قومی اسمبلی کی آٹھ اور پنجاب اسمبلی کی تین نشستوں پر ضمنی الیکشن کا انتخابی عمل پورا ہو چکا‘ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج بھی آ چکے‘ جس میں تحریک انصاف کو برتری حاصل ہوئی ہے۔ قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں میں سے سات پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان امیدوار تھے‘ جبکہ ملتان کی ایک نشست پر شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہربانو امیدوار تھیں‘ عمران خان سات میں سے چھ نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں‘ وہ کراچی کی ایک نشست پاکستان پیپلزپارٹی کے حکیم بلوچ سے ہار گئے اسی طرح ملتان سے مہربانو یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی سے ہار گئیں۔ قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں میں سے چھ پر تحریک انصاف کو واضح برتری حاصل ہوئی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی تین نشستوں میں سے دو تحریک انصاف نے جیت لی ہیں‘ مسلم لیگ (ن) کو صرف ایک صوبائی نشست پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ضمنی الیکشن کے نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں نے تسلیم کر لیا ہے‘ صرف پشاور سے اے این پی کے غلام احمد بلور نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہیں ہرانے کیلئے تحریک انصاف نے صوبائی وسائل اور اثر و رسوخ استعمال کیا۔ غلام احمد بلور نے الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کا اعلان کیا ہے۔
ضمنی الیکشن میں عمران خان جیت گئے مگر کیا وہ قومی اسمبلی میں جائیں گے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے کیونکہ انہوں نے قومی اسمبلی میں جانے کیلئے الیکشن نہیں لڑا۔ انہوں نے مقتدر قوتوں کو پیغام دینے کیلئے سات حلقوں سے الیکشن میں حصہ لیا ہے تاکہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا راگ الاپ سکیں۔ اس ضمن میں غور طلب امر یہ ہے کہ اگر سات نشستوں پر خان صاحب امیدوار نہ ہوتے تو کیا تب بھی الیکشن کے نتائج یہی ہوتے؟ یہ بات خان صاحب بھی جانتے ہیں کہ ان کے علاوہ امیدواروں کی صورت میں الیکشن کے نتائج مختلف ہوتے‘ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سات حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد عام انتخابات کے مطالبے پر زور دیا جا سکے۔ بہرحال مخالفین تحریک انصاف کی کامیابی کو دوسرے پہلو سے پیش کر رہے ہیں‘ ان کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف اپنی سیٹوں کے دفاع میں ناکام رہی‘ تحریک انصاف کی دو قومی اسمبلی کی جبکہ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست کم ہو گئی‘ مزید یہ کہ ضمنی الیکشن میں کامیابی کے باوجود حکومت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ نمبر گیم میں تحریک انصاف اب بھی پیچھے ہے۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی کامیابی میں پی ڈی ایم کے بے جوڑ اتحاد کا اہم کردار ہے‘ کہنے کی حد تک تیرہ جماعتوں کا اتحاد ہے مگر کئی جماعتیں چونکہ ماضی میں سخت حریف رہ چکی ہیں اس لیے وہ ایک دوسرے کی سپورٹ نہیں کرتیں‘ پشاور میں اے این پی کے غلام احمد بلور کو دیگر جماعتوں کی طرف سے بس اس قدر سپورٹ حاصل تھی کہ انہوں نے اپنے امیدوار نہیں کھڑے کیے‘ انتخابی مہم میں کہیں بھی اتحاد دکھائی نہیں دیا‘اس کا مطلب یہ ہے کہ اے این پی نے اپنے بَل پر الیکشن لڑا ہے۔ اسی طرح مردان میں عمران خان کے مقابلے میں جے یو آئی کے مولانا محمد قاسم تھے‘ الیکشن سے پہلے ان کی جیت کی نویدسنائی جا رہی تھی‘ انہوں نے ووٹ بھی اچھے خاصے لیے مگر ہار گئے کیونکہ انہیں جے یو آئی کا ہی ووٹ پڑا‘ مسلم لیگ (ن) یا دیگر اتحادی جماعتوں نے ان کے حق میں کوئی مہم چلائی نہ ہی کسی دوسری جماعت کے ورکرز دکھائی دیے۔ چارسدہ میں ایمل ولی خان اور عمران خان مدمقابل تھے۔ یہاں بھی سخت مقابلہ دیکھنے کو ملا‘ ایمل ولی نے کافی جدوجہد کی‘ انہوں نے اچھے خاصے ووٹ لیے‘ مگر یہاں بھی دیگر حلقوں کی طرح انہیں دوسری پارٹیوں کی حمایت حاصل نہ تھی‘ لہٰذا وہ بھی ہار گئے‘ ضمنی الیکشن میں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد نہیں بن سکتا ہے۔