کسی بھی جمہوری ریاست میں آئین بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ آئین کے بغیر جمہوری ریاست کا تصور ادھورا ہے۔ امورِ سلطنت اور انصاف کا پورا نظام آئین کی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ آئین اداروں کی حدود کا بھی تعین کرتا ہے‘ اسی لیے جمہوری ریاستوں میں آئین پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پچھتر برس گزرجانے کے بعد بھی ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہاں آئین پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا ؟ کہنے کو ہم 1947ء میں آزاد ہوئے مگر آزادی کے نو برس بعد تک ملک میں برطانوی قانون سے کام چلایا جاتا رہا۔ 1956ء میں پہلا ریاستی دستور تشکیل دیا گیا مگر ٹھیک دو برس بعد ایوب خان نے اسے ختم کر دیا اور اقتدار پر قابض ہو گئے۔ اقتدار میں چار برس گزارنے کے بعد ایوب خان نے 1962ء میں ایک خود ساختہ آئین نافذ کرنے کی کوشش کی تاہم عوام میں اس آئین کو پذیرائی نہ مل سکی۔ ایوب خان کے تیارہ کردہ آئین میں چونکہ عوام کے حقوق کا خیال رکھنے کے بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے کو ترجیح دی گئی تھی‘ اس لیے عوام اس کے خلاف ڈٹ گئے۔ اس قدر انتشار پھیلا کہ بالآخر ایوب خان کو اپنا بنایا ہوا آئین توڑنا پڑا۔ یحییٰ خان کے پاس اقتدار آ گیا تو وہ بھی اپنے پیشرو ایوب خان کے نقش قدم پر چل پڑے اور عبوری آئین سے کام چلانے کی کوشش کی۔ متفقہ آئین نہ ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جمہوری ملک ہونے کے باوجود آزادی کے 23 برس بعد تک انتخابات نہ سکے۔ 1970ء میں پہلی بار ملک میں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کا بھی ملک کو نقصان ہوا کیونکہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کے اختلافات اس قدر بڑھے کہ ملک دو ٹکڑے ہو گیا لیکن 1973ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو ملک کا پہلا متفقہ آئین وجود میں آیا۔ اگلے روز پاکستان پیپلز پارٹی نے اسی آئین کے پچاس برس مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی منائی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی 1973ء کا آئین بنانے پر پورا پورا کریڈٹ لیتی ہے اور جب کبھی آئین کی بالادستی کی بات آتی ہے تو وہ سب سے پہلے صدا بلند کرتی ہے۔ اس موقع پر چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کو آئین کا بانی قرار دیتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کچھ باتیں ایسی بھی کہیں جو مصلحت کے پیش نظر بالعموم ذکر نہیں کی جاتیں۔ انہوں نے کہا کہ جس دن اٹھارہویں ترمیم منظور ہوئی تھی تو ایک اخبار نے سرخی لگائی تھی کہ پاکستان کے سیاستدان بالآخر میچور ہو گئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے 2008ء سے 2013ء کے ٹنیور کا بالخصوص تذکرہ کیا کہ یہ پہلا دور تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے جو منصوبے شروع کیے‘ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نہ صرف انہیں جاری رکھا بلکہ وہ منصوبے پورے بھی ہوئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے جس دور کو بطور حوالہ پیش کیا ہے‘ وہ جمہوریت کا حقیقی چہرہ ہے۔ جمہوریت کے ثمرات سے اسی صورت مستفید ہوا جا سکتا ہے جب جمہوریت میں تسلسل ہو اور آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے منصوبوں کو جاری رکھے۔ پاکستان کے علاوہ جن ممالک میں جمہوریت رائج ہے‘ وہاں پر حکومتوں کے آنے جانے سے ترقیاتی منصوبوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے برعکس پاکستان میں جب بھی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو آنے والی حکومت اپنے ایجنڈے کے مطابق نئے منصوبے شروع کرتی ہے۔ 2013ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پانچ برسوں میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) پر فرینڈلی اپوزیشن کے الزام لگتے رہے مگر اب جا کر معلوم ہو رہا ہے کہ جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے ضروری تھا کہ سیاسی جماعتیں عدم استحکام کی فضا قائم نہ ہونے دیتیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اٹھارہویں آئینی ترمیم سمیت کچھ ایسی قانونی سازی ہو گئی تھی جس کا فائدہ اگلے برسوں میں موصول ہونا تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں جب اگلی حکومت مسلم لیگ (ن) کی قائم ہوئی تو جمہوریت کے ثمرات موصول ہونا شروع ہو گئے۔ توانائی بحران کا خاتمہ‘ موٹرویز میں توسیع اور کئی دیگر میگا پروجیکٹس کا جال بچھا دیا گیا۔ معیشت کا پہیہ چل پڑا اور سٹاک مارکیٹ بلندی پر پہنچ گئی۔ اسی دور میں آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیا گیا۔ اس کامیابی کے پیچھے دراصل جمہوریت کا تسلسل اور سیاسی استحکام تھا۔ بدقسمتی سے یہ سیاسی استحکام برقرار نہ رہ سکا اور 2017ء کے بعد جو کشیدگی پیدا ہوئی‘ وہ آج تک کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیابی حاصل ہوئی مگر خان صاحب نے اپنے ایجنڈے کے مطابق صفر سے آغاز کیا۔ معیشت کو اپنی مرضی سے ترتیب دیا گیا۔ پہلے سے جاری منصوبوں کو بند کر دیا گیا۔ عوام سے جس خوشحالی کا وعدہ کیا گیا تھا‘ وہ حاصل ہونا تو درکنار الٹا مسائل کا پہاڑ چھوڑ کر رخصت ہوئے۔ خان صاحب کو تین برس حکومت کرنے کے بعد اچانک خیال آیا کہ ان کے پاس اختیارات کم ہیں۔ وزیراعظم ہونے کے باوجود کسی بھی قانون سازی کے لیے ایوان سے منظوری لینا ضروری ہوتا ہے‘ سو انہوں نے صدارتی نظام کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ ظاہر ہے اس خواہش کی تکمیل کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت تھی۔ سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل نہ ہونے کے باعث یہ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔ خان صاحب نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر طرح سے کوشش کی اور بقول بلاول بھٹو زرداری آئین کو ''ری رائٹ‘‘ کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے احتسابی عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ مقدس گائے کا سلسلہ ختم کرکے نیب قانون سب پر لاگو ہونا چاہیے۔ چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے جس بحث کا آغاز کر دیا ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے یہ بحث بہت دور تک جائے گی کیونکہ ہر دور میں اہلِ سیاست کو کڑے احتسابی عمل سے گزارا گیا ہے جبکہ دیگر حلقوں کو کبھی اس طرح کے احتساب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے آئین کی بالادستی کا مطالبہ ایک ایسے وقت سامنے آ رہا ہے جب الیکشن سر پر ہیں۔ انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں ہے جبکہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار پاکستان تحریک انصاف جیل بھرو تحریک شروع کر چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خان صاحب کے دیگر بیانیوں کی طرح جیل بھرو تحریک کا بیانیہ بھی ناکام ثابت ہوگا۔ ابھی چند روز ہی گزرے ہیں کہ تحریک انصاف کے قائدین نے دہائی دینی شروع کر دی ہے کہ انہیں غیرقانونی طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتاری جب خود دی ہے تو غیرقانونی کیسے ہو گئی۔ خان صاحب خود بھی گرفتاری سے بچنے کی جدو جہد میں ہیں۔شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی سمیت متعدد رہنماؤں کی فیملی نے رہائی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ باقی رہ جائیں گے کارکنان‘ جن سے قربانی مانگی جا رہی ہے۔ بھلا کوئی بھی تحریک کیسے کامیاب ہو سکتی ہے جس میں صف اوّل کی قیادت شامل نہ ہو؟ ایک طرف جیل بھرو تحریک جاری ہے جبکہ دوسری طرف آئین کی بالادستی کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے۔ یہ سلسلہ کہاں تک چلتا ہے اور اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ البتہ یہ واضح ہے کہ مقدس صرف آئین ہے۔ جو بھی آئین کی خلاف ورزی کرے اس کا کڑا احتساب ہونا چاہیے‘ یہی آئین کی روح ہے۔ اگر ہم آئین کی روح کے خلاف جانے کی کوشش کریں گے تو پورا ریاستی نظام دھڑام سے نیچے آ گرے گا۔ سیاسی عمل کو مضبوط کرنا ہے تو آئین پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