یہ گزشتہ اتوار کا ذکر ہے، میں نے اسلام آباد سے برمنگھم کے لیے پی آئی اے کی فلائٹ میں اپنی نشست بُک کرائی۔ جہاز نے شیڈول کے مطابق 3:40منٹ پر فضا میں بلند ہونا تھا۔ پی آئی اے نے مسافروںکو تین گھنٹے پہلے ہی کائونٹر پرطلب کر لیا تھا ؛ چنانچہ سب اپنا سامان گھسیٹتے ہوئے کائونٹر پر پہنچے، سامان بُک کروایااور بورڈنگ کارڈ لے کر خراماں خراماں جہاز میں داخل ہو گئے۔ مگر ہم ایسے خوش نصیب کہاں کہ طیارہ وقت پر زمین سے اُٹھتا، اُس نے اپنا پیٹ مسافروں سے بھرااور جیسے غنودگی کے عالم میں آہستہ آہستہ رینگتا ہوا ایک جانب منقار زیرِ پر ہو گیا۔ کوئی دو سوا دو گھنٹے کی استراحت کے بعد طیارہ ایک بار پھر ہلا جُلا اور رَن وے کی جانب رینگنے لگا۔ طیارے کے اندر فضا شدید مکدر تھی، دو اڑھائی سو لوگ گھنٹوں سے طیارے میں بند تھے تو بے چاری فضا کاتو یہ حشر نشر ہونا ہی تھا۔ بہرحال ‘جب جہاز بلند ہوا تو پوٹھوہار، ڈھڈیال اور میرپور سے 'ولایت‘ جانے والی کہنہ عمر خواتین نے اپنے دوپٹے پھیلائے اور بآوازِ بلند دُعا مانگی: ''سب دی خیر ربّا‘‘۔
جہاز کے اندرونی رنگ و روغن کا یہ عالم تھا کہ کہیں سے ایک رنگ نظر آتا تو کہیں سے دوسرا ...یعنی اس کو نیا رنگ کرنے والوں نے رنگوں کے درمیان کسی قسم کا امتیاز یا توازن رکھنا گویا کفر جانا تھا۔
آٹھ گھنٹوں پر محیط اس فضائی سفر میں ہمیں پانی کا ایک گلاس بھی سسک سسک کر ملا۔ لہٰذا کسی نے سافٹ ڈرنک کی خواہش ہی نہیں کی۔ نہ کہیں دوپہر یا رات کے کھانے کی مہک، نہ خوراک کا کوئی اور بہتر نظام...گویا جلے ہوئے چاولوں کی آدھی پلیٹ ہی ہمارا مقدر ٹھہری۔ یوں سمجھئے کہ ہماری موٹروے پر چلنے والی ڈائیوو کی سروس بھی اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ یہ سب دیکھ کر شدید دُکھ تو ہوا لیکن ہم اپنا دل جلانے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے تھے! بالآخر طیارے نے اپنے پہیے زمین پر لگائے اور ہچکولے کھاتا ہوا کوئی دوچار سو گز دور جا کر رُکا۔ جب ہم اپنا اپنا سامان اُٹھا کر کسٹم کے قریب پہنچے تو فرمان جاری ہوا کہ ہم دوبارہ تلاشی ہونے تک وہیں رُکے رہیں۔ البتہ غیر ملکیوں کو باہر جانے کی اجازت مل گئی۔ بالآخر ایک لمبی قطار میں صرف ہمی اللہ کو یاد کرتے ہوئے وہیں کے وہیں جم گئے۔ تب انھوں نے ایک ایک آدمی کو اپنا سامان نئی الیکٹرانک مشینوں میں ڈالنے کا حکم دیا۔ شاید ہی کسی کا سامان تیس کلو سے کم ہو، اُسے اُٹھا کر ایک چار پانچ فٹ بلند مشین میں ڈالنا بوڑھے مریض مسافروں کے لیے آسان نہ تھا۔ اُدھر بدبختی یہ کہ وہاں پی آئی اے کا کوئی عملہ موجود تھا اور نہ کسٹم والوں کو کسی بوڑھے یا جوان کا کوئی احساس تھا۔ کوئی گھنٹے دو گھنٹے کی زحمت کشی کے بعد جان چھوٹنا شروع ہوئی۔ مجھ سے پانچ سات نمبر آگے ایک نوجوان چل رہا تھا۔ کسٹم والوں کا تناور کتا انہیں بزورِ تمام کھینچتا ہوا اُس نوجوان کی جانب لپکا۔ لڑکا اپنی جان بچانے کے
لیے چوکڑی مار کر قطار سے نکلا اور کسٹم کے گرین دروازے کی جانب بھاگا مگر جلد ہی پہلے سے آمادہ کسٹم والوں نے اُسے رگید لیا۔ جب میں اس کے قریب سے گزرا تو وہ اپنے ہینڈ بیگ سے مختلف قسم کے لفافے نکال نکال کر کسٹم والوں کی ٹیبل پر ڈھیر لگا رہا تھا۔ میں سوچتا رہ گیا کہ شاید اسلام آباد میں طیارے کے لیٹ ہونے کی اصل وجہ اس 'نسخۂ کیمیا‘ کی تلاش ہو۔ گویا ہمارے تربیت یافتہ کتے جس بُوکو اُٹھانے میں ناکام رہے، برمنگھم کے دانا کتوں نے اُس کا سراغ فی الفور لگا لیا۔
ہماری بدنصیبی کہ نہ صرف اپنے ملک کے اندر بلکہ برطانیہ میں بھی جیلیں ہمارے دم قدم سے آباد ہیں۔ نہ یار لوگوں کو اپنی ذات اور اپنے ملک کا احساس ہے اور نہ اُن مساجد کا کوئی احترام جن کے دارالعلوم میں کروڑوں روپے کا چندہ اکٹھا ہوتا ہے۔ کرشمے دکھانے والے، جھاڑ پھونک کرنے والے اور نہ ہی مُردوں کو بخشوانے والے پیروں کی کوئی دُعا اُن پر کارگر ہوتی ہے۔
سفید پائوڈر کے متعلق چار پانچ سال قبل کسی نے ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا۔ ایک شخص نے بیس کلو گرام ہیروئن کا ایک تھیلا بھرا، یہ تھیلا اسلام آباد ائیرپورٹ کے اُن سارے حساس مقامات سے یوں بآسانی گزرگیا جیسے ہمارے ہاں دوسری چیزیں گزر جایا کرتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس نے اپنے اس کامیاب پھیرے پر واپس آ کر ایک اجتماعی دُعا منگوائی اور یہ کہا کہ اگر اللہ کے کر م سے دوسرا پھیرا بھی کامیاب ہو گیا تو وہ اس کی آمدنی کا آدھا حصہ غریبوں میں بانٹ دے گا۔ تاہم دوسری بار اس کے مقدر میں جیل لکھی تھی لہٰذا وہ زہریلے مواد کی اسمگلنگ کے جرم میں دھر لیا گیا۔
میں نے پہلے بھی کئی بار پی آئی اے کی زبوں حالی پر لکھا ہے۔کیا کمال کی ائیرلائن ہوا کرتی تھی جس پر لوگ بیٹھتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔ اس کی پرواز، اس کے پائلٹ، جہاز کا عملہ، اس کی خوراک اور سروس سبھی لاجواب تھیں۔ اگرچہ برسوں کی تباہی کو سال دوسال میں درست کر لینا کوئی آسان کام نہیں لیکن پھر بھی دل میں یہ حسرت کچوکے لگاتی رہتی ہے کہ کاش اس کی پرانی رونقیں ایک بار پھر واپس لوٹ آئیں۔