دنیا کا اقتصادی‘ تجارتی اور سفارتی نقشہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ قریباً ایک صدی سے دنیا مغرب کو ترقی اور بہتر مستقبل کا پیمانہ تصور کرتی رہی‘ تاہم اب زمینی حقائق بدل رہے ہیں‘دنیا ایشیا اور افریقی براعظم کو مستقبل کی معاشی و سفارتی پیش بندی کا مرکز تصور کرنے لگی ہے۔ پاکستان کے معاشی ماہرین اور سفارتی منصوبہ ساز بھی افریقہ کی اہمیت سے آگاہ ہیں اس لئے '' انگیج افریقہ‘‘ کے نام سے خصوصی پالیسی کی منظوری دی گئی ہے جو آنے والے دنوں میں نہ صرف عمومی تجارتی و سفارتی تعلقات میں بہتری کا سبب بنے گی بلکہ ایس آئی ایف سی جیسے اقدامات کی وسعت کا سبب بھی بنے گی۔ افریقہ کی اہمیت کا انداز لگانے کیلئے صرف ایتھوپیا کی مثال کافی ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں قائم ایتھوپین سفارتخانے‘ بالخصوص ایتھوپین سفیر جمال بکر عبداللہ کا کردار بے حد اہم ہے۔ جمال بکر عبداللہ ایک متحرک سفارتکار اور پاکستان کے حقیقی دوست کی صورت میں افریقہ کے دروازے پاکستان اور پاکستانی عوام خصوصاً کاروباری طبقے کیلئے وا کرنے کیلئے بے چین رہتے ہیں۔ ایتھوپیا 80 فیصد ادویات امپورٹ کر رہا ہے‘ لہٰذا پاکستان کے فارما شعبے کے سرمایہ کاروں کیلئے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ ایتھوپیا میں جوائنٹ وینچرز قائم کر کے اس کی مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر افریقی ممالک کو بھی ادویات برآمد کر یں۔ ایتھوپیا اپنے سپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاروں کو 10 سال کی ٹیکس چھوٹ دے رہا ہے‘ پاکستانی سرمایہ کار اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کیلئے ایتھوپیا میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ ایتھوپیا اور پاکستان فارما سوٹیکلز‘ گارمنٹس‘ ٹیکسٹائل‘ سیمنٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ایتھوپیا کے سفیر سے ملاقات میں ان کے عزائم کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ جمال عبداللہ سے جب پوچھا کہ بدلتے عالمی منظر نامے میں ایتھوپیا پاکستان کو کیا مواقع فراہم کر سکتا ہے تو انہوں نے بتایا کہ جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے تو ہم نے حال ہی میں اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی اور ممالک کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے پاکستان کو اہم ملک کے طور پر دیکھا۔ ہمارے وزیراعظم پاکستان کو 21 ویں صدی میں اپنا قریبی سٹریٹجک شراکت دار بنانا چاہتے ہیں؛چنانچہ ہمارا ایک ہدف موجودہ بدلتی ہوئی عالمی جہتوں میں ان دونوں ملکوں کو قریب لانا ہے۔ ایتھوپیا لیگ آف نیشنز کے بانی ممالک میں شامل ہے‘ ہم نے سب سے پہلے افریقہ کے لیے آواز اٹھائی اور جہاں بھی نو آبادیاتی نظام ہے ہم اس کے خلاف برسرپیکار ہیں اور اس کیخلاف لڑنے والے اپنے بھائیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ہم افریقہ کو ایک خود مختار خطے کے طور پر دیکھ رہے ہیں‘ جیسا کہ نیلسن منڈیلا اور زمبابوے میں موگابے بھی اس نظام کے خلاف اٹھے‘ یہ میراث ایتھوپیا کی ہے۔ 8 دسمبر کو بلاک کے سکالرز اور سماجی کارکنان اورماہرین تعلیم نے ایتھوپیا کو گلوبل بلیک ہسٹری (عالمی سیاہ فام) ورثے کا مرکز قرار دیا ہے‘ ہم خود کو تمام سیاہ فام لوگوں کی آزادی کے لیے لڑنے والے سمجھتے ہیں‘ ایتھوپیا افریقہ کے لیے راہداری (گیٹ وے) ہے‘ جغرافیائی لحاظ سے ہم نہ صرف افریقہ بلکہ یورپ اور ایشیا کے بھی مرکز میں ہیں‘ ایتھوپیا کے ذریعے آپ گھنٹوں میں دنیا کی مجموعی آبادی کے نصف حصے سے زائد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں‘ دوسرا ایتھوپیا افریقن یونین کا ہیڈکوارٹر اور افریقن یونین کا بانی رکن ہے۔