’یاغستان‘ سے…ڈرون تک

دنیا بدل جائے مگر ہمارے بدلنے کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے اور نہ گلی سڑی سیاسی روایات سے بآسانی نجات پانے کا کوئی راستہ نظر آتا ہے۔ ڈرون حملوں کو ہی لیجئے کہ جونہی ایسا کوئی حملہ ہوا، ہماری سابقہ حکومتوں نے کچھ اس طرزکے دوچار بیانات اخبارات اور ٹی وی پر اُگل دیے جن سے عوام کا دل بہلا دیا اور حقائق کا چہرہ بھی مسخ کر دیا مثلاً ڈرون حملے بین الاقوامی قانون سے متصادم ہیں، اگر ڈرون حملے یونہی جاری رہے تو پاک امریکہ تعلقات میں شدید رخنہ پڑنے کا خدشہ ہے، ڈرون حملوں سے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں یا یہ کہ امریکہ بہت ڈھیٹ ہے کہ ہمارے بار بار کہنے کے باوجود اس نے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عوام اس نوع کے بیانات پر ’لاحول‘ پڑھتے ہیں۔ خود ن لیگ گزشتہ پانچ برس اس قسم کے بیانات پر شدید برستی رہی ہے اور اس کا برسنا بجا بھی تھا کہ اس طرح کی بودی توجیحات حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہیں۔ موجودہ حکومت سے ہرگز کسی کو یہ توقع نہیں کہ وہ اپنی پیشرو حکومتوں اور ان کے بار بار جگالے ہوئے بیانات کی تکرار کرے‘ یعنی اپنا وقت بھی کھوٹا کرے اور عوام کا بھی! اس اہم ترین مسئلے کو حل کرنے کے لیے بیانات کی توپیں چلانے کے بجائے ایک سنجیدہ پلان کی ضرورت ہے۔ البتہ ایک جگہ کھونٹے سے بندھی ہوئی پالیسی اور اس کے اردگرد ناچتے کودتے حقائق سے اس بات کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ پردے کے پیچھے کیا پوشیدہ ہے؟ یوں لگتا ہے کہ پردے کے پیچھے ایک جانب چولی ہے اور دوسری جانب دامن! چولی، جنوبی وزیرستان کی جانب اشارہ کرتی ہے جہاں کئی برسوں سے پاکستانی فوج روایتی ہتھیاروں کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ صدہا فوجی جوان، افسر اور مقامی باشندے زندگی جیسی نعمت سے محروم ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب دامن (شمالی وزیرستان) ہے جہاں ہماری حکومتوں نے پیشگی ملی بھگت سے امریکہ کو ٹارگٹ کلنگ کی اجازت دے رکھی ہے۔ ڈرون کی نئی ٹیکنالوجی کے باعث آج تک نہ تو امریکہ کا کوئی پائلٹ مارا گیا اور نہ اس کا کوئی فوجی نقصان ہوا۔ اس نے اِن علاقوں میں جاسوسی کا ایک ایسا خفیہ نظام ترتیب دے رکھا ہے کہ جس کی اطلاع ملتے ہی چند منٹوں میں مطلوبہ افراد کے ٹھکانوں پر میزائلوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ بلاشبہ ایسے حملوں میں غیر مطلوبہ اور بے گناہ افراد بھی مارے جاتے ہوں گے۔ تو کیا ہماری حکومتیں گزشتہ کئی برسوں سے ’حملے بند کرو‘ کی ڈفلی رائیگاں بجاتی رہیں؟ ن لیگ کے قائدین کو ہرگز یہ ضرورت نہیں کہ وہ دوسروں کے گناہوں کا ٹوکرا اپنے سر پر اُٹھائے اُنھی کے بیانات کو دہراتے چلیں کہ اس طرح کے دلائل اور تاویلات جگ ہنسائی کا تو سبب بن سکتی ہیں لیکن شاید امریکہ اور مغرب ہمارے اس قسم کے دلائل کو بوجوہ خریدنے پر تیار نہ ہوں۔ اس تنازعے کے تاریخی پس و پیش کو سمجھے بغیر ہم نہ تو آج کے قبائل کے ماضی کا ادراک کر سکتے ہیں اور نہ اپنے حالیہ مسائل کا ! ہمیں سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ علاقے انگریز تک کیسے پہنچے اور پھر پاکستان کے قیام کے بعد اُن کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں کیسے آئی؟ یہ 18ستمبر 1883ء کی صبح تھی کہ مسٹر مارٹی میر ڈیورنڈ (Mr. Mortimer Durand)، برطانیہ کے ایک بھاری بھرکم مشن کی قیادت کرتے ہوئے جمرود میں داخل ہوئے۔ وہ دو دن کے بعد طورخم پہنچے جہاں اُن کا افغان فوج کے کمانڈر اِن چیف جنرل حیدر خان نے استقبال کیا۔ افغانستان کے رسل و رسائل کی ابتری کا یہ عالم تھا کہ یہ قافلہ پورے پندرہ روز بعد یعنی 2اکتوبر کی شام کابل کے ’دیہہ افغاناں‘ نامی علاقے میں پہنچا۔ ملاحظہ فرمائیے کہ اُس زمانے میں انگریز نے پورے برٹش انڈیا میں سولہ ہزار میل سے زائد لمبا ریلوے ٹریک بچھا رکھا تھا۔ کوئی ایسا ضلع موجود نہیں تھا، جہاں ٹرین نہ چلتی ہو۔ یعنی غلام ہندوستان میں جب مسافروں سے بھری ٹرینیں ملک کے ایک سرے سے دوسرے سِرے تک چھکا چھک چل رہی تھیں تو دوسری طرف اسلامی امارتِ افغانستان کے بے بس، لاچار اور بے سواد عوام اونٹوں، گدھوں اور گھوڑوں کی پیٹھ پر ہنوز ماضی کے غاروں میں رینگنے پر مجبور تھے…اور یہ سب کچھ اُن کے رہنمائوں کا کیا دھرا تھا، جو اپنی قوم کو آگے لے جانے کی بجائے گول چکر میں ایک ہی جگہ گھماتے پھر رہے تھے۔ افغانستان کے امیر، عبدالرحمان سے بات کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ وہ انتہائی بد کلام، انتہائی کم تعلیم یافتہ (یاد رہے اس کی تعلیم صرف پانچ جماعت تک تھی)، انتہائی مغرور …مگر انتہائی چالاک، شاطر اور ہوشیار تھا۔ الغرض دو ماہ (18 نومبر 1883ء تک ) کے بحث مباحثے کے بعد برٹش انڈیا اور افغانستان میں اصولی طور پر سرحدات کا تعین ہو گیا۔ امیر عبدالرحمان نے سوات، چترال، دیر، پشین، لورالائی، سبی اور چمن کے علاقے مستقل طور پر انگریزوں کے حوالے کر دیے جبکہ قبائلی علاقوں کو اس نے ننانوے سالہ لیز پر انگریزوں کو دے دیا۔ افغانوں نے ان قبائلی ایجنسیوں کا نام ’یاغستان‘ رکھا ہوا تھا یعنی باغیوں کی سرزمین!کوئی ماہ دو ماہ ایسے نہ گزرے ہوں گے جب انھوں نے مرکز (کابل) کے خلاف بندوقیں بلند نہ کی ہوں۔ امیر عبدالرحمان نے ڈیورنڈ لائن کی ایک شق میں مسٹر ڈیورنڈ کو یہ پیشکش کی کہ اگر یہ ایجنسیاں اُس کے پاس رہنے دی جائیں تو وہ ان قبائلیوں کو انگریز کے حق میں استعمال کر سکے گا۔ مسٹر ڈیورنڈ نے امیر کی یہ دلیل رد کر دی۔ امیر نے اِسی نشست میں وزیری قبائل کے متعلق یہ تبصرہ کیا کہ یہ انتہائی نافرمان لوگ ہیں۔ بعد ازاں امیر سے اس کے ایک درباری نے پوچھا کہ ’یاغستان‘ جیسا تیسا تھا، بہرطور افغانستان کا علاقہ تھا، انہیں انگریز کے حوالے کرنے میں آپ نے کیا مصلحت دیکھی؟ امیر نے حسبِ عادت ایک موٹی سی گالی دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ ہمہ وقت آمادۂ بغاوت رہتے تھے یہ دردِ سر ہم نے انگریز کے سر میں اُتار دیا ہے، وہ اِن قبائلیوں کو خوب کھلاتا بھی رہے اور ان کی بغاوتوں کا نشانہ بھی بنے اور یاد رکھنا کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ افغانستان کی جھڑپ ہوئی تو یہ سارے یاغی افغانستان کے ساتھ آن کھڑے ہوں گے۔بوڑھے امیر کا یہ تاریخی اندازہ انتہائی درست تھا۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں