"RS" (space) message & send to 7575

ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہماری مباحث

ترقی یافتہ ممالک اور پاکستان جیسے ملک میں ہونے والی روز مرہ کی مباحث سے ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ سیاست اور مخالفین کی کردار کشی ہمارے پسندیدہ موضوعات ہیں اس لئے ہماری تمام تر توانائیاں اور توجہ انہی موضوعات پر مبذول رہتی ہے۔ اہلِ سیاست‘ اربابِ اختیار اور حکام بالا کو جن موضوعات میں دلچسپی ہے وہ نیچے عوام تک سرایت کرتی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ پالیسی ساز سے لے کر عام شہریوں میں ایک ہی سوچ پائی جاتی ہے۔ جن لوگوں کو پاکستان سے باہر جانے کا اتفاق ہوتا ہے وہ ہماری تنزلی کی وجوہات کا بخوبی ادراک کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں عوامی گفتگو کا مرکز سیاست اور ملکی حالات ہوتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو سیاست یا ملکی حالات سے کوئی سروکار نہیں‘ وہاں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ امورِ سلطنت منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے جبکہ عام شہریوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ہر شخص پوری ایمانداری کے ساتھ کام کرے۔ اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکنالوجی کی دوڑ لگی ہوئی ہے‘ مشاہدہ کرنے والا انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی سے لیس جب کوئی پراڈکٹ مارکیٹ میں آتی ہے تو دوسری کمپنیاں مختصر وقت میں اس جیسی مصنوعات مارکیٹ میں لانے کیلئے سرگرم ہو جاتی ہیں۔ مقابلے کے اس ماحول میں ہمارا شمار دور دور تک کہیں نہیں بلکہ صورتحال یہ ہے کہ اس جدید دور میں بھی ہم ان مصنوعات کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں جنہیں دنیا کئی سال پہلے ترک کر چکی ہے۔
دنیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی پر تیزی سے منتقل ہو رہی ہے‘ چین مصنوعی ذہانت میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اب دنیا میں سب سے بڑا اے آئی ریسرچ پاور ہاؤس ہے۔ چین میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ترقی کو کئی عوامل سے تقویت مل رہی ہے۔ چینی حکومت نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو قومی ترقی کی کلیدی ترجیح قرار دیا ہے‘ اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے فروغ کے لیے متعدد پالیسیاں نافذ کی ہیں۔ ان پالیسیوں میں تحقیق اور ترقی کے لیے بڑی سبسڈی‘ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ماہرین کی تربیت کے لیے پروگرام اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کی تجارتی ترقی کے لیے اقدامات شامل ہیں۔ چین نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں وسیع سرمایہ کاری کی ہے‘ جس میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس بھی شامل ہے۔ چین آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے شعبے میں دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔ چین میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ترقی نے کئی شعبوں میں اہم پیشرفت کی ہے‘ جن میں خودکار گاڑیاں‘ فیس ریکگنیشن اور طبی تشخیص شامل ہیں۔ چین خودکار گاڑیوں کے لیے ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے اور اس نے کئی شہروں میں خودکار گاڑیوں کے ٹیسٹ شروع کر دیئے ہیں۔ چین فیس ریکگنیشن ٹیکنالوجی کا بھی عالمی رہنما ہے اور اس ٹیکنالوجی کو ملک بھر میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ چین طبی تشخیص میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال کر رہا ہے اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے کینسر اور دیگر بیماریوں کی تشخیص میں اضافہ ہوا ہے۔
