آئی ایم ایف توسیعی پروگرام ختم ہونے سے چند لمحات پہلے پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کے درمیان نوماہ کیلئے نیا معاہدہ طے پا گیا ہے۔اسے سٹینڈ بائی معاہدے کا نام دیا گیاہے۔آٹھ ماہ کی مسلسل جدوجہد اور وزیراعظم شہباز شریف کی ذاتی دلچسپی کے بعد یہ معاہدہ ممکن ہو پایا ورنہ 30 جون کی تاریخ گزرنے کے بعد ہماری مالی مشکلات میں اضافہ ہو جانا تھا۔ وزیر خزانہ کے بقول ہم متبادل پلان کیلئے تیار تھے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے چند روز قبل کہا تھا کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہوا تو قوم کو اعتماد میں لیں گے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے میں چین کے کلیدی کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چین نے پانچ ارب ڈالر کے کمرشل قرضے فراہم کئے‘ انہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض دلانے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا بالخصوص ذکر کیا کہ یہ ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ قومی سطح کے لیڈر کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کر کریڈٹ دے۔اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے برملا کہا کہ یہ کوئی لمحۂ فخریہ نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔ واقعی جو قومیں قرضے لینے پر خوش ہوتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتیں‘ ہم نے کس طرح گڑ گڑا کر آئی ایم ایف پروگرام حاصل کیا ہے یہ محتاج ِبیان نہیں‘ شاید ایسے ہی موقعے کیلئے منشی انوار حسین تسلیم نے کہا تھا ؎
یوں پکارے ہیں مجھے کوچۂ جاناں والے
ادھر آ بے‘ ابے او چاک گریباں والے
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق 12 جولائی کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ میں معاہدے کی باضابطہ منظوری کا امکان ہے‘ اس مختصر مدت کے معاہدے سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور بیرونی ادائیگیوں میں آسانی ہو گی‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی تین ارب ڈالر موصول ہو جائیں گے‘ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا عوامی مشکلات بھی کم ہوں گی؟ کیونکہ آئی ایم ایف ترمیم شدہ بجٹ پر عمل درآمد چاہتا ہے‘ جس میں نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ باضابطہ معاہدے کے بعد ڈالر کی قیمت میں بیس روپے تک کمی ہو سکتی ہے مگر فوری طور پر عوام کو ریلیف حاصل نہیں ہو گا بلکہ تیل اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہو گا کیونکہ یہ واضح ہے کہ ہم نے عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کیا ہے اور قرض کے عوض اس کی ہر شرط کو پیشگی تسلیم کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی اکثر شرائط پاکستان کی معاشی بحالی کی بجائے فنڈز ریکوری سے متعلق ہیں‘ اسے عوامی مشکلات اور قوتِ خرید سے کوئی سروکار نہیں ۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ وہ عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو ملکوں کے معاشی معاملات‘ زرمبادلہ کے ذخائر اور بیرونی قرضہ جات پر نظر رکھتا ہے اور معاشی خسارے پر قابو پانے کیلئے قرض فراہم کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کی حیثیت ایک بینک کی ہے جہاں مختلف ممالک پیسے رکھواتے اور قرض لیتے ہیں۔1944ء کو آئی ایم ایف کا قیام عمل میں آیا اُس وقت رکن ممالک کی تعداد 44 تھی‘ اب یہ 185 ہو چکی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی آئی ایم ایف پر اجارہ داری ہے‘ فنڈز کی معاشی پالیسیوں میں بڑے ممالک کے اثر رسوخ کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بڑے ممالک کی اجارہ داری کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس وقت پاکستان کا مجموعی قرض 140ارب ڈالر ہے‘ امریکہ کے مقابلے میں پاکستانی قرض آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں کیونکہ امریکہ کے قرضوں کا حجم 31ٹریلین سے متجاوز ہے‘امریکی قرضوں کا یہ حجم اس کے سالانہ جی ڈی پی کے سو فیصد سے بڑھ چکا ہے‘ اس کے باوجود امریکہ کو کسی قسم کی مالی مشکلات کا سامنا ہے نہ ہی معاشی پابندیاں عائد ہیں۔ پاکستان اور امریکی معیشت کا کوئی موازنہ نہیں‘ یہ اعداد و شمار پیش کرنے کا مقصد محض یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر کڑی شرائط عائد کرنے والوں کا بال بال قرضوں میں جھکڑا ہوا ہے۔ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات پر بڑا شور و غوغا کیا گیاحالانکہ پچھلے دنوں امریکہ کے دیوالیہ ہونے کا بڑا چرچا رہا اور مزید قرض حاصل کر کے دیوالیہ ہونے کے خطرات کو ٹالنے کی کوشش کی گئی۔
پاکستان کو خداوند نے ہر طرح کے وسائل اور قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے مگر آج تک ان وسائل کو بروئے کار لا کر خود انحصاری کی کوشش نہیں کی گئی‘ طویل المدتی منصوبوں کی بجائے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت کام چلایا گیا‘ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم قرضوں کی دلدل میں پھنستے چلے گئے‘ آج ہمارے مسائل کی اصل وجہ بیرونی قرضے ہیں‘ تحریک انصاف کے تین سال آٹھ ماہ کے دوران ملک کے مجموعی قرضوں کا 76 فیصد لیا گیا۔ اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے دور میں مجموعی قرض کا 80فیصد نہیں بلکہ 76 فیصد لیا گیا ‘ اب ملکی قرضوں کا حجم 140ارب ڈالر ہے‘ 14ٹریلین روپے کے بجٹ کا آدھا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جانا ہے‘ جولائی سے دسمبر تک یعنی اگلے چھ ماہ میں ہم نے 10ارب ڈالر قرض کی مد میں ادا کرنے ہیں جبکہ سٹیٹ بینک کے ذخائر میں صرف ساڑھے تین ارب ڈالر موجود ہیں‘ اسی بنا پر کہا جا رہا تھا کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہوتا اور ہم قرض ادا نہ کر سکتے تو ڈیفالٹ کر جاتے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے تین ارب ڈالر ملنے کے بعد دیگر ممالک سے بھی مالی مدد ملنا آسان ہو جائے گی کیونکہ جب کسی ملک سے آئی ایم ایف کا معاہدہ چل رہا ہو تو دوسرے ممالک کو یقین ہوتا ہے کہ ان کا پیسہ محفوظ ہے۔ آئی ایم ایف کی عالمی اجارہ داری اپنی جگہ پر طے شدہ حقیقت ہے لیکن اس موقع پر اگر آئی ایم ایف کے ساتھ تین ارب ڈالر کا معاہدہ نہ ہوتا اور اس کے نتیجے میں پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا تو ہمیں مشکلات نے گھیر لینا تھا‘ روپیہ اپنی قدر مزید کھو دیتا‘ تجارت دم توڑ جاتی‘ اور مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو جانا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کر کے اہم کامیابی حاصل کی ہے مگر وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے آخری معاہدے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے کیا یہ عزائم بھی عملی شکل اختیار کر سکیں گے؟ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بقول پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ 23 واں پروگرام سائن کیا ہے اس سے پہلے پاکستان نے 22پروگرام حاصل کئے جن میں صرف ایک پروگرام 2016ء میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں مکمل ہوا اور عالمی مالیاتی ادارے کو خیرباد کہہ دیا گیا لیکن تحریک انصاف کے دور میں پاکستان نے ایک بار پھر آئی ایم ایف سے رجوع کیا مگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی‘ تحریک عدم اعتماد کے بعد جب موجودہ حکومت قائم ہوئی تو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا گیا لیکن متعدد کوششوں کے باوجود مذاکرات کامیاب ثابت نہ ہو سکے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدہ ہماری منزل نہیں‘ اس سے ہمیں وقتی ریلیف ملے گا‘ قرضوں سے نجات اور بیرونی سرمایہ کاری کے بغیر معاشی استحکام کی منزل آسان نہیں ہو گی۔ معاشی بحالی کا قومی پلان مالی بحران سے نجات اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔اس میں سول و عسکری قیادت مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے‘ امید کی جانی چاہئے کہ آنے والے الیکشن اور بعد کے حالات اس قومی منصوبے پر اثر انداز نہیں ہوں گے اور جس منزل کے حصول کیلئے کوشش کی جا رہی ہے وہ ہم حاصل کر کے رہیں گے۔