خان صاحب کی چھ حلقوں میں کامیابی کے بعد یہ موضوع زیر بحث ہے کہ جب ایک نشست رکھنی اور باقی چھوڑ دینی ہیں تو پھر زیادہ نشستوں پر الیکشن کیوں لڑا جاتا ہے‘ یہ قومی خزانے کا ضیاع ہے اور جس حلقے کو جیت کے بعد چھوڑ دیا جائے گا‘ کیا وہاں کے عوام کے ساتھ زیادتی کے مترادف نہیں؟ جمہوریت کو اکثریت کی آواز کہا جاتا ہے اور اکثریت اسی صورت بنتی ہے جب مختلف حلقوں پر مختلف افراد الیکشن میں حصہ لیں۔ ورنہ ہر جماعت کا سربراہ اپنی جگہ پر مقبولیت رکھتا ہے اگر عمران خان کی طرح باقی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی آٹھ دس حلقوں پر الیکشن میں حصہ لینے کی ٹھان لی تو جمہوریت کا تصور ختم ہو کر رہ جائے گا۔ الیکشن کمیشن کو ایک سے زائد حلقوں پر الیکشن میں حصہ لینے کا راستہ بند کرنے کیلئے پارلیمنٹ سے قانون سازی کرانے پر زور دینا چاہئے، عجب تو یہ ہے کہ ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے‘ پاکستان کے علاوہ جہاں پر بڑی جمہوریتیں ہیں وہاں ایک سے زائد نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینے کی روایت نہیں پائی جاتی ہے۔ حالیہ ضمنی الیکشن اس حوالے سے منفرد انتخابات ہیں کہ خان صاحب اسمبلیوں میں نہ جانے کا اعلان کر چکے ہیں‘ اس کے باوجود عوام خان صاحب کو سپورٹ کر رہے ہیں‘ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگ خان صاحب کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ضمنی انتخابات میں اتحادی جماعتوں کی ناکامی کی اہم وجہ مسلم لیگ( ن) کی قیادت کا انتخابی مہم میں بھرپور حصہ نہ لینا ہے‘ کچھ روز پہلے تک لیگی قیادت اپنے کیسز میں الجھی رہی‘ جونہی کیسز میں ریلیف ملا تو مریم نواز لندن روانہ ہو گئیں‘ وزیراعظم شہباز شریف اور اہم لیگی رہنما حکومت میں ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے تھے اس کے برعکس خان صاحب نے بھر پور طریقے سے انتخابی مہم چلائی‘ ضمنی الیکشن میں چونکہ ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے اس لیے خان صاحب نے ووٹرز کو باہر نکالا‘ حتیٰ کہ پیپلزپارٹی جو حکومت کی اہم اتحادی ہے اس نے بھی نہایت عمدہ طریقے سے انتخابی مہم چلائی‘ ملتان اور کراچی میں پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے بل پر شخصی ووٹ کے ذریعے کامیابی حاصل کی ہے۔ ضمنی الیکشن میں ووٹرز کو باہر نکالنا آسان نہیں ہوتا۔جے یو آئی نے بھی ووٹرز کو باہر نکالنے کی بھرپور کوشش کی‘ اگر انہیں اتحادیوں کا کچھ ووٹ پڑ جاتا تو مردان کی جیت ممکنہ طور پر کنفرم تھی۔ مسلم لیگ (ن )نے مگر انتخابی مہم کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کے نتائج آج اس کے سامنے ہیں۔ مسلم لیگ( ن) نے اگر اپنی سیاسی ساکھ کو بچانا ہے تو میاں نواز شریف کا پاکستان میں ہونا ضروری ہے۔ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ نواز شریف کے بغیر مسلم لیگ (ن) حکومت تو کر سکتی ہے مگر الیکشن نہیں جیت سکتی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ عام انتخابات کی تھیوری ضمنی الیکشن سے بالکل مختلف ہوتی ہے پھر بھی حالیہ ضمنی انتخابات کے اثرات مرتب ہوں گے۔ خان صاحب پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ مقبولیت کا دعویٰ کریں گے اور بہت سے لوگوں کے پاس یقین کے سوا کوئی آپشن بھی نہیں ہے‘ اسی طرح خان صاحب فوری انتخابات کا مطالبہ کریں گے۔ اس سے قبل جولائی 2022 ء میں پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف نے 20 میں سے 15نشستیں جیت لی تھیں اور اسے ضمنی الیکشن میں دوسری بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے جس کے بعد تحریک انصاف کی مقبولیت کا تاثر گہرا ہو گیا ہے‘ ایسی صورتحال میں وفاقی حکومت بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو دھچکا لگا ہے۔ نظام کو بچانے کیلئے ضروری ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا خیال رکھا جائے کیونکہ عوام بظاہر تحریک انصاف کے ساتھ ہیں‘ اسی کو عوامی مینڈیٹ کہا جاتا ہے جس کا ہر مہذب معاشرے میں احترام کیا جاتا ہے‘ جب تحریک انصاف عوامی مینڈیٹ کو پامال کرنے کی کوشش کر رہی تھی تب بھی ہمارا مؤقف یہی تھا کہ مینڈیٹ کا احترام کیا جائے‘ آج اگر کوئی دوسری جماعت مینڈیٹ کو پامال کرنے کی کوشش کرے گی تو ہمارا مؤقف تبدیل نہ ہو گا۔