چینی عوام ترقی اور خوشحالی کے اہم دور سے گزر رہے ہیں۔ معاشرہ تعلیم‘ صحت اور سماجی بہبود کی بنیاد پر قائم ہے‘ قانون کی پاسداری ہے اور لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ شنگھائی کی آبادی تقریباً تین کروڑ ہے لیکن یہ شہر دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ لاہور کی آلودگی جیسے مسائل اور کراچی جیسے سٹریٹ کرائمز کا یہاں تصور بھی نہیں۔ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ کچھ مدت سے شنگھائی میں سنگین جرائم کی شرح زیرو ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی چین کی چِپ ٹیکنالوجی انڈسٹری سے خائف ہیں‘ چین نے سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی کے شعبے میں حالیہ برسوں میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے۔ چینی کمپنیاں جدید ترین چپس تیار کر رہی ہیں‘ کہا جا رہا ہے کہ چین جلد ہی دنیا کا سب سے بڑا چِپ مینوفیکچرر بن جائے گا۔ اس کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں چین نے سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی کی تحقیق اور ترقی میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ حکومت نے اس صنعت کے لیے متعدد پالیسیاں نافذ کی ہیں جس کے نتیجے میں چین کی چپ مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ سیمی کنڈکٹرز ٹیکنالوجی کے حوالے سے عالمی ماہرین کہتے ہیں کہ جس طرح پہلے زمانوں میں پانی و تیل کے حصول کیلئے جنگیں ہوتی رہی ہیں آئندہ جنگیں چپ ٹیکنالوجی حاصل کرنے کیلئے ہو سکتی ہیں کیونکہ موبائل اورکمپیوٹر سے لے کر عسکری سازوسامان میں سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی کا استعمال ہوتا ہے۔
چین اپنی ڈیڑھ ارب آبادی اور صنعتوں کی توانائی ضروریات احسن انداز سے پوری کر رہا ہے۔توانائی کی ضرورت کے پیش نظر چین نے قابل تجدید توانائی ذرائع سے فائدہ اٹھایا ہے۔چین کی بجلی کی کل پیداوار کا تقریباً 30 فیصد متبادل ذائع سے پیدا کیا جا رہا ہے۔ چین نے قابل ِتجدید توانائی کی ترقی کے لیے کئی پالیسیاں اور اقدامات کیے ہیں‘ جن میں سبسڈی‘ ٹیکس چھوٹ اور فنانسنگ کی سہولیات شامل ہیں۔ حکومت نے قابل تجدید توانائی کی ترقی کے لیے خاص اقتصادی زونز بھی قائم کیے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ چین دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی اور ونڈ پاور والا ملک ہے اور ہائیڈرو پاور پیداوار میں بھی سب سے آگے ہے۔ چین ڈیڑھ ارب آبادی کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ سب سے بڑا شمسی پینل اور ونڈ ٹربائن کا ایکسپورٹر بھی ہے۔ فائیو جی ٹیکنالوجی کی آمد نے دنیا بھر میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور چین اس انقلاب میں سب سے آگے ہے۔ چین نے فائیو جی ٹیکنالوجی کے فروغ اور اس کے استعمال میں عالمی سطح پر قیادت حاصل کر لی ہے۔ چین میں فائیو جی نیٹ ورک کا فروغ بہت تیزی سے ہو رہا ہے اور اسے چین کی معیشت کی ترقی کا ایک اہم محرک سمجھا جاتا ہے۔ چین کا وزٹ کرنے والا ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ چین معاشی و اقتصادی لحاظ سے ورلڈ سپر پاوربن چکا ہے‘ صرف باضابطہ تسلیم کئے جانے کی دیر ہے۔
ہم اس وقت چین میں ہیں اور مجھ سمیت ہر شخص یہاں کے تعلیمی اداروں کے قومی ترقی میں کردار سے متاثر ہے۔ تعلیم‘ تحقیق اور ٹیکنالوجی کے شعبے بام عروج پر ہیں‘ یہاں تک کہ چپ ٹیکنالوجی میں امریکہ اور مغرب بھی چین کے محتاج ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان کو چین کی دوستی اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ چینی قیادت جُڑت یعنی کنکٹیویٹی کی قائل ہے اور سمجھتی ہے کہ منسلک ہونا ہی ترقی کا پہلا زینہ ہے۔ یہاں کے عوام خوشحال ہیں تعلیم‘ صحت اور روزگار کے جھنجھٹ سے آزاد ہیں۔ یہاں قیام کے دوران ایک دلچسپ بات نوٹ کی کہ پاکستان پر نظر رکھنے والی اکیڈیمیا اور انٹرنیشنل ریلشن سے باخبر حلقوں کو یقین کی حد تک گمان ہے کہ آئندہ انتخابات میں نواز شریف کی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ شاید ان کو یہ معلومات پاکستانی میڈیا کے ذریعے ملی ہوں یا شاید چین بھی چاہتا ہو کہ پاکستان میں ایسی قیادت سامنے آئے جو پاک چین اقتصادی اور سٹرٹیجک تعاون کو آگے لیکر جائے۔ بی آر آئی چینی قیادت کیلئے بہت اہم ہے اور سی پیک اس کا فلیگ شپ پراجیکٹ ہے۔ اس لیے چینی قیادت انتہائی غور سے پاکستان کی سیاست پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے ہاں ہر دور ِحکومت میں چین کے ساتھ دوستی کا راگ الاپا گیا ہے ہر حکومت اس دوستی کا اعادہ کرتی ہے حالانکہ روایتی نعروں کی بجائے ہمیں چین سے تعلیم و تربیت‘ ٹیکنالوجی‘ محنت اور لگن کے رویوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ چین آگے بڑھ رہا ہے جبکہ ہم تنزلی کی جانب لڑھک رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں