چینی سفارت خانے کی خصوصی دعوت پر ان دنوں پاکستان سے ایک وفد چین کے دورہ پر ہے۔ وفد میں زیادہ تر لوگ گوادر سے تعلق رکھتے ہیں جن میں اساتذہ‘ کاروباری شخصیات‘ سیاستدان اور وکلا شامل ہیں۔ اس وقت ہمارا قیام چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہے جس کی ترقی دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ پُرشکوہ عمارتیں‘ صنعتی ترقی اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی جدت طرازی آج چین کی پہچان بن چکی ہے۔ چین نے ترقی کی یہ منازل کٹھن راستے طے کرنے کے بعد حاصل کی ہیں‘ جس میں لیڈر شپ کا وژن‘ عزمِ مسلسل اور پوری قوم کی مشترکہ کاوش شامل ہے۔ محنت اور خود داری چینی قوم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ چین نے ابتدائی طور پر سوویت یونین کے اشتراک سے انڈسٹری لگانے سمیت اہم ترقیاتی منصوبے مکمل کیے تھے جن میں بیجنگ ریلوے سٹیشن کی پُرشکوہ عمارت بھی شامل ہے‘ تاہم 1962ء میں چین روس اشتراک میں اس وقت تناؤ آنا شروع ہوا جب چینی سرحدوں کے قریب روسی بحریہ کی آبدوزیں اور جہاز گردش کرنے لگے۔ اس وقت کے چینی قائد ماؤ زے تنگ نے روس کے ساتھ مزید تعاون سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ سوویت یونین چین کی سلامتی کے خلاف کام کر رہا ہے۔ روس کمیونسٹ ممالک کی قیادت اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا‘ اس کی پالیسیاں جارحانہ تھیں تب چیئرمین ماؤ نے طے کیا کہ ہم اپنی پالیسیاں بنائیں گے۔ اس پر سوویت یونین رہنما نیکیتا خروشیف ناراض ہو گئے اور چین کے ساتھ سوویت یونین تعاون کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ مزید یہ کہ چین کی تعمیر و ترقی میں سوویت یونین جو تعاون کر چکا تھا اس کے پیسوں کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ چین چونکہ اس وقت مالی لحاظ سے نہایت کمزور ملک تھا‘ اس کے پاس اس ادائیگی کیلئے پیسے نہیں تھے۔ جب سوویت یونین قیادت کو معلوم ہو گیا کہ چین پیسے ادا کرنے سے قاصر ہے تو انہوں نے چین کو دباؤ میں لانے کیلئے نیا مطالبہ کیا کہ چین کا ہر گاؤں‘ ہر شہر اور جہاں جہاں لوگ آباد ہیں وہاں سیب اور لائیو سٹاک کی پیداوار زیادہ کر کے پیسوں کی ادائیگی کی جائے۔ سوویت یونین مطالبے کے بعد چین نے ہرشہری بالخصوص کسانوں کو پابند کیا کہ وہ ریاست کے لیے سیب اور لائیو سٹاک کی پیداوار بڑھائیں تاکہ سوویت یونین کو ادائیگی کی جا سکے۔ چینی قوم نے قیادت کی ہدایت پر عمل کیا‘ یوں سوویت یونین کو سیب اور لائیو سٹاک کی صورت میں ادائیگی کی جانے لگی۔ کڑی شرائط کے باوجود سوویت یونین کو ادائیگی ہو رہی تھی لیکن سوویت یونین نے چین کو مزید تنگ کرنے کیلئے نیا مطالبہ کر دیا کہ اسے مخصوص جانوروں کی صرف زبانیں بھجوائی جائیں‘ چونکہ چینی خود دار قوم تھی اس لیے انہوں نے روس کی یہ شرط بھی پوری کی اور سوویت یونین کے تمام قرضے سیب اور لائیو سٹاک کے ذریعے ادا کر دیے۔ویسے تو پورا چین ہی ترقی یافتہ ہے مگر اس کے تین شہر بیجنگ‘ چونگ چینگ اور شنگھائی کی ترقی انسانی تصور سے باہر ہے۔ چین نے یہ ترقی صدیوں میں حاصل نہیں کی ہے‘ اس لیے کہ 1970ء تک تو روسی قرضوں کی ادائیگی کا سلسلہ چلتا رہا ہے۔ آج چین کی ترقی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ چند برس پہلے تک یہ قوم قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ چین کی ترقی پر آئندہ کالم میں تفصیل سے لکھوں گا۔ مختصراً یہ کہ چین نے خود داری‘ باہمی اشتراک اور کسانوں کے ذریعے روسی قرضوں سے نجات حاصل کی تھی۔ اس سے واضح ہوا کہ جب کوئی قوم عظیم مقصد کے تحت مشکل وقت کاٹ لیتی ہے تو ترقی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
روسی اشتراک سے نکلنے کے بعد چین نے دنیا کے ساتھ تعلقات قائم کرنا شروع کیے اور 1970ء میں امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کیے جبکہ آزادی کے بعد سے لے کر ہر دور میں پاک چین تعلقات مثالی رہے ہیں۔ چین یہ سمجھتا ہے کہ دنیا سے ملانے میں پاکستان نے چین کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ چین کو اقوامِ متحدہ کا رکن بنانے میں پاکستان پہلا ملک تھا جس نے پی آر سی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہی عوامل ہیں کہ چین نے ہر موڑ پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ چین نے اقوام متحدہ میں 20سے زائد ویٹو پاکستان کے حق میں دیے ہیں۔ آج ہمیں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا سامنا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے بل‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور مہنگائی کی مجموعی شرح کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ہم حالات کا رونا تو روتے ہیں مگر مشکلات سے باہر نکلنے کی سبیل تلاش نہیں کرتے۔ راستہ دکھانا لیڈر شپ کا کام ہے جب قیادت مخلص ہو گی اور قوم کے سامنے حقائق پیش کرے گی تو یقینا نجات کی راہ بھی نکل آئے گی‘ تاہم ہماری قیادت ایک دوسرے پر معاشی بدحالی کا ملبہ ڈالنے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس تباہی کا کوئی ایک شخص ذمہ دار نہیں ہے۔ قیادت باہم دست و گریبان ہے‘ یہ روش تبدیل کیے بغیر ہم حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے دیگر سیاسی اتحادی ڈر چکے ہیں اور اب عام انتخابات سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اہم وزارتیں حاصل کرنے سمیت اتحادی حکومت کے ہر کام میں شریک رہی ہے۔ اس نے مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کی منظوری کی حمایت کی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ نئی حلقہ بندیاں ضرور ہوں گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو اگر تحفظات تھے تو مشترکہ مفادات کونسل میں اس کا اظہار کیا جانا چاہیے تھا‘ اس وقت اگر پاکستان پیپلز پارٹی حمایت نہ کرتی تو ڈیجیٹل مردم شماری کے سرکاری نتائج کا اعلان نہ ہو پاتا۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی نے نیا مؤقف اپنا لیا ہے تو اسے اس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی عوامی نظروں میں مقبول ہونے اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاستدان ایک عرصہ تک اپنی ناکامیوں کا ملبہ مارشل لا پر ڈالتے رہے ہیں‘ تاہم پچھلے تین ٹینور سے مسلسل جمہوری حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہیں مگر حالات بد سے بدتر ہو چکے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں متعدد بار اقتدار میں رہ چکی ہیں‘ ان کے پاس ترقی کا جو ماڈل تھا وہ بھی سامنے آ چکا ہے۔ ان کے اقتدار میں رہنے سے مزید کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں مگر کہیں انتخابی تیاریوں کا ماحول دکھائی نہیں دے رہا ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں خوفزدہ ہیں کہ وہ عوام کے سامنے پیش کیا کریں گی؟ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے پاس ماضی کی کارکردگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے حتیٰ کہ سیاسی جماعتیں کوئی نیا نعرہ تک متعارف نہیں کرا سکی ہیں‘ اس لیے اب ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ جو جمہوری نظام ہمارے ہاں رائج ہے اگر اسے جاری رکھنا ہے تو اس میں وسیع پیمانے پر اصلاحات لانا ہوں گی۔ موجودہ جمہوری نظام ڈیلیور کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ چین کی طرح سمت کا تعین کرنا ناگزیر ہے۔ قوم کو باور کرا دیا جائے کہ تین یا چار سال کے بعد آسانی ہے تو قوم پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی گزارہ کر لے گی مگر قیادت کے پاس سرے سے کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے۔ ہمیں چین کی دوستی سے سب سے زیادہ جو چیز سیکھنے کی ضرورت ہے وہ ہے وژن۔ قلیل المدتی منصوبہ بندی سیاسی مفادات کی اسیر ہوتی ہے‘ جب تک ہم قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر منصوبہ بندی نہیں کریں گے ہمارے حالات نہیں بدلیں گے۔