آج شام میں پرانے کاغذات اُلٹ پلٹ رہا تھا تو اچانک زاہد حسن خان کی ایک تصویر پر میری نظر پڑی۔ وہ اپنا سر جھکائے اور کیمرے سے آنکھیں چُرائے کھڑے تھے۔ یہ تصویر مجھے آج سے چالیس برس پیچھے لے گئی جب زاہد حسن خان، وزیراعظم بھٹو کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے اور میں اُن کا مشیر برائے امورِ نوجوانان تھا۔زاہد حسن خان کی بھٹو کے ساتھ بہت پرانی شناسائی تھی۔ بار ایٹ لأ کرنے کے بعد 1953-54ء میں جب نوجوان بھٹو نے کراچی میں اپنا وکالتی دفتر کھولا تو زاہد حسن خان ان کے ہاں ٹائپسٹ اور پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر ملازم ہوئے۔ یہ بندھن کچھ ایسا بندھا کہ زاہد حسن تادمِ آخر انھی کے ساتھ جُڑے رہے۔ زاہد حسن کو وزیراعظم بھٹو کے فوٹوگرافر ضیغم زیدی نے ’مردِ قلندر‘ کا خطاب دے رکھا تھا۔ یہ خطاب کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا کہ ان میں قلندری کی خاصی صفات پائی جاتی تھیں۔ یہی دیکھیے کہ پی ایم سیکرٹریٹ کے سارے ملازمین پی ایم ہائوس کی طلائی مہر (گولڈن اسٹیمپ) والے سگریٹ پیتے مگر زاہد حسن خان کے ٹو کے سگریٹ سے ہی اپنے پھیپھڑے سیاہ کر لیتے۔ جب وہ ہونٹوں میں سگریٹ دبائے ٹائپ رائٹر پر بیٹھتے تو کسی دخانی جہاز کی مانند ناک سے دھوئیں کے بادل چھوڑتے جاتے۔ ان کی برق رفتار انگلیوں تلے ٹائپ رائٹر کے ناچتے ہوئے انگریزی حروف ایک موسیقی کا سا سماں باندھ دیتے۔ ان کے سگریٹ سے جھڑتی راکھ نے ان کی پتلون، قمیص اور کوٹ کو جابجا چھلنی کر رکھا تھا مگر اِدھر کسے پرواہ…!یہی حشر ان کے بستر نما صوفے کا تھا، مگر ان کے ٹائپ شدہ ٹیکسٹ میں بھٹو جیسے خوبصورت انگریزی لکھنے اور بولنے والے وزیراعظم کو بھی غلطی پکڑنے کا کم ہی موقع ملتا۔بھٹو رات 3بجے تک کام کرتے اور تب تک زاہد حسن نکٹائی سوٹ زیب تن کیے اُسی سوراخ زدہ صوفے پر دم بھر کو اونگھ لیتے۔ اگر بھٹو کسی فائل پر کوئی فیصلہ لکھوانا چاہتے تو زاہد حسن کے کمرے کی گھنٹی بج اُٹھتی۔ ’مردِ قلندر‘ نوٹ بک اور قلم ہاتھ میں دبائے صوفے سے یوں چوکڑی بھرتے جیسے کوئی زلزلہ آ گیا ہو۔ بھٹو کے ساتھ چوبیس پچیس سال کی نوکری نے ان کے اعصاب کو اُکھاڑ کر رکھ دیا تھا۔ چنانچہ وہ اکثر خود کلامی کرتے ہوئے پوری دنیا کو ’سالا‘ کی گردان سے گزارتے رہتے۔ ان کی اس محبت سے کوئی محفوظ نہ تھا۔ سب چھوٹے بڑے ان کی چکی میں پستے رہتے۔ جب کبھی میں نقطۂ اعتراض اُٹھاتا، ’’حضرت! یہ بات چنداں درست نہیںکہ آپ بھٹو صاحب سمیت کسی کو بھی نہیں بخشتے۔‘‘ تو وہ فوراً کہتے، ’’ارے بھائی! میں گالی نہیں دیتا بلکہ یہ اہلِ زبان کا روزمرہ ہے۔ بلکہ یوں جانو یہ حروفِ عطف ہے، جن سے ہم اہلِ زبان فقروں کو باہم جوڑتے ہیں۔مگر تم پنجابیوں کا کیا کیا جائے کہ علامہ کہلوانے کے شوق میں ہر لفظ کے معنی ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ یاد رکھو روزمرہ کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ ‘‘ یہ غالباً 1976ء کا واقعہ ہے کہ میری ایک تجویز پر چاروں وزرائے اعلیٰ کو ہدایات دینے کے لیے وزیراعظم بھٹو نے خط لکھنا مناسب جانا۔ انھوں نے زاہد حسن کو بلوایا۔ یہ منظر اب تک میرے حافظے پر ہوبہو یوں ہی ثبت ہے۔ زاہد حسن نوٹ بک پر قلم کی نوک رکھے ’یس سر‘ کہتے ہوئے دفتر میں داخل ہوئے۔ یہ شام کا وقت تھا، بھٹو خوشگوار موڈ میں تھے، انھوں نے زاہد حسن سے انگریزی میں پوچھا، ’’How are you?‘‘ ’مردِ قلندر‘ نے ان کی جانب دیکھے اور کوئی جواب دیے بغیر اِسے ڈکٹیشن کا آغاز سمجھتے ہوئے فوراً شارٹ ہینڈ کر لیا۔ بھٹو نے مسکراتے ہوئے مکرر کہا، ’’اوئے چریا! میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔‘‘زاہد حسن نے یہ جملہ بھی اپنی نوٹ بک میں درج کر لیا۔ بھٹو نے مجھے کہا کہ اُٹھو اور اس کی ٹھوڑی اوپر اُٹھائو۔ ’مردِ قلندر‘ اس بات کو بھی نوٹ بک میں محفوظ کر رہے تھے کہ میں پہنچ گیا۔میں نے آہستہ سے ان کی ٹھوڑی اوپر اٹھاتے ہوئے کہا ’’اُدھر وزیراعظم صاحب کی جانب دیکھیے‘‘۔ وزیراعظم بھٹو نے مصنوعی خفگی کے سے انداز میں کہا، ’’مجھے لگتا ہے آج تم نے کچھ زیادہ ہی پیٹرول بھر لیا ہے‘‘۔ ’مردِ قلندر‘ منمنانے لگے، ’’جی سر، نو سر، یس سر…‘‘ یاد رہے تب تک شراب پر پابندی عائد نہ ہوئی تھی۔ زاہد حسن کا کوٹہ فری تھا۔جب کبھی وہ ترنگ میں آتے اپنے کوٹے میں سے دوچار بوتلیں اِدھر اُدھر باندھ کر دوسروں کو بھی گناہ گار کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے رہتے۔ (اپنے اقتدار کے آخری دِنوں میں وزیراعظم بھٹو نے شراب پر پابندی عائد کر دی تھی) ایک دفعہ میں نے زاہد حسن سے پوچھا ’’آپ نے عشروں تلک بھٹو جیسے ذہین شخص کے زیرِ سایہ کام کیا، آپ انہیں اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ کسی سیاسی عہدے پر فائز نہ تھے… تو پھر ان کو دیکھ کر یوں غش سا کیوں کھا جاتے ہیں؟ ‘‘ انھوں نے سگریٹ اٹھایا اور اہلِ زباں کا روزمرہ استعمال کرتے ہوئے کہا، ’’ارے بھائی! وہ ایک شخص ہو تو میں پہچانوں…جب بھی میں اندر جاتا ہوں، آگے ایک نیا آدمی بیٹھا ہوتا ہے۔‘‘ ’مردِ قلندر‘ اکثر اپنے سیاسی افکار مجھ پر ابلاغ کرتے رہتے۔ ان کے نظریے کے مطابق تاریخ کا سارا سفر فرقہ وارانہ کشمکش سے عبارت تھا۔ وہ بعض طبقات کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن سمجھتے اور اکثر آہستہ سے سرگوشی کے انداز میں کہتے،’’یہ تمہارا لیڈر بھی اِنھی کے پنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ اُسے کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ انھوں نے پورے پی ایم سیکرٹریٹ کو انہی طبقات میں منقسم کر رکھا تھا۔ جب وہ کسی بڑے سرکاری افسر کو گزرتے ہوئے دیکھتے تو ایک آنکھ دبا کر آہستہ سے کہہ دیتے، ’’یہ بھی وہی ہے‘‘۔ ’وہی ہے‘ سے حضرت کی مراد یہ ہوتی کہ وہ انہی میں سے ہے۔ پاکستان کے سب سے مشہور فوٹو گرافر سید ضیغم زیدی، وزیراعظم بھٹو کے خصوصی فوٹو گرافر تھے۔ وہ اکثر میرے ساتھ زاہد حسن کو چھیڑنے پہنچ جاتے، انہیں خوب بھڑکانے کے بعد جونہی وہ باہر نکلتے تو ’مردِ قلندر‘ مجھے سمجھاتے، ’’ابے! اس سے بچو…یہ سالا بھی وہی ہے۔‘‘ ’مردِ قلندر‘ کا سیکرٹری محمد ریاض ان کا ہم زاد تھا۔ وہ جدھر جاتے، محمد ریاض ان کی دم کے ساتھ گھسٹتا رہتا، اس کے بال تانبے کی مانند چمکدار تھے۔ لہٰذا وہ پی ایم سیکریٹریٹ میں Copper Headed یعنی ’تانبے کے سر والا‘ کے عنوان سے مشہور تھا۔ زاہد حسن خان جب وزیراعظم بھٹو سے ڈکٹیشن لینے جاتے تو اُسے وزیراعظم کے دفتر کے باہر کھڑا کر دیتے۔وہ جونہی ڈکٹیشن لے کر باہر نکلتے،اپنے سارے نوٹس اُسے شارٹ ہینڈ کروا دیتے۔ دراصل ’مردِ قلندر‘ یاد فراموشی کے مریض تھے‘ لہٰذا کاپر ہیڈڈ ان کے ذہنی کمپیوٹر کا بیک اَپ تھا۔ جونہی وہ اپنے دفتر میں ٹائپ رائٹر پر بیٹھتے تو اس سے پوچھتے، ’’وزیراعظم نے کیا لکھوایاتھا؟‘‘اب وہ بولتا اور زاہد حسن دھڑا دھڑ ٹائپ کرتے جاتے۔ وزیراعظم بھٹو نے انھیں اعصاب کے علاج کی خاطر 1976ء میں لندن بھجوایا۔ واپسی پر وہ کافی بہتر تھے لیکن اب ان کے طرز تکلم میں وہ شگفتگی رہی اور نہ وہ روانی۔ تاہم وہ دہلی سے اپنے ساتھ لایا ہوا روزمرہ اب بھی بے دریغ استعمال کرتے ۔ میری ان سے آخری ملاقات 1977ء میں کھگا ہائوس، لاہور میں ہوئی جہاں اُن دِنوںبیگم بھٹو رہائش پذیر تھیں۔ وہ مجھے بہت تھکے تھکے سے دکھائی دیے، میں نے ان سے حال چال پوچھا تو کہنے لگے، ’’میری ٹانگیں لرز گئی ہیں۔ اب مزید چلنے کی سکت نہیں رہی۔‘‘پھر ایک شام انھوں نے اپنا ٹائپ رائٹر اٹھایا اور کسی سے کچھ کہے بغیر کراچی چلے گئے۔ اس کے بعد ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