کلام سے خان تک… (1)

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا شمار ان سائنسدانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے انڈیا میں جوہری تحقیق اور ایٹمی دھماکوں کی بنیاد رکھی۔ وہ 15اکتوبر 1931ء کو ہندوستان کے ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے اور 2002ء سے لے کر 2007ء تک ہندوستان کے گیارہویں صدر کے طور پر منصب صدارت پر فائز رہے۔ انھوں نے تامل ناڈو صوبے سے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا اور اعلیٰ تعلیم مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، چنائی سے حاصل کی۔ 1955ء میں انھوں نے خلائی انجینئرنگ کی ڈگری کے لیے آخری سال کا امتحان دینا تھا لیکن وہ چھ ماہ تک اس امتحان کے لیے خود کو آمادہ نہ کر پائے۔ ان کے ڈیپارٹمنٹ کا انچارج ان سے بہت ناخوش تھا۔ اس نے انھیں بلایا اور انتہائی مختصر الفاظ میں انھیں یہ حکم سنایا،’’تمہارے پاس صرف دو دن باقی ہیں، تم کو یہ امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کرنا ہو گا، بصورتِ دیگر نہ تمہیں وظیفہ ملے گا اور نہ تم اپنی تعلیم اس اعلیٰ یونیورسٹی میں جاری رکھ سکو گے۔‘‘عبدالکلام نے نہ صرف دو دن میں امتیازی نمبروں کے ساتھ امتحان پاس کر لیا بلکہ اپنا وظیفہ بھی جاری رکھا۔ ڈاکٹر عبدالکلام جب سائنس کی وادی میں داخل ہوئے تو یہ واقعہ ان کے پہلے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ یہیں پر ان کی ملاقات ہندوستان کے تین بڑے اور مشہور پروفیسروں کے ساتھ ہوئی جن سے انھوں نے اکتساب علم کیا۔ یہ تینوں ہستیاں یعنی ڈاکٹر وکرم سارہ بھائی، پروفیسر ستیش دھاون اور برہم پرکاش تھے۔ آج بھی ہندوستان کی سائنسی دنیا میں ان تینوں اساتذہ کی ذات ستاروں کی مانند روشن سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد عبدالکلام کی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ نہیں آیا جب انھوں نے تعلیم اور ریسرچ سے گریز کیا ہو۔ انھیں عام طور پر انڈیا میں میزائل پروگرام کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ بلاسٹک میزائل کی ترقی کے حوالے سے بھی ان کا کام بہت زیادہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ 1974ء کے پوکھران نیوکلیئر ٹیسٹ میں اور 1998ء کے نیوکلیئر ٹیسٹ میں بھی ان کے کام کو سرِ فہرست قرار دیا جاتا ہے۔ انھیں 2002ء میں انڈیا کی دو بڑی جماعتوں(بھارتیہ جنتا پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس) نے اپنا Candidateنامزد کیا۔ وہ ریکارڈ ووٹوں کی اکثریت سے الیکشن جیتے۔ انھوں نے ’’انڈیا ٹونٹی 20‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے اپنی قوم کو یہ خواب دکھایا کہ انڈیا اس وقت دنیا کی ایک عظیم قوت میں بدل چکا ہے۔ عبدالکلام کے خلاف انڈین میڈیا نے ایک طوفان برپا کیے رکھا۔ ان پر یہ سوال بھی اُٹھایا گیا کہ میزائلوں کی تیاری میں ان کا ذاتی Contributionکتنا کچھ ہے؟ انھوں نے 1970ء سے لے کر 1980ء تک ایک خلائی انجینئر کے طور پر کام کیا لیکن میڈیا کے تیز ترین قلم نے ان کے اس سب سے بڑے کارنامے کو بھی سوالوں سے چھلنی کر دیا۔ عبدالکلام کی سادگی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ان کی کل جائیداد دو کمروں کے ایک فلیٹ پر مشتمل ہے۔ نہ تو انڈیا کے کسی شہر میں ان کا ورثہ پایا جاتا ہے …اور نہ انڈیا سے باہر کسی ملک میں ان کی حویلیاں اور مکانات موجود ہیں۔بلکہ یہ بات بھی قارئین کے لیے بہت دلچسپی کا باعث ہو گی کہ انھوں نے کسی غیر ملکی یونیورسٹی میں نہیں پڑھا…اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خود انڈیا کے اندر سائنسی یونیورسٹیاں اتنی مضبوط ہیں کہ انھوں نے اپنے ہی سائنسدانوں سے ایٹم بم بھی بنوائے اور میزائل بھی۔ انھیں عمومی طور پر ’میزائل کو لوڈ کرنے والی گاڑی‘ کا تخلیق کار بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ سرے محل ایسے قصر خریدنے کے بجائے تحقیق اور تعلیم کی ریسرچ پر صَرف کرتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں انتہائی سادہ پوش انسان ہیں۔ یہ بھی اُنھی کا ریکارڈ ہے کہ سیاستدانوں نے جب دوسری بار الیکشن لڑنے کی پیشکش کی تو انھوں نے صاف جواب دے دیا کہ انہیں طاقت اور اقتدار سے ذاتی طور پر کوئی لگائو نہیں۔ اس کے سوا بہت سے ایسے شعبہ ہائے زندگی موجود ہیں جہاں وہ قوم کے لیے زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ہندوستان کی یونیورسٹیوں سے ایک لاکھ بہترین سائنسدان پیدا کرنے کا بیڑہ اُٹھایا اور آج کل وہ اِسی جدوجہد میں پوری طرح مصروف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستان کی مشہور ترین سائنس اور ٹیکنالوجی کی یونیورسٹیوں میں باقاعدہ لیکچر دینے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ان کے خلاف یہ فتویٰ بھی چھپا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ وہ صرف سبزی کھاتے ہیں…گوشت نہیں! چونکہ عبدالکلام نے اپنی ساری تعلیم لبرل انڈیا کے اداروں میں حاصل کی لہٰذا ان کی اپروچ بھی بہت لبرل ہے۔ وہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو انڈیا کا ہی ایک پرتو سمجھتے ہیں۔انھوں نے بھارت میں کرپشن کے خاتمے کے لیے 2011ء میں نوجوانوں کے ذریعے ایک بہت بڑی تحریک چلائی۔ قومی کیبنٹ کی نامنظوری کے باوجود اندرا گاندھی نے انھیں ایک خفیہ فنڈ سے خاصی بڑی رقم مہیا کی تاکہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ ان کی ریسرچ اور تعلیمی لیڈرشپ نے انڈیا میں ایک ایسی لہر دوڑا دی کہ ہزاروں پڑھے لکھے لوگ اور پارلیمنٹ کے ممبران ان کے نام پر مر مٹنے کو تیار ہو گئے۔ گائیڈڈ ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت بھی انھیں سائنسی تحقیق اور ریسرچ کے لیے خاصے فنڈ ز جاری کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا کا میزائل پروگرام اپنے حجم میں کافی بڑا ہے۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں