انگلستان سے براستہ آئرلینڈ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے مقام سان فرانسسکو پہنچے جہاں ہمارا قیام ہمدمِ دیرینہ استاذ قیصر شاہ کے ہاں رہا۔ گھر کی ہر شے سے خاتونِ خانہ کی نفاست عیاں تھی۔ یہ فیملی بڑے شہروں کے جھمیلوں سے دور چھوٹے سے قصبے سولیڈاڈ میں مقیم ہے۔ تعلیم کے مقدس پیشہ سے وابستہ قیصر شاہ کے ہاں جب بھی قیام ہوا‘ کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ پورا گھرانہ خلوص اور مہمان نوازی کی جیتی جاگتی تصویر ہے‘ وطن سے محبت ایسی کہ ذکر پر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ سولیڈاڈ کیلیفورنیا کا قابلِ ذکر سیاحتی مقام ہے جو انگوروں کی کاشت اور اپنی زرخیزی میں شہرت رکھتا ہے۔ سولیڈاڈ کو امریکہ کا زرعی مرکز بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سولیڈاڈ کو جان سٹین بیک نے 1937ء میں اپنے ناول Of Mice and Men میں ایک پس منظر کے طور پر استعمال کیا۔ یہ وادیٔ سیلیناس کا جدید قصبہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے محاورتاً Salad Bowl of the world کا نام دیا گیا ہے یعنی پوری دنیا یہاں سے اپنی سبزیوں اور پھلوں کی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔ سولیڈاڈ کی زراعت کو پرائم فارم لینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ پرائم فارم لینڈ سولیڈاد کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے‘ اس لیے مقامی سطح پر زراعت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس قصبے میں قیام کے دوران اندازہ ہوا کہ مقامی افراد نے زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرکے خوشحالی حاصل کی ہے۔ خوراک کی ضروریات مقامی سطح پر پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں اس قصبے کا اہم کردار ہے۔
دوسری طرف ہم کہنے کی حد تک ایک زرعی ملک ہیں مگر اپنی ضرورت کا آٹا پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس قصبے میں رہ کر دوسرا مشاہدہ یہ ہوا کہ یہاں کے کاشتکار سب سے زیادہ خوشحال ہیں‘ وہ صرف کاشتکاری تک محدود نہیں رہے بلکہ یہاں کاشتکاری اور فوڈ پروسیسنگ ایک ساتھ چلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں کے کاشتکاروں کو معقول معاوضہ ملتا ہے۔ وہ ایک فصل سے کئی طرح کی آمدن حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کی زمینیں بھی پیدواری استعداد اور زرخیزی کے لحاظ سے کم نہیں ہیں لیکن زراعت کے جدید طریقوں کا فقدان‘ فوڈ پروسیسنگ کی کمی کے باعث ہمارے کاشتکار محنت کے باوجود معقول معاوضے سے محروم رہتے ہیں۔ پاکستان کا کاشتکار احتجاج پر مجبور ہے تو اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک ریاست کی طرف سے اسے سہولتیں مہیا نہیں جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب فصل کی پیدوار زیادہ ہوتی ہے تو آڑھتی ریٹس گرا دیتے ہیں۔ سولیڈاڈ میں کاشت کاروں کو ریاست کی طرف سے جدید مشینری‘ ریسرچ کیلئے تجربہ گاہیں اور فصل کو فروخت کرنے کیلئے ہر ممکن بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس بات کا بھی شدت سے اندازہ ہوا کہ یہاں کے ادارے پالیسی سازی میں مصروف ہیں‘ کاروبار اور زراعت میں ان کا عمل دخل صرف اس حد تک ہے کہ شہریوں کو مراعات اور سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ اس حوالے سے جب ہم پاکستان کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے پالیسی سازی کے بجائے ہر وہ کام کر رہے ہیں جو ان کے فرائضِ منصبی میں شامل نہیں ہے۔ دیارِ غیر میں مقیم دوستوں سے ملتے ہوئے اس بات کا شدت سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیرملکی پاکستانیوں کا دل وطن کی محبت میں ہم سے بھی زیادہ دھڑکتا ہے۔ ہر اوور سیز پاکستانی ملک کے مستقبل بارے فکر مند اور پریشان ہے۔ وہ پوچھنے لگے ہیں کہ قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان کا معاشی بحران ختم کیوں نہیں ہو رہا ہے؟
امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ مہنگائی سمیت دیگر مسائل میں اضافہ ہوا ہے تاہم ان کی فی کس آمدن کے حساب سے ان کیلئے حالات کا مقابلہ کرنا قدرِ آسان ہے۔ ہمارے ہاں پالیسی ساز روایتی طرزِ سیاست کو ترک کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ہم آزادی کے پچھتر برسوں بعد بھی حالات کا رونا رو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں مگر ان کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران انہوں نے متعدد بیانیے تبدیل کیے ہیں۔ اپریل میں انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا تو انہوں نے مؤقف اپنایا کہ انہیں ہٹانے کی سازش امریکہ میں کی گئی۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک سائفر بھی لہرایا۔ حیرت ہے ان کے حامیوں نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔ بعد ازاں یہ سائفر کہانی سپریم کورٹ سمیت ہر فورم پر مسترد ہو چکی‘ لیکن خان صاحب کے حامی مُصر رہے کہ واقعی امریکہ کی ایما پر تحریک انصاف کی حکومت ختم کی گئی تھی۔ تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے خان صاحب کے بیانیے کو من و عن تسلیم کر لینے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف میں پارٹی سطح پر کتنی جمہوریت ہے؟ تحریک انصاف پر ہی کیا موقوف‘ سبھی سیاسی جماعتوں کی صورتحال یکساں ہے۔ کارکنان اپنے لیڈر کے خلاف ایک حرف سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اقتدار چلے جانے کے بعد ہر سٹیج پر خان صاحب امریکہ کے خلاف بولتے رہے ہیں‘ یہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ قوم کے ذہنوں سے وہ باتیں محو نہیں ہوئی تھیں کہ خان صاحب نے دبے لفظوں میں کہنا شروع کیا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو امریکہ کے ساتھ تعلقات کے خواہاں ہیں۔ اس سے اندازہ ہونے لگا کہ خان صاحب نے سائفر کی بنیاد پر امریکہ کے حوالے سے جو سخت مؤقف اختیار کر رکھا تھا‘ وہ تبدیل ہو گیا ہے تاہم اب انہوں نے برسرِعام کہنا شروع کر دیا ہے کہ ان کی حکومت کے خاتمے کے اصل کردار قمر جاوید باجوہ صاحب تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب باجوہ صاحب بھی خاموش نہیں رہیں گے۔معروف ٹی وی میزبان جاوید چودھری نے سابق آرمی چیف کے حوالے سے جو کہا ہے اس سے خان صاحب کا مؤقف کمزور ہوگا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا خان صاحب اس بیانیے کے ساتھ الیکشن میں جائیں گے‘ اگر اسے درست مان لیا جائے تو کیا تحریک انصاف اس بیانیے سے سیاسی مقاصد حاصل کر سکے گی؟ ہماری دانست کے مطابق اگر خان صاحب اس بیانیے کے ساتھ الیکشن میں جاتے ہیں تو انہیں کچھ حاصل وصول نہیں ہو گا‘ کیونکہ مسلم لیگ (ن) 2018ء کے انتخابات میں ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ اپنا چکی ہے مگر کیا حاصل ہوا؟ مسلم لیگ (ن) اگر 2018ء کے الیکشن میں اقتدار سے باہر ہوئی تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ سخت گیر بیانیہ بھی تھا۔
سولیڈاڈ میں چند روز کے قیام کے دوران یہ اندازہ بھی ہوا کہ یہاں عام شہریوں کو سیاسی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہر شخص اپنے روزگار کی فکر میں مصروفِ عمل دکھائی دیا۔ سیاسی مباحثے بھی دیکھنے کو نہیں ملے حالانکہ یہ لوگ معاشی طور پر مستحکم ہیں۔ اُن میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ سیاست ان کا کام نہیں ہے۔ دوسری طرف ہم گوناگوں مسائل میں الجھے ہوئے ہیں‘ معاشی بحران کے خاتمے‘ عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے سیاسی مباحثے جاری ہیں۔ اہلِ سیاست باہم گتھم گتھا ہیں‘ عوام اہلِ سیاست سے کسی مستحکم پالیسی کا مطالبہ کرنے کے بجائے کبھی ایک جماعت سے توقع لگاتے ہیں تو کبھی دوسری جماعت سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ یہ سطور تحریر کرتے ہوئے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ امریکہ کا ایک چھوٹا سا قصبہ خوشحالی کی علامت بن سکتا ہے‘ وہاں کے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ حالانکہ ہماری زمینیں بھی زرخیزی میں کم نہیں ہیں۔ اہلِ سیاست کو بلاوجہ کی مخاصمت کے بجائے اس بارے میں سوچنا چاہیے۔