جنگ کے بجائے مذاکرات

انسان اس زمین پر خدائے بزرگ و برتر کا نائب اور خلیفہ ہے۔ وہ تسلسل حیات کا امین اور اس کرّہ ارض کا محافظ ہے۔ لہٰذا کوئی اخلاقی ضابطہ، کوئی سیاسی نظریہ، کوئی مذہبی فریضہ اور کوئی اندھا جذبہ اسے یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ خدا کی اس دھرتی اور بنی نوع انسان کو جلا کر راکھ کر دے۔ آج جس قدر ایٹمی اسلحہ کرہ ارض پر موجود ہے اگر اسے زمین کے شکم میں داغ دیا جائے تو اس کی حرارت سے پہلے تو یہ بلند و بالا پہاڑ جل کر سفید ہو جائیں اور پھر وہ روئی کے گالوں کی مانند فضا میں اڑنے لگیں۔ چار ہزار سینٹی گریڈ درجہ حرارت کیا ہوتا ہے، اس خوفناک طوفان آتش کے متعلق ہم صرف اندازہ ہی کر سکتے ہیں۔ چنانچہ خدا کی بخشی ہوئی زندگی، اس کی کائنات اور اس کی بیش بہا نعمتوں کو اس قیامت خیز المیے سے بچانا ہم سب کا انسانی فریضہ ہے۔ نسل انسانی کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ آج کا انسان اجتماعی طور پر کس قدر ذمہ داری کا ثبوت دیتا ہے۔
دنیا کے پانچ بڑوں نے ایٹمی اسلحے پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ یہی پانچوں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین بھی ہیں۔ انہوں نے اسی بہانے پوری دنیا کو اپنے چنگل میں پھنسا رکھا ہے۔ایٹمی اسلحے کے عدم پھیلائو سے ان کی مراد اپنا اپنا ایٹمی 
اسلحہ ختم کرنا نہیں بلکہ صرف نئے تجربات پر پابندی عائد کرنا ہے۔ خود انہیں کسی نئے تجربے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ ان کے پاس پہلے ہی سے جوہری اسلحے کے انبار موجود ہیں۔ پھر وہ کمپیوٹر پر 'ٹھنڈے ٹیسٹ‘ بھی کر سکتے ہیں، لہٰذا ایٹمی تجربات پر پابندی کے ذریعے دراصل وہ نئے ممالک کو ایٹمی کلب کا ممبر بننے سے روکنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی بالادستی اور 'بدمعاشی‘ قائم رہے اور وہ دنیا کو اپنے من پسند فیصلوں کی تال پر نچاتے رہیں۔ عراق اور اسرائیل کا موازنہ ہمارے سامنے ہے، جس جسارت پر عراق کو نمونۂ عبرت بنا کر رکھ دیا گیا، اسرائیل نے اس سے کئی گنا زیادہ فلسطینی اور شامی علاقوں پر ناجائز قبضہ جما رکھا ہے لیکن سلامتی کونسل اس کی ناز برداری میں مصروف نظر آتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
بھارت اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اب دنیا میں عملاً سات ایٹمی طاقتیں ہو گئی ہیں، پانچ بڑوں کے پاس ایٹمی دوڑ کو روکنے کا ایک ہی طریق کار باقی رہ گیا ہے کہ وہ اپنے گھر کی چار دیواری سے خیرات کا آغاز کریں۔ اگر وہ اپنے اپنے ایٹمی اسلحے کو تلف کرنے کی پالیسی کا اعلان کر دیں تو دوسرے ممالک کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے بھی روک سکتے ہیں۔ بصورت دیگر ایٹمی اسلحہ کی دوڑ جاری رہے گی اور مستقبل میں ایٹمی ملکوں کا عدد سات سے زائد بھی ہو سکتا ہے۔
سفید فام اقوام کے دہرے قوانین اور دہرے معیار کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 1996ء میں فرانس نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ایک سمندری جزیرے پر ایٹمی دھماکے کیے، لیکن آسٹریلیا یا دنیا کے کسی اور ملک نے بطور احتجاج پیرس سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلوایا اور نہ فرانس سے تجارتی تعلقات ہی منقطع کیے۔ آسٹریلیا دنیا کا دور افتادہ براعظم ہے جس کا دنیا کے کسی ملک کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں۔ اس کے باوجود اس نے امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر رکھا ہے، جس کے تحت امریکی ایٹمی آبدوزیں اور جنگی جہاز اس سمندر میں تیرتے پھرتے ہیں لیکن اسے ان ایٹمی ہتھیاروں پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ اگر اسے کچھ اعتراض ہوا تو وہ پاکستان ایسے غریب ملک پر جس کے پارلیمینٹری وفد کو آسٹریلیا سے باہر دھکیل دیا گیا۔ اگر آسٹریلیا واقعی ایٹمی اسلحے کا مخالف ہوتا تو وہ سارے ایٹمی ممالک کے سفیروں کو اپنے ملک سے باہر نکال دیتا۔
برصغیر کو ایٹمی تابکاری کے بادلوں سے مسموم کرنے کی ذمہ داری بڑی حد تک بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ اس نے 1974ء میں جس ایٹمی دوڑ کا آغاز کیا تھا، وہ مئی 1998ء میں خوفناک دھماکوں اور جوابی دھماکوں پر منتج ہوئی۔ دنیا کے برعکس برصغیر اب تک سرد جنگ کے شعلوں میں گھرا ہوا ہے۔ شدید بداعتمادی، خوف اور نفرت کا یہ عالم ہے کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر میزائل تان رکھے ہیں۔ ان میزائلوں کا رُخ بے گناہ شہری آبادیوں کی جانب بھی ہو سکتا ہے۔ ایک بٹن دبا اور سب کچھ بھسم ہوا۔ صرف خداوند کریم ہی ہمیں اس اجتماعی خودکشی سے بچا سکتا ہے، حالانکہ برصغیر کے 80فیصد عوام آج بھی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج ایسی بنیادی سہولیات کا تو خیر ذکر ہی کیا کہ یہاں تو 70فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ نتیجتاً دنیا بھر میں سب سے زیادہ پیٹ کی بیماریاں بھی ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں اور شرح اموات کے معاملے میں بھی ہم سب سے اوپر ہیں۔ اب ایٹم بم ان مسائل کو کس طرح 'حل‘ کرتا ہے اس کا جواب وقت ہی دے سکے گا۔
تاہم برصغیر کی موجودہ بارودی کیفیت اس بات کی متقاضی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان فوراً 'ہاٹ لائن‘ قائم ہونی چاہیے۔ نیز دونوں ملکوں کے مابین مسئلہ کشمیر کے کسی خوش گوار حل اور عدم جنگ کے معاہدے پر مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے۔ اس کارِ خیر میں طرفین کو دیر نہیں کرنی چاہیے اور اگر عالمی ضمیر ابھی زندہ ہے تو بڑی طاقتوں کو دونوں ملکوں کے مابین کشمکش کو بڑھانے یا دونوں پر دشنام طرازی کرنے کے بجائے انہیں مستقل امن اور مذاکرات کی طرف لانے کے لیے پہل کرنی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں