"RS" (space) message & send to 7575

پاکستان کا جمہوری و معاشی مستقبل؟

آزادی کے 75برس بعد بھی اگر معمولی نوعیت کے واقعات پیش آنے سے جمہوری مستقبل پر سوال اٹھنا شروع ہو جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ جس جمہوریت کا ہم راگ الاپ رہے ہیں‘ وہ ابھی بہت کمزور ہے۔ جمہوری اقدار کو مضبوط ہونے میں مزید کتنا وقت لگے گا اور ملک میں حقیقی جمہوریت کب بحال ہو گی‘ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہ ہو۔ نو مئی کے پُرتشدد واقعات کے بعد کچھ حلقوں کی جانب سے ان تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں۔ یہاں مختلف ادوار میں مختلف تحریک اٹھیں اور حالات کی گرد میں بیٹھ کر تاریخ کا حصہ بن گئیں مگر جمہوری نظام بہر صورت قائم ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں پائیدار جمہوریت قائم ہے وہاں بھی کئی برسوں کی محنت اور کٹھن حالات کے بعد جمہوری اقدار رائج ہوئیں‘ ہمارے ہاں مگر جمہوری اقدار کے دعویدار ان کٹھن راستوں پر چلے بغیر جمہوریت کو مضبوط ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں چار مارشل لا لگ چکے ہے۔ پہلے مارشل لا سے پی ٹی آئی کے دورِ حکومت تک غیرجمہوری مداخلت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ جمہوری معاملات میں مداخلت میں بتدریج کمی آئی ہے۔ اسکندر مرزا‘ ایوب خان ‘یحییٰ خان اور ضیاء الحق کے ادوار میں حکومت کا مکمل کنٹرول غیرجمہوری قوتوں کے پاس تھا؛ البتہ پرویز مشرف کو مارشل لا لگا کر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا سے اس قدر تنقید ہوئی کہ انہیں دکھاوے کیلئے جمہوری سسٹم بحال کرنا پڑا۔ میثاقِ جمہوریت کے نتیجے میں دوبارہ جمہوریت بحال ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے اپنی جمہوری مدت مکمل کی تاہم کسی نہ کسی حوالے سے غیرجمہوری مداخلت بھی جاری رہی۔ منتخب وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف عدالتوں سے نااہلی کے بعد اقتدار سے باہر ہوئے۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو یہ مداخلت بڑھ گئی‘ چیئرمین پی ٹی آئی نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد اس کا اعتراف بھی کیا۔ غیرجمہوری قوتوں کی مداخلت اور تمام تر خدشات کے باوجود ہم جمہوری سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسی کو جمہوریت کا ارتقائی سفر کہا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر جمہوری اقدار کا مضبوط ہونا مشکل ہے۔
جمہوری معاشروں میں عوامی نمائندوں کے علاوہ اقتدار کے دوسرے شراکت داروں کیلئے یہ گنجائش نہیں ہے کہ وہ امورِ سلطنت کو چلانے کا دعویٰ کر سکیں‘ اس لیے شدید خواہش کے باوجود اقتدار سے دوری کا اعلان کیا جاتا ہے کیونکہ وہ چیز جس کا اخلاقی جواز نہیں ہے‘ جو کوئی اعلان نہیں کر سکتا تو ایسا نظام طویل عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتا۔ غیرجمہوری نظام اس لیے نہیں چل سکتا کیونکہ اس کے پاس اخلاقی جواز اور بنیاد موجود نہیں ہے۔ اخلاقی بنیادیں صرف جمہوریت اور پارلیمنٹ کیلئے ہیں جس میں آئین سپریم ہے کیونکہ یہ آئین پارلیمان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ مارشل لا ادوار میں آئین سے جو کھلواڑ کیا گیا‘ پارلیمان اس میں ترمیم کر رہی ہے۔ آئین میں ترامیم کا عمل جاری رہنا چاہیے۔پارلیمان نے چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیارات پر قانون میں ترمیم کی ہے تو اس پر اعتراض کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ تاحیات نااہلی کے معاملے کو بھی اسی نظر سے دیکھنا چاہئے‘ اگر آج اس کا فائدہ میاں نواز شریف کو ہوگا تو کل کسی اور شخصیت کو ہو سکتا ہے۔ جس طرح نیب ترامیم کا فوری فائدہ چیئرمین پی ٹی آئی کو ہوا۔ تاحیات نااہلی کے متعلق خود سپریم کورٹ کے ججز کے ریمارکس آ چکے ہیں کہ یہ کالا قانون ہے چونکہ مدت کے متعلق کوئی قانون سازی پہلے نہیں کی گئی تھی اس لیے یہ مناسب اور اہم فیصلہ ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اس موقع پر ترمیم کیوں کی جا رہی ہے تو جواب یہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو ٹھیک کرنا پارلیمان کا کام ہے اور آئین کے مطابق قانون سازی پارلیمان کا کام ہے‘ آئین میں کسی جرم کی سزا مقرر نہ ہو تو اس جرم کی سزا پارلیمان ایکٹ کے ذریعے سے ہی طے ہوتی ہے‘ یہ ایک ارتقائی عمل ہے اور اسی طرح سے آئین اور قانون کی حکمرانی کا سفر طے ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی غلطیوں کا اعتراف کرکے آگے بڑھنا چاہیے‘ وہ ''کچھ اقرار کچھ انکار‘‘ کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ جب تک وہ جیل میں نہیں جائیں گے تب تک میثاقِ جمہوریت کی طرف نہیں آئیں گے۔
بظاہر پاکستان میں سیاسی لڑائی کے تانے بانے کہیں نہ کہیں چین اور امریکی معاشی لڑائی سے جا ملتے ہیں۔ 2014ء میں جب چیئرمین پی ٹی آئی کنٹینر پر سراپا احتجاج تھے تو انہی دنوں چینی صدر کا دورۂ پاکستان طے تھا لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کے احتجاج اور اسلام آباد میں دھرنے کی وجہ سے یہ دورہ ملتوی ہو گیا۔ اس دوران چیئرمین پی ٹی آئی کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر وہ کنٹینر سے نیچے نہ اترے اور جب وہ اقتدار میں آئے تو چینی کمپنیوں پہ کرپشن کے چارجز لگا کے سپیشل آڈٹ کروایا گیا ۔ چینیوں کے خلاف یہ مہم بھی چلائی گئی کہ وہ پاکستانی عورتوں کو شادی کرکے ساتھ لے جا رہے ہیں۔تجارت کے ایک وزیر اور امریکہ سے درآمد شدہ ایک ایڈوائزر کھل کر سی پیک کی مخالفت کرتے رہے۔ جنرل (ر)عاصم سلیم باجوہ‘ جو سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین مقرر کیے گئے تھے‘ سے چین کی ناراضی رہی مگر چیئرمین پی ٹی آئی نے اُن سے تب استعفیٰ لیا جب داسو حملے میں چینی انجینئرز مارے گئے۔اب چین سے تعلقات اچھے ہیں۔ چین پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کر چکا ہے وہ قطعاً نہیں چاہے گا کہ پاکستان معاشی بحران کا شکار ہو ‘ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے بعد بھی پیکیج بحال نہ ہونا ہمارے لیے مشکلات کا باعث بن رہا تھا مگر چین نے بروقت اور بغیر کسی تردد کے ہماری مدد کی‘ مشکل صورتحال میں چین کی طرف سے ایک ارب ڈالر کی ری فنڈ کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین سے دوستی وہ واحد نکتہ ہے جس پہ دائیں بائیں بازو کی جمہوری جماعتوں اور آمرانہ حکومتوں کا مکمل اتفاق رہا ہے۔ چین سے دوستی میں پاکستانی عوام بھی جذباتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں چینی کمپنیوں پہ رشوت دینے کے الزامات بھی لگے اور وزرا نے چین کے خلاف بیانات دیے۔ رزاق داؤد‘ شہباز گل اس میں پیش پیش تھے۔ پی ٹی آئی حکومت میں کئی ''خاموش مجاہد‘‘ امریکی مفادات کیلئے ''متحرک‘‘ تھے جنہوں نے چینی مفادات کو شدید نقصان پہنچایا۔ موجودہ حکومت نے چین کے ساتھ اعتماد کی فضا قائم کی ہے اور چینی منصوبوں پر برق رفتاری سے کام جاری ہے۔ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ 2030ء تک گوادر بندر گاہ آپریشنل ہو جائے گی۔ ہم نے اس منصوبے کی ہر لحاظ سے حفاظت کرنی ہے کیونکہ سیاسی مستقبل اسی صورت تابناک ہوگا جب معاشی مستقبل پر ہماری نظر ہوگی۔ یہ تبھی ممکن ہو گا جب ملک میں جمہوریت کا تسلسل ہو گا‘ چاہے جمہوریت کمزورہی کیوں نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں