یادِ رفتگاں

کل شام اتفاقاً جب میں گورڈن کالج (راولپنڈی) کے مین گیٹ کے قریب سے گزرا تو صدہا چہرے میری آنکھوں کے سامنے مجسم ہو گئے۔ کیسے کیسے جوانانِ رعنا، اخلاق کے دائرے میں سجی سنوری خواتین و طالبات، علم کی روشنی سے منور اساتذہ...گویا ستاروں کی کہکشاں تھی جو وقت کی پنہائیوں میں گُم ہو گئی۔اُن میں سے بہت سوں کے نام پردۂ یادداشت پر اُبھرتے اور ڈوبتے رہے۔تاہم اس بات میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ مرحوم پروفیسر خواجہ مسعود کا ذکر کیے بغیر گورڈن کالج کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان کی ذات ایسی شمع کی مانند فروزاں رہی، جس کے علم کا نور ہزاروں نوجوانوں کو چشم بینا عطا کر گیا۔ اُن کے ان گنت شاگرد فیڈرل سیکرٹری جیسے عہدے پر فائز ہوئے۔ کئی ایک پولیس کے انسپکٹر جنرل کے رتبے پر پہنچے۔ ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والوں میں سے بیسیوں جرنیل بنے۔ بہت سے آج بھی وزیر ہیں۔ ان کا ایک شاگرد کمانڈر انچیف بنا۔ دو آزاد کشمیر کے وزیراعظم بنے اور ایک پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی گدی پر 'جلوہ گر‘ رہا۔ شعیب بن عزیز ایسے شاعر، راحت کاظمی اور شجاعت ہاشمی ایسے فنکار بھی انہی کی دین ہیں۔ میں ان سب لوگوں کے نام لکھنے بیٹھ جائوں تو ضخیم کتاب تیار ہو جائے۔ بس یوں جانیے کہ جو اُن کی بزم سے محروم رہا، وہ زیادہ سے زیادہ شیخ رشید احمد ہی بن پایا۔
خواجہ مسعود نے 1940ء میں گورڈن کالج میں تدریس کا آغاز کیا۔ انہوں نے طلبہ کی سیاسی تربیت کیلئے 'ہائوس آف کامنز‘ کی داغ بیل ڈالی جس کا اجلاس ہر جمعہ کو ہوتا تھا۔ جس نوجوان نے اس ہائوس میں تقریر کرنے اور نکتہ اعتراض اٹھانے کا گر سیکھا، وہ زندگی کے ہر موڑ پر اپنی بات کہنے پر قادر رہا۔ پروفیسر صاحب نے اپنے شاگردوں کو سماجی روشن فکری، مذہبی برداشت، جمہوری سوچ اور انقلابی شعور کے زیور سے بھی آراستہ کیا۔ ہم ایسے ـصدہا لوگ انہی کی توجہ خاص کے زیر اثر اپنی نظریاتی سمت متعین کر پائے۔ خواجہ صاحب گورڈن کالج کے پرنسپل بھی رہے اور انہیں اس باعزت مسند سے ریٹائر ہوئے بھی زمانہ ہوا مگر ان کے اندر کا انقلابی 92برس کی عمر میں تادمِ مرگ اُسی طرح جوان بھی رہا اور مبارز بھی۔ وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے باقاعدگی سے کالم بھی لکھتے رہے اور انھوں نے ادبی تقاریب میں تنقیدی مضامین بھی پڑھے۔ 
اُن کی وفات سے قبل ایک ایسی خبر نظروں سے گزری جو خون کھولا بھی گئی اور خون کے آنسو رُلا بھی گئی۔ اخباری رپورٹ کے مطابق ریٹائرڈ بریگیڈیئر طارق محمود نے جوش ملیح آبادی کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور اپنی اس کتاب کی افتتاحی تقریب میں خواجہ صاحب کو بھی مدعو کیا۔ خواجہ صاحب نے اپنے ذاتی دوست اور نظریاتی ہمسفر جوش کے انقلابی رجحانات کا احاطہ کرتے ہوئے آج کے دگرگوں حالات کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس تاریخی صداقت کا اظہار کیا کہ اگر ہمارے سیاستدان اور ہماری فوجی و سول بیوروکریسی منافقت سے کام نہ لیتی تو پاکستان میں کب کا عوامی انقلاب برپا ہو جاتا۔ انہوں نے ابھی یہ فقرہ مکمل ہی کیا تھا کہ ایک سابق وزیر (جو ہر شریف آدمی کی پگڑی اُچھالنا اپنا فرضِ منصبی گردانتے ہیں) منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے اُٹھے اور بزرگ پروفیسر پر پِل پڑے کہ وہ پاک دامن سیاستدانوں کو 'بدنام‘ کر رہے ہیں، حالانکہ خواجہ مسعود نے نہ تو کسی کو لوٹا کہا، نہ کسی کو قومی خزانے کے کئی لاکھ اپنے ذاتی علاج پر ضائع کرنے کا طعنہ دیا، نہ نیب زدگان کا ذکر کیا، نہ چینی سکینڈل کا حوالہ دیا اور نہ سٹیل ملز یا اسٹاک ایکسچینج سکینڈل کا سوال اُٹھایا۔ پروفیسر نے تو اس 'تاریخی کارنامے‘ پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ جس کے سایے تلے ایک نام نہاد مفاہمتی آرڈیننس کا اجرأ ہوا جس نے نیب زدگان کو بھی غسل صحت دے دیا اور صدہا بیگناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کو بھی شرافت کی سند دے ڈالی۔ اس آرڈیننس نے ڈیڑھ بلین ڈالر کے وہ مقدمات بھی دھول کر دیے جن پر میڈیا کی بریکنگ نیوزچلا کرتی تھی۔ اسی آرڈیننس نے ان فوجی اور سول افسروں کو بھی پوتر ڈیکلیئر کر دیا جن پر کرپشن کے صدہا مقدمات قائم تھے۔ 
تقریب کے میزبان بریگیڈیئر (ر) طارق محمود نے مرحوم پروفیسر پر مغلظات کی بارش کردی۔ فوجی بیوروکریسی کے ذکر نے ان کے منہ کا ذائقہ اتنا تلخ کر دیا کہ موصوف تحکمانہ انداز میں بآواز بلند دھاڑے ''اوئے احمق بڈھے یہاں سے نکل جائو! تمہیں تقریر کے لیے بلایا گیا تھا مگر تم نے تبلیغ شروع کر دی۔‘‘ حالانکہ پروفیسر صاحب نے جرنیل شاہی کے لیے وہ زبان استعمال نہیں کی تھی جو آج ہر چوراہے پر گونجتی سنائی دیتی ہے۔ درویش صفت بزرگ استاد نے ہال سے باہر نکلتے ہوئے اپنی توہین پر شکوہ کناں ہونے کی بجائے صرف یہ کہا، ''میرا مقصد اصلاح احوال تھا۔ اگر میری بات سے کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘ اس پر ان کے میزبان نے ان پر گالیوں کی ایک اور باڑ ماری۔ بدبختی کی انتہا دیکھیے کہ اس بزم میں بیسیوں تعلیم یافتہ لوگ موجود تھے مگر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس 'رومن اکھاڑے‘ میں صدائے احتجاج بلند کرتا۔ یہ اعزاز ایک انتہائی اچھے خاندان کی ایک انتہائی باعزت بیٹی ثمر من اللہ کے مقدر میں لکھا تھا کہ صرف اس نے اس بے رحمانہ سلوک کے خلاف کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔ وہ اپنی نو سالہ بچی کے ہمراہ جوش کی شاعری کا انگریزی ترجمہ خریدنے گئی تھیں، مگر مترجم کی 'ذہنی بالیدگی‘ کا یہ عالم دیکھ کر انہوں نے اپنا ارادہ بدل ڈالا۔
ریٹائرڈ بریگیڈیئر صاحب جس آسیب زدہ قسم کی روشن خیالی کے داعی ہیں اس کا اصل چہرہ کربناک بھی ہے اور خوفناک بھی مگر کیا ان لوگوں کے پاس کوئی لائسنس موجود ہے کہ وہ جس کو چاہیں سربازار رسوا کر دیں؟ کیا ایک بزرگ استاد کی یہ توہین پورے پاکستان کے اساتذہ کی توہین نہیں؟ جس معلم کا سینہ پاکستان کی انقلابی تاریخ کا مخزن ہو اس پر یہ دشنام، کیا پوری قوم پر طمانچے کے مترادف نہیں؟ کیا خواجہ مسعود پر تبریٰ ان کے ہزاروں شاگردوں کے منہ پر تھوکنے کی جسارت نہیں؟ خواجہ مسعود کو تقریب سے نکال دینا کیا آزادی رائے سلب کرنے کی کھلی کوشش نہیں؟ کیا اساتذہ کی کوئی انجمن، طلبہ کی کوئی یونین ، اولڈ بوائز کی کوئی ایسوسی ایشن، صحافیوں کی کوئی فیڈریشن، اہل قلم کی کوئی سنگت، اہل خرد کی کوئی بزم، ملک کے ایک نہتے اور شریف دانشور استاد کی اس توہین پر صدائے احتجاج بلند نہیں کرے گی؟ یا پھر یہ فرض کر لیا جائے کہ ہم بے حس اور مردہ معاشرے میں ڈھل چکے ہیں، جس میں ضمیر نام کی کوئی چیز باقی بچی ہے اور نہ کسی بزرگ یا استاد کی عزت کا احساس! یہ سب کچھ سوچ کر میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں