نگران حکومت کے معاشی اقدامات سے حاصل ہونے والے نتائج کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں‘ گو کہ ابھی تک عام آدمی کو نمایاں ریلیف نہیں مل سکا ہے تاہم ڈالر کی اونچی اڑان کے بعد جس سنگین معاشی بحران کے خطرات سے ڈرایا جا رہا تھا کم از کم اسے ریورس گیئر ضرور لگا ہے۔اس وقت تمام معاشی اشاریے مثبت ہیں اگر کوئی انہونی نہ ہوئی اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو بہت جلد عوام کو ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا۔ تاریخ میں جھانک کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نگران حکومتوں کے دور میں معاشی بحران کسی قدر شدت اختیار کر جاتا تھا‘ کیونکہ نگران حکومتیں اپنے مینڈیٹ یعنی الیکشن کرانے اور روز مرہ کے معاملات تک محدود رہتی تھیں اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ اس دورانیے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مافیاز سرگرم ہو جاتے ہیں جو معاشی بحران اور مہنگائی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت رخصت ہونے سے پہلے الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 230 میں ترمیم کے ذریعے نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ کر گئی‘ جس کے تحت نگران حکومت کو روز مرہ کے ساتھ ہنگامی نوعیت کے معاملات دیکھنے کا اختیار حاصل ہو گیا‘ اب نگران حکومت پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ اسی طرح نگران حکومت کو دو فریقی اور سہ فریقی معاہدے کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے۔ نگران حکومت کو پہلے سے جاری منصوبوں پر اداروں سے بات کرنے کا اختیار بھی ہے۔الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے تحت نگران حکومت کو ملکی معیشت کے بہتر مفاد سے متعلق ضروری فیصلے کر نے کا اختیار حاصل ہے۔
اس وقت معیشت میں بہتری کے جو آثار دکھائی دے رہے ہیں یہ پی ڈی ایم حکومت کے اقدام کانتیجہ ہی ہیں۔ اگر نگران حکومت کو اختیارات تفویض نہ کئے جاتے تو اس بار بھی ماضی جیسے نتائج برآمد ہونے تھے۔نگران حکومت کے ابتدائی دنوں میں منفی رجحان کی جھلک دکھائی دی جب ڈالر اوپن مارکیٹ میں 300روپے سے تجاوز کر گیا۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر اتحادی حکومت نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ نہ کرتی تو معاشی صورتحال کیا ہوتی۔ اس وقت متعدد شعبوں میں بہتری کے آثار ہیں‘ جن میں ڈالر کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ اگر ڈالر دو سو روپے کی سطح پر آتا ہے تو مہنگائی کی مجموعی شرح میں کمی ہو گی اور حکومت کیلئے عوام کو ریلیف دینا آسان ہو جائے گا۔ بجلی چوروں سے 20 ارب روپے سے زیادہ کی ریکوری معمولی بات نہیں کیونکہ برسوں سے تقسیم کار کمپنیوں کے اہلکار اور سرکاری افسران کی ملی بھگت سے یہ مکروہ کھیل جاری تھا جس کا بوجھ عام شہریوں پر ڈالا جا رہا تھا۔ صرف ریکوری ہی نہیں بلکہ بجلی کی چوری میں تقسیم کارکمپنیوں کے افسران‘ ملازمین اور بجلی چوروں کا گٹھ جوڑ توڑنے کے لیے بجلی کمپنیوں میں ایف آئی اے افسران کی تعیناتی سے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اشیائے خور و نوش اور ڈالر کی سمگلنگ روکنے کیلئے پہلی بار مافیا کے خلاف مضبوط ہاتھ ڈالا گیا‘ ماضی میں کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کی مثالیں کم ملتی ہیں‘ ڈالر کی سرحد پار سمگلنگ اور حوالہ ہنڈی کا کام برسوں سے جاری تھا مگر نگران حکومت کے دور میں اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ اس کریک ڈاؤن کے نتائج ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ رواں مالی سال شرح نمو 3.5فیصد تک رہنے کا امکان ہے جو گزشتہ مالی سال 0.3 تھی۔ آئی ایم ایف‘ بین الاقوامی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے مجموعی طور پر 1.4ارب ڈالر کی رقم متوقع ہے جس سے معیشت کے اشاریوں میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں 40 روپے کم ہونے سے ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی سمیت کئی شعبوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور عام آدمی کو ریلیف ملے گا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کا کہنا ہے کہ معاشی استحکام کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
نگران حکومت کے معاشی اقدامات کو ہر سطح پر سراہا جا رہا ہے مگر الیکشن وقت پر نہ ہونے کی وجہ سے کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی جا رہی ہے‘ تاہم سوال یہ ہے کہ نگران حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں ماضی کی حکومتیں یہ کام کیوں نہ کر سکیں؟ اس ضمن میں دو باتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ قیادت کے پاس وژن ہو اور وہ کچھ کرنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہو تو ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے دوسری بات یہ ہے کہ نگران حکومت نے سبکدوش ہونے والی اتحادی حکومت کے معاشی ایجنڈے کو جاری رکھا اور معیشت میں بہتری اسی معاشی بحالی پروگرام کا حصہ ہے جس کا آغاز جون میں سپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کے قیام سے عمل میں آیا ۔ کونسل کے قیام کا اصل مقصد بیرونی سرمایہ کو پاکستان میں لانے کیلئے کردار ادا کرنا ہے‘ کونسل کی ابتدائی کوششوں سے عرب امارات‘ سعودی عرب‘ کویت اور قطر نے پاکستان میں مختلف شعبوں میں تقریباً ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور شراکت داری پر آمادگی کا اظہار کیا ہے‘ اس متوقع سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کیلئے ہمیں سکیورٹی مسائل پر قابو پانے کے علاوہ ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جو آج تک نہیں اٹھائے جا سکے‘ سو اتحادی حکومت کے سامنے دو راستے تھے یا تو وہ پرانے طرز پر چلتے ہوئے عوام کو وقتی ریلیف دیتی اور سبسڈی سے کام چلانے کی کوشش کرتی اس صورت میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت متاثر نہ ہوتی جبکہ معاشی بحران کے شدید ہونے حتیٰ کہ ڈیفالٹ کے امکانات موجود تھے۔ پی ڈی ایم حکومت نے قدرے سخت معاشی پالیسی اپنائی اور سخت فیصلے کئے جس میں عوام کیلئے فوری ریلیف نہیں تھا۔ اتحادی جماعتوں نے اس کی بھاری سیاسی قیمت چکائی کیونکہ تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے معاشی بحالی کا جو وعدہ کیا گیا تھا اقتدار میں آنے کے بعد وہ پورا نہیں ہو سکا تھا اس لئے عوام کی نظروں میں اتحادی جماعتیں کسی حد تک غیر مقبول بھی ہو گئیں مگر آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ مشکل فیصلے کئے جائیں اور پوری قوم ان مشکل فیصلوں میں ساتھ ہو‘ یہی وجہ تھی کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو قبول کر کے عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا گیا کیونکہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ سو نگران حکومت نے کچھ نیا نہیں کیا بلکہ ترقی کے اس سفر کو جاری رکھا ہے جو اتحادی حکومت کی معاشی پالیسی کے نتیجے میں شروع ہوا تھا۔ چینی صدر کی دعوت پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی تعاون میں شرکت نہایت اہم ہے‘ نگران وزیراعظم 18 اکتوبر کو اعلیٰ سطح فورم سے خطاب کریں گے ‘ وہ چینی صدر شی جن پنگ‘ چینی قیادت کے علاوہ سرمایہ کاروں‘ کاروباری شخصیات ملاقاتیں بھی کریں گے۔ وفاقی وزیر تجارت و صنعت و پیداوار ڈاکٹر گوہر اعجاز چین پہنچ چکے ہیں ان کے اس دورے کا محور خوراک اور زراعت‘ ٹیکسٹائل‘ کان کنی اور ویلیو ایڈڈ کان کنی مصنوعات‘ نئی ٹیکنالوجی‘ نئی الیکٹرک گاڑیاں‘ سولر پینلز اور ای کامرس میں چین کو پاکستان کی برآمدات کا فروغ ہے۔ قوی امید ہے وزیراعظم کے دورہ چین سے تجارت کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ تعمیر و ترقی کا جو سفر شروع ہوا ہے یہ تسلسل ٹوٹنے نہ پائے۔