نیویارک اور برسلز کی طرح ادیس ابابا کو بھی سفارتی مرکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘ اس لیے اس کی تاریخ کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔افریقہ سے رابطوں کے پاکستانی ویژن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ افریقہ سے رابطے اچھی پالیسی ہے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ مستقبل کا انحصار افریقہ پر ہے لہٰذا افریقہ کی تلاش کو ضائع نہیں کیا جانا چاہئے۔ہم پاکستان کے لیے ایک شراکت دار ہیں‘ ایتھوپیا میں سرمایہ کاری ایک بڑا موقع ہے‘ ہم یہاں افریقن یونین کے ممالک کو اپنے ساتھ لائے ہیں‘ ہم سب سے بڑی ایئرلائن ہیں جو دس سر فہرست ممالک کی ایئرلائنز میں شامل ہے جس نے پاکستان کو افریقہ سے جوڑا ہے‘افریقہ میں 78 مقامات پر ہماری پروازیں جاتی ہیں‘ حتیٰ کہ ایک ملک کے ایک شہر میں تین مقامات پر بھی ہماری پروازیں جاتی ہیں۔ ایتھوپیا کے سفیر کی شدید خواہش ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات تجارتی تعلقات میں تبدیل ہو جائیں اس مقصد کیلئے انہوں نے محض ایک ہفتہ کے دوران نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر‘ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی سے ملاقاتیں کیں‘اسی طرح وہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی اور میڈیا کے ساتھ روابط میں بھی پیش پیش ہیں۔
ایتھوپیا کا شمار اگرچہ ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے تاہم پچھلے چند برسوں کے دوران وزیر اعظم ڈاکٹر ابے احمد کی قیادت میں ایتھوپیا نے اپنے پانچ کلیدی شعبوں‘ زراعت‘ کان کنی‘ فوڈ پروسیسنگ‘ ٹیکنالوجی اور سیاحت میں انقلابی اقدامات کیے ہیں۔ ایتھوپیا نے 'گرین انیشیٹو‘ کے تحت 20 ملین ہیکٹر سے زیادہ اراضی کو بحال کیا ہے‘ جس سے پائیدار زراعت اور غذائی سلامتی کو فروغ دینے میں مدد مل رہی ہے۔ بتایا گیا کہ وہاں آبپاشی کے مختلف منصوبوں پر کام کیا گیا ہے جس سے خشک سالی کے اثرات کو کم کرنے اور پانی کے استعمال کو بہتر بنانے میں مدد مل رہی ہے۔ سونے‘ لوہے‘ تانبے‘ پوٹاش اور دیگر معدنیات کے ذخائر کی تلاش میں بھی تیزی لائی گئی ہے اور حکومت نے کان کنی کے شعبے کو منظم کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے قوانین میں اصلاحات کی ہیں۔ ایتھوپیا خام مال کی بجائے تیار مال کی برآمد پر توجہ دے رہا ہے۔کافی‘ چائے‘ اور دیگر فصلوں کی پراسیسنگ میں سرمایہ کاری کی جار رہی ہے اور فوڈ پروسیسنگ کا شعبہ دیہی علاقوں میں ہزاروں نئی نوکریاں پیدا کر رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی بڑی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس سے ڈیجیٹل معیشت کو فروغ مل رہا ہے۔ یہ اقدامات ملک کو ایک پائیدار اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ ایتھوپیا کے سفارتکار کے مطابق وہاں اگرچہ بہت چیلنجز ہیں تاہم لوگوں میں آگے بڑھنے کی لگن ہے۔
پاکستان کی 'انگیج افریقہ‘پالیسی کے تناظر میں جمہوریہ گیمبیا اور پاکستان کی وزارت خارجہ کے مابین باہمی سیاسی تبادلہ خیال پر مفاہمتی یادداشت کی منظوری دی گئی ہے۔تیل کے حوالے سے گیمبیا افریقہ کا اہم ملک ہے لیکن ایتھوپیا بھی اہمیت کا حامل ہے جس سے ہمارے صدیوں پر محیط اسلامی و ثقافتی مراسم ہیں۔
پاکستان جیسے ملک کو برآمدات میں کمی کے مسائل کا سامنا ہے‘ ہماری مصنوعات ترقی یافتہ ممالک اور عالمی منڈیوں میں مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں اس لئے ہمارے لئے ایتھوپیا جیسے ممالک برآمدات میں اضافے کا بہترین آپشن ہو سکتے ہیں۔ایتھوپیا کی بھی خواہش ہے کہ وہ تعمیر و ترقی کیلئے پاکستان کی خدمات حاصل کرے۔ بہترین سفارت کاری کے ذریعے ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