"RS" (space) message & send to 7575

اسلاموفوبیا اور دہشت گردی کے چیلنجز

سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں قرآن کریم کو نذرِ آتش کیے جانے کے واقعے سے مسلم اُمہ کے جذبات شدید مجروح ہوئے ہیں۔ 28جون کو جب قرآن کریم کی بے حرمتی کا دلخراش واقعہ پیش آیا تو دنیا کے اکثر ممالک میں عیدالاضحی منائی جا رہی تھی۔ اس واقعے کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ملعون شخص نے اس مذموم عمل کیلئے مقامی عدالت سے باقاعدہ اجازت حاصل کر رکھی تھی اور سٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے باہر اس مذموم مقصد کو عملی شکل دی گئی۔ آزادیٔ اظہارِ رائے کی آڑ میں سویڈن میں چوتھی مرتبہ ایسا ناخوشگوار واقعہ سامنے آ چکا ہے جس نے مسلمانوں کے دل پارہ پارہ کر دیے ہیں۔ قرآن کریم کی بے حرمتی کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کئی مسلم ممالک نے احتجاجاً سویڈن سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کی نمائندہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس طلب کیا گیا‘ جس کی ایگزیکٹو کمیٹی نے قرآن کریم کی بے حرمتی کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اس عمل سے لوگوں کے درمیان باہمی احترام کے رشتے اور عالمی سطح پر برداشت کو فروغ دینے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ قرآن کریم کی بے حرمتی اور پیغمبر اسلام کا احترام نہ کرنا اسلاموفوبیا کے عام واقعات نہیں ہیں۔ عالمی برادری کو ایسے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے جو مذہبی منافرت کو روکیں۔ تین روز گزرنے کے بعد سویڈن کی حکومت نے قرآن کریم کی بے حرمتی پر جو مذمتی بیان جاری کیا وہ کافی نہیں۔ سویڈن کی حکومت کا یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ اسلامو فوبیا کا واقعہ سویڈن حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔ جب مذکورہ شخص نے عدالت سے قرآن کریم جلانے کی اجازت طلب کی تھی تب اسے کیوں نہیں روکا گیا؟ سویڈن کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس وقت حرکت میں کیوں نہیں آئے؟
مغربی دنیا میں آزادیٔ اظہارِ رائے کے حوالے سے دو مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک اظہارِ رائے کی آزادی سے یہ مراد لیتے ہیں کہ ایک شخص اگر پُرامن رہے تو جو مرضی کہہ سکتا ہے‘ لکھ سکتا ہے اور اس کو جواب صرف دلیل سے دیا جا سکتا ہے‘ تشدد کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ کسی کے جذبات مجروح کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی‘ خاص طور پہ مذہبی جذبات کا احترام سب پہ لازم ہے۔ اسلامی دنیا میں اس وقت پھیلی شدت پسندی کا تعلق مغربی دنیا کے تشکیل دیے گئے اس نصاب سے ہے جو لادین کمیونزم کے خلاف خدا کوماننے والوں نے سرد جنگ کے زمانے میں تشکیل دیا تھا اور اس بات کا برملا اظہار ایک ڈیڑھ سال پہلے سعودی پرنس محمد بن سلمان نے بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ داعش جیسے گروہوں کی تشکیل کے پیچھے خود مغربی حکمران ایک دوسرے پہ الزامات لگاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن پہ ثبوتوں کے ساتھ الزام لگایا تھا کہ داعش کی تشکیل میں ان کا کتنا ہاتھ ہے۔ شام کی لڑائی میں روسی صدر ولادیمیر پوتن مغربی حکمرانوں پہ کئی بار کھلم کھلا داعش کی پیدائش کا الزام لگاچکے ہیں۔ شام میں داعش کو امریکی مدد کا حصول اور سرپرستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لیبیا میں تو آدھے ملک پہ مغربی حمایت یافتہ داعش کا قبضہ ہے۔ انتہا پسندی و قوم پرستی کی لہر امریکہ سمیت دنیا بھر میں کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں۔ اس وقت بھارت اور اسرائیل میں شدت پسند مذہبی حکومتیں قائم ہیں۔ ٹرمپ کو بھی انتہا پسند دائیں بازو کی مذہبی اور قوم پرستوں کی حمایت حاصل تھی جو اب بھی برقرار ہے‘ برطانیہ میں بریگزٹ بھی اسی کا مظہر ہے‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلاموفوبیا دراصل کمیونزم سے ڈرے ہوئے مغرب کی نفسیات میں سرایت کر چکا ہے۔ غریب اور امیر کی لڑائی کے بجائے مذہب اور قوم پرستی کی لڑائی اس وقت مغرب اور امریکہ کی ضرورت ہے‘ اس لیے وہاں اسلاموفوبیا پھیلایا جا رہا ہے۔ ان کے نزدیک سرمایہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے ہندو‘ عیسائی اور یہودی انتہا پسندی بھی ضروری ہے۔ مغربی دنیا کا یہ دہرا معیار اسلامو فوبیا کو پنپنے کا موقع فراہم کرتا ہے چونکہ مسلمان ایسے واقعات پر خاموش نہیں رہ سکتے ہیں‘ اس لیے ان کی طرف سے ردِعمل سامنا آتا ہے جو پھر شدت پسندی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اگر بڑی قوتوں کی پشت پناہی نہ ہو تو اسلامو فوبیا اور مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ ممکن ہے۔
نو مئی کے واقعات کے بعد ہماری تمام تر توجہ سیاست پر مرکوز ہے۔ اس دوران تربت سمیت بلوچستان کے کئی مقامات پر دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں مگر انہیں درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا حالانکہ انتخابات سے پہلے دہشت گردی کے معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کی یہ لہر بھی غیر متوقع نہیں ہے۔ پڑوس میں طالبان کی حکومت کے قیام کو پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نے عظیم فتح قرار دیا۔ اس اعلان کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے چالیس‘ پچاس ہزار لوگ در بدر پھر رہے ہیں‘ انہیں مین سٹریم میں لایا جائے گا۔ یہ خواب باجوہ صاحب‘ فیض حمید اور قاسم کے ابا نے اس وقت دیکھا تھا جب وہ ایک پیج پر ہونے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ شنید ہے کہ اب تک اسی ہزار کے قریب ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان واپس آ اور ملک کے ہر حصے میں پھیل چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان میں کچھ پُرامن زندگی کی طرف لوٹ گئے ہوں لیکن ان کی کالعدم تنظیم اور نظریہ ابھی باقی ہے اور وہ مزید لوگوں کو اپنی صفوں میں داخل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد کے وقت دہشت گردی کے خدشات موجود ہیں کیونکہ شدت پسند عناصر گلی محلوں تک پہنچ چکے ہیں اور اس کا سہرا ان لوگوں کے سر رہے گا جو انہیں واپس لائے تھے۔ نو مئی کے پرتشدد واقعات کے پیچھے یہی لوگ موجود تھے جس کی قیادت زمان پارک سے کی گئی۔ بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں بلوچ خواتین استعمال کی گئی ہیں۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ چین گوادر سے کاشغر تک 58 ارب ڈالر کے ریلوے لنک منصوبے کا آغاز کر چکا ہے۔ گوادر بندرگاہ اور سی پیک کے اربوں ڈالر منصوبے کا اصل فائدہ بلوچستان کو ہی ہونے والا ہے‘ اس لیے بیرونی قوتیں شرپسند عناصر کو آلہ کار بنا کر سرمایہ کاری کے ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ہمارے ہاں چینی منصوبوں کے خلاف ہونے والی ان مذموم کوششوں کے برعکس 28 جون کو چین کی نیشنل پیپلزکانگریس کی سٹینڈنگ کمیٹی نے خارجہ تعلقات سے متعلق ایک قانون پاس کیا جو یکم جولائی سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔ اس میں پاکستان اور چین کے تعلقات کے حوالے سے ہر موسم کے شراکت دار جیسے الفاظ استعمال کرکے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے کہ چین اس شراکت داری کو مستقبل میں بھی آگے بڑھانے کیلئے تیار ہے۔ چین اپنے حصے کا کام کر رہا ہے‘ سوال یہ ہے کہ چین کی بڑی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے اور مستقبل میں اس سے مستفید ہونے کیلئے جو کام ہمیں کرنے چاہئیں کیا وہ ہم کر رہے ہیں یا ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں