مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی چار برس بعد وطن واپسی سے قبل انہیں احتساب عدالت اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے 24 اکتوبر تک ریلیف مل گیا ہے‘ جس کے بعد میاں نواز شریف کی فوری گرفتاری کا خطرہ ٹل گیا۔ میاں نواز شریف کی آمد سے سیاسی ماحول پیدا ہو گیا ہے‘ مسلم لیگ (ن) گریٹر اقبال پارک میں تاریخی اجتماع کی دعویدار ہے۔ پورے پاکستان سے قافلوں کی لاہور آمد سے یہ کہنا بے جا نہیں کہ مسلم لیگ (ن) اس وقت واحد سیاسی جماعت ہے جو موجودہ حالات میں اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے اور باہر نکالنے میں کامیاب ہے۔ میاں نواز شریف کے استقبال کیلئے آنے والوں میں نوجوانوں کی اکثریت ہے‘ نوجوانوں کو پارٹی سے جوڑنے میں چیف آرگنائزر مریم نواز کا مرکزی کردار ہے ۔اس موقع پر مسلم لیگ(ن) پنجاب سے باہر بھی ایک جماعت کی صورت دکھائی دے رہی ہے ۔ برسوں بعد یہ مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ کراچی‘ گلگت بلتستان‘ خیبر پختونخوا‘ بلوچستان اور کشمیر سے لیگی کارکنان کے قافلے لاہور پہنچے ہیں۔ میاں نواز شریف کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ طویل دورانیے کے بعد جب بھی ان کی ملک واپسی ہوئی میڈیا نے ان کی پل پل کی خبر نشر کی اور وہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ میاں نواز شریف کی واپسی پر دو باتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں ایک یہ کہ پاکستان میں میاں نواز شریف کی عدم موجودگی کے دوران پاکستان کی سیاست میں کیا تبدیلی رونما ہوئی‘ دوسرے یہ کہ کیا میاں نواز شریف کی واپسی سے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی ساکھ مضبوط ہو پائے گی؟
پاکستان کی سیاست میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ جولائی 2018ء میں جب میاں نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ لاہور ایئر پورٹ پر پہنچے تھے تو رینجرز اہلکاروں نے ان کے طیارے کو گھیر لیا تھا اور ایف آئی اے نے دونوں کے پاسپورٹ تحویل میں لے کر انہیں اسلام آباد کی اڈیالہ جیل منتقل کر دیا تھا۔ میاں نواز شریف کی اکتوبر 2023ء کی واپسی اس لحاظ سے مختلف ہے کہ ان کی آمد سے پہلے ہی حالات سازگار ہو چکے تھے اور ان کے جیل جانے کے امکانات نہیں تھے۔ تاریخ کا جبر دیکھئے کہ 2018 ء میں میاں نواز شریف کو زندان میں دیکھ کر خوش ہونے والے چیئرمین پی ٹی آئی آج خود سلاخوں کے پیچھے ہیں‘ اسی طرح میاں نواز شریف کو الیکشن 2018 ء سے چند روز قبل گرفتار کر کے انتخابی عمل سے آؤٹ کرنے والے آج خود انتخابی منظر نامے سے آؤٹ ہو چکے ہیں۔
اکتوبر کا مہینہ میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی میں بہت خاص رہا ہے۔ اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے دو تہائی اکثریت سے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر میاں نواز شریف کو اقتدار سے آؤٹ کیا تھا۔ یہ اکتوبر کا مہینہ ہی تھا جب 2011 ء میں چیئرمین پی ٹی آئی نے مینار پاکستان پر جلسہ کر کے قومی سیاسی منظر نامے پر نمایاں حیثیت حاصل کی تھی۔ آج مسلم لیگ (ن) نے سیاسی قوت کے مظاہرے کیلئے اکتوبر کے مہینے میں اسی جگہ کا انتخاب کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو نو مئی کے واقعات کے بعد بظاہر پی ٹی آئی کی طرف سے خطرات نہیں‘ مگر ماضی قریب کی حلیف جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اب مسلم لیگ (ن) کی حریف بن چکی ہے۔ آصف زرداری تو خاموش ہیں مگر چیئرمین بلاول بھٹو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کی واپسی کسی سمجھوتہ کے نتیجے میں ہو رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کو لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی کمزور گرفت بھی بلاول بھٹو کی تنقید کی ممکنہ وجہ ہے‘ کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک پیپلزپارٹی قیادت پُرامید تھی کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کے پیپلزپارٹی میں شمولیت کے بعد پنجاب میں پارٹی مضبوط ہو جائے گی یا کم از کم سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جائے گی کیونکہ قومی سیاسی منظر نامے میں پنجاب کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق قومی اسمبلی کی 266جنرل نشستوں میں سے 141پنجاب کی ہیں‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پنجاب میں جو پارٹی اکثریت حاصل کرے گی وفاق میں وہی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو گی۔جب استحکام پاکستان پارٹی کا جھکاؤ مسلم لیگ (ن) کی جانب ہوا تو پیپلزپارٹی نے تنقید شروع کر دی اور بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کی قبل از وقت جو مہم شروع ہوئی تھی وہ ماند پڑ گئی۔ پیپلزپارٹی کی تنقید اور مخالفت کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی قیادت خاموش ہے‘ اب جبکہ میاں نواز شریف واپس آ گئے ہیں اور وہ بہت جلد انتخابی مہم شروع کریں گے تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان دوریوں کی اصل وجہ سامنے آ سکتی ہے۔ اگر میاں نواز شریف اور آصف زرداری مصلحت کے تحت سیاسی حکمت عملی پر متفق نہیں ہوتے ہیں تو حریف جماعتوں میں پیدا ہونے والی دوریوں میں متوقع طور پر اضافہ ہو سکتا ہے۔
عام انتخابات میں تقریباً چار ماہ باقی ہیں‘ اس قلیل عرصہ میں میاں نواز شریف کیلئے سیاسی بیانیے کو مقبول بنانا آسان مرحلہ نہیں ہو گا کیونکہ وزارت عظمیٰ کی بنا پر16 ماہ کی اتحادی حکومت کی کارکردگی کا بوجھ مسلم لیگ (ن) کو اٹھانا ہے۔ اسی طرح میاں نواز شریف کو عدالت سے وقتی ریلیف ملا ہے‘ مقدمات ختم نہیں ہوئے‘ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ سزا ختم ہونے تک نااہلی کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ مخالفین یہ بھی کوشش کر رہے ہیں کہ اسمبلی کی نااہلی پہ جو پانچ سال کی حد رکھی گئی ہے وہ نواز شریف کیلئے چیلنج کی جائے اور کہا جائے کہ جب اپیل کا حق ماضی سے نہیں دیا گیا تو نئے ایکٹ کا اطلاق بھی پچھلی سزاؤں پر نہیں ہو گا۔ میاں نواز شریف کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ مقتدرہ کیلئے اولین چوائس نہیں ہیں‘ اولین چوائس شہباز شریف ہیں۔ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ میاں نواز شریف کی راہ میں ابھی بہت سے کانٹے اور خاردار جھاڑیاں ہیں جو الیکشن تک نہ ہٹیں تو ممکن ہے خود میاں نواز شریف الیکشن نہ لڑ سکیں۔ اس موقع پر سپریم کورٹ میں دو اہم مقدمات کا سماعت کیلئے مقرر ہونا نہایت اہم ہے‘ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل اور قبل از وقت اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد 90 روز کی آئینی مدت میں عام انتخابات کرانے سے متعلق دائر درخواستوں کو 23اکتوبر سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ قوی امکان ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مذکورہ مقدمات کو لٹکانے کی بجائے اگلے چند دنوں میں فیصلہ دے دیں گے جس کے انتخابی مہم پر اثرات ہوں گے‘ دوسری طرف انتخابی مہم اور میاں نواز شریف کے مقدمات ساتھ ساتھ چلیں گے ‘اس لئے بعض حلقوں کی جانب سے مائنس ٹو کی بات کی جا رہی ہے یعنی چیئرمین پی ٹی آئی اور قائد مسلم لیگ (ن) دونوں ہی آمدہ انتخابات سے باہر رہیں گے۔ ایسے حالات میں مسلم لیگ (ن)کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ پارٹی میں میاں نواز شریف کے ووٹ کا تصور کافی مضبوط ہے۔ میاں نوازشریف کو ممکنہ طور پر پانچ چیلنجز کا سامنا ہو گا‘ اول: موجودہ حالات میں عوام کا اعتماد حاصل کرنا۔ دوم: مختصر عرصے میں سیاسی بیانیہ قائم کرنا۔ سوم :سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کرنا۔ چہارم: عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا۔ پنجم: سکیورٹی چیلنجز میں انتخابی مہم کو جاری رکھنا۔ اگر میاں نواز شریف تمام مراحل کو آسانی کے ساتھ عبور کر لیتے ہیں تو یہ تاثر گہرا ہو جائے گا کہ وہ کسی سمجھوتہ کے تحت واپس آئے ہیں ‘تاہم اس بار تحفظات کا اظہار کرنے والی جماعت پیپلزپارٹی ہو گی۔