پشاور پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے پر ہر آنکھ اشکبار ہے‘ مگر جن کے پیارے بچھڑ گئے ان کا غم کوئی بھی نہ جانے۔ شہدا میں کئی ایک تو گھر کے واحد کفیل تھے۔ دھماکے میں شہدا کی تعداد سو سے زائد ہے‘ مطلب یہ کہ سو سے زائد خاندان متاثر ہوئے ہیں۔سینکڑوں بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ ایک زخمی پولیس اہلکار کے آخری الفاظ سینہ چیر دینے والے تھے کہ ''میں بچ تو جاؤں گا کیونکہ میں اپنی ماں کا لاڈلا ہوں‘‘ ۔ہر بچہ اپنے ماں باپ کا لاڈلا ہوتا ہے مگر اس کانسٹیبل کی ماں کو کیسے قرار آئے گا؟ کہا جا رہا ہے کہ شہدا کی جو تعداد پیش کی جا رہی ہے اصل تعداد اس سے زیادہ ہے کیونکہ عینی شاہدین کے مطابق دھماکے سے قبل مسجد میں تین سے چار سو افراد موجود تھے۔ہولناک دھماکے سے مسجد کی عمارت نمازیوں پر آ گری‘ جس سے نمازیوں کی غالب اکثریت ملبے تلے تب گئی تھی۔ حساس علاقے میں دھماکا‘ تین روز تک حملہ آور کی تفصیلات سامنے نہ آنا پشاور پولیس اور سکیورٹی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اگر مسجد کے قریب واقع گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے نہ لگے ہوتے تو کس پر یہ ذمہ داری ڈالتے؟ آئی جی خیبرپختونخوا کے مطابق حملہ آور پولیس کی وردی میں تھا اس لئے چیکنگ پر مامور عملے نے پیٹی بھائی سمجھتے ہوئے اسے چیک نہیں کیا۔ پولیس پر ہونے والے پے در پے حملے خطرے کا الارم تھے مگر پھر بھی کوتاہی کی گئی۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے خیبرپختونخوا کو انسداد دہشتگردی کی مد میں 417 ارب روپے جاری کئے گئے‘ یہ خطیر رقم کہاں خرچ ہوئی؟ جبکہ پولیس جدید ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ سے محروم ہے‘ صوبائی دارالحکومت پشاور کو سیف سٹی بنانے کیلئے کیمرے تک نہیں لگائے گئے تو صوبے کے دیگر شہروں کی صورتحال کیا ہو گی؟ پولیس دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود ہے اور قربانیاں بھی دے رہی ہے لیکن دہشتگردوں سے مقابلے کیلئے جو ٹیکنالوجی‘ اسلحہ اور جس طرح کی تربیت کی ضرورت ہے خیبرپختونخوا کی پولیس اس سے محروم ہے۔
شہر بے اماں پشاور کو دھماکوں کا شہر کہا جاتا ہے جہاں سب سے زیادہ دھماکے ہوئے۔سیاسی و سماجی شخصیات اور عام شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا‘ عوامی نیشنل پارٹی نے شاید سب سے زیادہ دہشتگردی کی سیاسی قیمت چکائی ہے۔ جولائی 2010ء میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین کے جوان سال بیٹے کو فائرنگ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا‘ دسمبر 2012ء میں کارنر میٹنگ سے گھر جاتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر بلور پر خودکش حملہ کیا گیا‘ جس میں بشیر بلور سمیت 9 افراد شہید ہو گئے۔ فروری 2014 ء میں قصہ خوانی بازار میں دھماکے سے آٹھ افراد شہید ہوئے‘ گزشتہ برس قصہ خوانی میں کوچہ رسالدار میں واقع امامیہ مسجد میں57افراد شہید ہوگئے۔ اے این پی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات ہارون بلور نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا‘ تاہم 10 جولائی 2018 ء کو پشاور کے علاقے یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران وہ بھی ایک خودکش حملے میں جاں بحق ہو گئے۔ یہ خودکش دھماکہ اس وقت پیش آیا جب ہارون بلور کارنر میٹنگ سے خطاب کیلئے مقررہ مقام پر داخل ہوئے۔ اس دھماکے میں 20افراد جاں بحق اور تقریباً 48 افراد زخمی ہوئے۔27دسمبر 2007 ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں سیاسی جلسے کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو پر گولیاں چلائی گئیں اور فائرنگ کے بعد خودکش حملہ بھی کیا گیا۔ اس دھماکے میں بینظیر بھٹو سمیت 20سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ اس سے قبل 18 اکتوبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کی جلاوطنی سے وطن واپسی کے بعد خودکش دھماکہ ہوا جس میں بینظیر بھٹو محفوظ رہی تھیں تاہم کم از کم 130 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ 400سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ستمبر 2008ء کو اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل پر ایک ٹرک کے ذریعے دھماکہ کیا گیا جس میں غیر ملکیوں سمیت چالیس سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ 16دسمبر 2014ء کو سانحہ آرمی پبلک سکول پیش آیا‘ ٹی ٹی پی کے انتہاپسندوں نے 140طلبہ اور ان کے اساتذہ کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سانحہ اے پی ایس نے سیاسی و عسکری قیادت کو ایک پیج پر جمع کر دیا اور انتہاپسندوں سے نمٹنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا‘ انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کیا گیا‘ جس کے بعد دہشتگردی کی شدت پر قابو پا لیا گیا۔
پشاور پولیس لائنز پر ہونے والا دھماکا بلاشبہ سانحہ اے پی ایس کی طرز کا تھا مگر پی ٹی آئی نے ایک مذمتی بیان کو کافی سمجھا۔پی ٹی آئی کی مقامی قیادت بھی مثاثرین کے پاس جانے سے حیل و حجت کا شکار ہے۔ تحریک انصاف قیادت کا رویہ ان خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ سیاسی نقصان سے بچنے کیلئے پی ٹی آئی انتہاپسندوں کے خلاف کھل کر اظہار کرنے سے گریزاں ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پشاور سانحہ کے بعد جب یہ سوال اٹھایا کہ دہشتگردی ختم ہو گئی تھی ‘اسے واپس کون لایا‘ کس نے کہا تھا یہ پاکستان کے دوست ہیں‘ کس نے کہا تھا کہ ان لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور یہ ملک کی ترقی میں حصہ لیں گے؟ وزیراعظم شہبازشریف نے اگرچہ کسی کا نام نہیں لیا تھا تاہم ان سوالات پر خان صاحب کی بے چینی عیاں تھی‘ انہوں نے فوری طور پر جواباً ویڈیو خطاب کیا مگر وزیر اعظم کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی تفصیلات بتانے لگے۔ خان صاحب نائن الیون‘ پرویز مشرف اور بعد کے حالات کو بیان کرنے لگے اور خطاب کے آخر میں خود ہی اقرار بھی کر گئے کہ انہوں نے پاکستان کے مفاد میں طالبان کیلئے نرم رویہ اختیار کیا تھا۔ مطلب یہ کہ تحریک انصاف کے حوالے سے جو کہا جا رہا ہے کہ سیاسی نقصان سے بچنے کیلئے وہ طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے وہ مبنی بر حق ہے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی نے طالبان کے حوالے سے دانستہ طور پر پالیسی اختیار کر رکھی ہے تاکہ جس طرح 2013ء کی انتخابی مہم میں پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے اس کی بھاری قیمت چکائی‘ اسے یہ قیمت نہ چکانی پڑے۔ خان صاحب جن طالبان کیلئے نرم رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ان میں پاکستان دھڑا خودکش دھماکے کر رہا ہے جبکہ افغان طالبان پاکستان میں ہونے والے دھماکوں کو اندرونی مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے سانحہ پشاور کے بعد کہا ہے کہ پاکستانی وزرا اپنا بوجھ دوسروں پر نہ ڈالیں۔
سانحہ پشاور کے بعد وزیراعظم نے ہنگامی اقدامات اٹھائے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف وزرا اور آرمی چیف کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور اجلاس طلب کیا جبکہ جمعے کے روزپشاور گورنر ہاؤس میں اپیکس کمیٹی کا اجلاس سات گھنٹے تک جاری رہا جس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے بریفنگ دی‘ جس میں دہشتگردوں کو نشانِ عبرت بنانے کے عزائم کا اظہار کیا گیا اور شہدا کیلئے فی کس بیس لاکھ جبکہ زخمیوں کیلئے فی کس پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا گیا ۔ دہشتگردی کے چیلنجز کے پیش نظر آل پارٹیز کانفرنس طلب کی گئی ہے‘ جس میں عمران خان کو بھی مدعو کیا گیا ہے‘ موجودہ حالات میں اے پی سی خاص اہمیت کی حامل ہے۔تحریک انصاف کو اس میں شرکت یقینی بنانی چاہئے کیونکہ یہ ایسا موقع ہے کہ ایک طرف سکیورٹی و معاشی چیلنجز ہیں تو دوسری طرف عام انتخابات کا انعقاد قریب ہے۔ عام انتخابات میں جانے سے پہلے سکیورٹی بندوبست اور اس مقصد کیلئے سیاسی و عسکری قیادت میں اتفاق رائے بہت ضروری ہے۔