان پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ جانے پاکستان کو کس حشر سے گزرنا پڑتا کہ ماضی کی غاروں میں رینگتا ہوا افغانستان اپریل 1978ء میں انقلاب کے نعروں سے گونجنے لگا۔ امریکہ بہادر کو پاکستان کی پھر سے ضرورت پیش آ گئی۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے آغا شاہی کے بے بال و پر سرپر دست شفقت پھیرتے ہوئے انہیں تسلی دی، ’’ہم پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو اپنے باہمی تعلقات میں مانع نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ گویا جوں ہی امریکہ کی ترجیحات بدلیں اس کی نیوکلیئر پالیسی بھی بدل گئی۔ امریکہ نے چھ سال کے لیے پاکستان پر سے پابندیاں اٹھا لیں۔ امریکہ کے ساتھ اس تعاون کے نتیجے میں ہی وہ فسادی کلچر پیدا ہوا جسے آج ہم بھی بھگت رہے ہیں اور دنیا بھی۔ 1988ء میں جنرل ضیا کے نام کی ’سپاری‘ نکل آئی اور وہ طیارے کے ساتھ ہی فضا میں تحلیل ہو گئے۔ حقائق خواہ کیا تھے پاکستان کا ایک عام آدمی بھٹو کی پھانسی کا ذمہ دار امریکہ کو گردانتا ہے اور جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کا باعث بھی! پاکستان کی ہر خرابی کا الزام امریکہ کے سر دیا جاتا ہے اور اس کے ہر بحران کا باعث بھی اسے ہی سمجھا جاتا ہے! امریکہ نے آٹھ سال کے وقفے کے بعد پریسلر ترمیم کے زیرعنوان پاکستان پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔ پاکستان کو ایک بدمعاش، اُچھوت اور ناکام ریاست ایسے خطابات سے پکارا جانے لگا لیکن ستمبر 2001ء میں جونہی ٹریڈ ٹاورز زمین بوس ہوئے جمہوریت پسند امریکہ نے ہماری باوردی سرکار کو فون پر ہی جپھہ ڈال لیا۔ ایک بار پھر سے داستانِ محبت کا آغاز ہو گیا۔ ایک بار پھر سے ’ذاتی دوستی‘ کا بے معانی استعارہ استعمال ہونے لگا۔ حالانکہ بڑے لوگوں اور بڑی قوموں کی دوستیاں صرف اپنے مفادات‘ اپنے حالات اور اپنی ضروریات تک ہی محدود ہوا کرتی ہیں۔ اگرچہ امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان پر سے پابندیاں اٹھا لیں؛ تاہم ضیا دور میں پاکستان اگر افغان انقلاب کے خلاف ’جہاد‘ کی آماجگاہ قرار پایا تھا تو اب اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پانچواں سوار بنا لیا گیا۔ یعنی ضیا دور میں جو کچھ ’جہاد‘ کہلاتا تھا، اب وہی کچھ دہشت گردی قرار پا گیا۔ وہ فیصلہ بھی امریکہ بہادر کا تھا اور یہ فیصلہ بھی۔ تب بھی پاکستان پر وردی طاری تھی اور اب بھی! اور اب آئیے امریکہ کی جانب جسے ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ پاکستان نے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ 1965ء تک امریکہ اُسے چین اور روس کے خلاف مسلح کرتا رہا، مگر اس نے یہی امریکی ہتھیار بھارت کے خلاف استعمال کیے۔ پاکستان نے ایک ہاتھ سے چین کا دامن تھامے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے امریکی امداد بٹورتا رہا۔ امریکی پالیسی کے ماہرین کے مطابق 1980-88ء کے زمانے میں پاکستان نے امریکہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر افغان جہاد کا علم تو اٹھائے رکھا جبکہ درونِ خانہ وہ ایٹم بم بناتا رہا اور مشرقی پنجاب و کشمیر میں مسلح شورش کو بھی مہمیز دیتا رہا۔ آج بھی امریکی میڈیا اور امریکی تھنک ٹینک یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان القاعدہ اور طالبان کے نام پر صرف تجارت کر رہا ہے۔ ایک بڑی امریکی لابی پاکستان کو ایک ناکام ریاست سمجھتی ہے…نیز مذہبی انتہا پسندی کا گڑھ بھی۔ احوال واقعی یہی ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کے مابین روغنی الفاظ کے تبادلے کے باوجود باہمی اعتماد اور دوستی کی فضا مفقود ہے۔ امریکہ دنیا کے کسی ملک کو اپنے برابر کا نہیں سمجھتا۔ نہ یورپ کو اور نہ چین و جاپان کو۔ بے چارہ پاکستان نہ کسی شمار میں نہ کسی قطار میں۔ امریکہ احساس برتری کا شکار ہے تو ہم اپنی کم مائیگی کے اسیر۔ وہ اپنی اندھی طاقت کے بل بوتے پر چل رہا ہے اور ہم دعائوں کے سہارے رینگ رہے ہیں۔ ہم شناخت کے بحران سے دوچار ہیں اور وہ سپرپاور کی نفسیات کا علمبردار ہے۔ ہم نے بعض دوسری اقوام کے ماضی میں پناہ لے رکھی ہے اور اس نے پوری دنیا کے حال کو اپنی مٹھی میں بند کر رکھا ہے۔ وہ خود کو جمہوری نظام کا چیمپیئن سمجھتا ہے اور ہم اب تک باوردی جمہوریت اور بدعنوان سیاست کے کولہو میں جُتے ہوئے ہیں۔ یہ بھی درست کہ دونوں ملکوں کے مابین کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی کہ ادھر دست نگری کا راج ہے اور اُدھر توانگری کا زعم۔ امریکی ہماری امن پسندی کے متعلق خواہ کتنے ہی منفی خیالات کیوں نہ رکھتے ہوں لیکن وہ ہماری ’وعدہ پسندی‘ سے انکار نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اگلے جہان کے وعدے پر اس دنیا کو تیاگنے پر تیار نہیں تو پھر اتنی آسانی سے ہم امریکہ کے ’خوش نوا‘ وعدوں پر کیسے اعتبار کر لیتے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں