قطر مذاکرات

امریکہ ایک عرصے سے پاکستان پر دبائو دیتا رہا کہ وہ طالبان کے ساتھ ان کے مذاکرات کا اہتمام کرے۔ پاکستان کے لیے یہ صورتحال ’گویم مشکل‘ وگرنہ گویم مشکل‘ کے مصداق تھی۔ امریکہ کی ڈپلومیسی کا اپنی برتری کے سوا نہ کوئی قبلہ ہے اور نہ کوئی کعبہ‘ لہٰذا انہی کے ایما پر گزشتہ تین سال سے طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھول رکھا ہے۔ اس دفتر کے ذریعے امریکہ اور طالبان کے درمیان بے نتیجہ قسم کے ’بیک ڈور مذاکرات‘ ایک عرصے سے چل رہے ہیں۔ حال ہی میں جب امریکہ طالبان براہ راست مذاکرات کا غلغلہ بلند ہوا تو بہت سے لوگوں کے لیے اس کا پس و پیش سمجھنا مشکل ٹھہرا۔ طالبان نے ان مذاکرات سے پہلے اعلان کیا کہ افغان سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس اعلان سے امریکہ اپنی فتح کا سامان کشید کرنے میں مشغول ہو گیا حالانکہ اس طرح کا اعلان تو 2001ء میں ملا عمر نے بھی کیا تھا کہ اگر امریکہ، اسامہ بن لادن کے خلاف کوئی ایسی شہادت پیش کر دے کہ اس نے کسی دہشت گردی میں حصہ لیا ہے تو طالبان اُسے امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں‘ لیکن تب چھوٹے بُش کے دماغ پر جنگ کا خناس طاری تھا۔ لہٰذا اس نے سُنی ان سُنی کر کے افغانستان پر فوری حملہ کر دیا۔ تاریخ کے فیصلے بھی کتنے خوفناک ہوتے ہیں کہ آج تھکا ہارا امریکہ، طالبان کے اُسی اعلان پر خوشی سے بغلیں بجا رہا ہے جسے اس نے گیارہ سال پہلے رد کر دیا تھا۔ امریکہ، طالبان، جنگ اور مذاکرات نے گزشتہ بارہ سالوں کے دوران کئی اُتار چڑھائو دیکھے ہیں۔ مذاکرات کے لیے قطر کا چنائو محض حسنِ اتفاق نہیں بلکہ طالبان کا بہت سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔ دوحہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک شدت پسند تحریک کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ امریکہ اپنے مقاصد کے لیے کسی دوست دشمن کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا لہٰذا اس نے لیبیا میں قطر سے جانے والے اِسی لشکر کو استعمال کیا تھا۔ یہ لوگ مصر کے ہنگاموں میں بھی پیش پیش رہے اور آج شام میں بھی وہی بشارالاسد کے خلاف برسرِپیکار بتائے جاتے ہیں۔ دنیا میں قطر کو ایک عرب ملک کی شدت پسندانہ پالیسی کا بیرونی دروازہ سمجھا جاتا ہے۔ مختصراً قطر کے شدت پسند صرف طالبان کے ہم خیال، ہم نظر اور ہم فکر ہی نہیں بلکہ مشترکہ جدوجہد کے ساتھی بھی ہیں۔ طالبان نے خارجہ پالیسی کا بہت کم تجربہ رکھنے کے باوجود افغان سرزمین پر اپنی مضبوط پوزیشن کو امریکہ کے ساتھ ’بیک ڈور مذاکرات‘ میں بہت کامیابی سے استعمال کیا ہے ۔ ایران کی بین الاقوامی سطح پر کوئی پوزیشن نہیں۔ وہ تنہائی کے بیاباں میں گھِرا ہوا ملک ہے۔ طالبان نے اپنا وزن بڑھانے کے لیے پاکستان سے کہیں زیادہ ایران کے ساتھ گہرا رشتہ استوار کر رکھا ہے۔ پہلے پہل تو حامد کرزئی نے ان مذاکرات میں شرکت کرنے سے انکار کیا اور حسبِ معمول امریکہ کے خلاف ایک بھبھکی مار دی۔ یہ بھبھکی کم و بیش ایسی ہی تھی جیسے ہمارے قائدین گزشتہ کئی برسوں سے ڈرون حملوں کے خلاف مارتے چلے آئے ہیں۔ امریکہ نے جونہی کرزئی کو اپنی آنکھیں دکھائیں وہ فوراً افغان قوم پرستی کی دُلکی چال بھول کر راہ راست پر آ گیا۔ اس کی ’غلط فہمیاں‘ فوراً دور ہو گئیں اور وہ مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہو گیا۔ طالبان امریکہ مذاکرات کے متعلق پاکستان کے میڈیا اور سیاستدانوں نے اپنے اپنے حوالے سے بہت سی اُمیدیں باندھ رکھی ہیں۔ خواہشات کے اس تانے بانے کا آخری نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ ابھی سے ہمیں شیشے کی مانند دور ہی سے چمکتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکہ، ویت نام کی طرح افغانستان کو جیسے تیسے اُسی حال میں چھوڑ کر واپس جانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ اس کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وہ بدمست ہاتھی کی مانند نہ تو کسی ملک میں گھسنے سے دریغ کرتا ہے اور نہ واپسی سے۔ امریکہ کے انخلأ کے بعد افغانستان کا ناک نقشہ 1992ء کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ تب بھی مجاہدین میں باہم شدید جنگ ہوئی تھی اور اب بھی شمالی افغانستان کے رہنمائوں اور طالبان کے درمیان ایک نئی جنگ چھِڑنے کا پورا امکان موجود ہے۔ میں اپنے بعض صحافیوں کے اس تجزیے سے اتفاق نہیں کرتا کہ شمالی اتحاد ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنے کسی انٹرویو کی بنیاد پر یہ فیصلہ کر بیٹھتے ہیں کہ پاکستان کا دوست کون ہے اور دشمن کون؟ ہم میں سے بہت سے لوگ افغان قائدین کے اصل مقاصد کو اب تک نہیں سمجھ پائے۔ جب بھی کوئی افغان رہنما ہمارے میڈیا کو اپنا انٹرویو دیتا ہے تو وہ پاکستان کے عوام اور حکومت پر اپنی پالیسی کو فروخت کرتا ہے۔ اگر وہ پاکستان پر تنقید نہیں کرتا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ پاکستان کے بہت قریب آ گیا ہے اور نہ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کرزئی ہم سے دور ہو گیا ہے…اور شمالی اتحاد اب ہمارا حامی ہے۔ شمالی اتحاد کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں بلکہ یہ اکثریت کے خلاف اقلیت کے خوف سے جنم لیتا چلا آیا ہے۔ جونہی حکومت طالبان کو ملی اُسی دن یہ اتحاد پھر وجود میں آ جائے گا۔ افغان اپنے اپنے حالات کوہم سے بہت بہتر سمجھتے ہیں۔ دوم‘ یہ کہ شمالی اتحاد کے رہنما اُس وقت پاکستان کے حق میں بیان دیتے ہیں جب کرزئی پاکستان پر تنقید کرتا ہے‘ یعنی گاہے کرزئی پاکستان کو اپنے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے اور گاہے طالبان یا شمالی اتحاد‘ لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے حق میں کیا بہتر ہے؟ گزشتہ بارہ سالوں کے دوران قبائلی علاقہ جات پر ڈرون حملوں اور ہمارے فوجی ایکشن کے باعث ان علاقوں کا پاکستان کے ساتھ رشتہ بہت کمزور ہو چکا ہے۔ یعنی امریکی انخلا کے بعد یہ رشتہ خود بخود مضبوط ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ افغانستان کا آقا بننے کی خواہش میں ہم اپنے زیرِ تسلط علاقہ جات بھی گنوا بیٹھیں! افغان جنگ کے خونی تالاب سے باہر آنا ہی ہمارے لیے اصل مسئلے کا حل ہے کہ ہم نے افغانوں کی اس جنگ سے خرابی اور نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں