"RS" (space) message & send to 7575

دو پارٹی قائدین کے مقدمات

عام انتخابات 2024 کی تیاریاں اہم مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔ گزشتہ پانچ روز کے دوران چاروں صوبوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سمیت قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 859 جنرل نشستوں پر 32ہزار سے زائد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ اگر ہم صرف دو بڑے شہروں کی بات کریں تو لاہور سے قومی اسمبلی کی 14 اور پنجاب اسمبلی کی 30نشستوں کے لیے 700 سے زائد امیدوار میدان میں آئے ہیں‘ کراچی سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے800 سے زائد کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں۔ انتخابی شیڈول کے مطابق الیکشن کمیشن 25 سے 30 دسمبر تک انتخابی کاغذات کی جانچ پڑتال کرے گا۔ اہم یہ ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ کے شکوہ کے باوجود انتخابی عمل آگے بڑھ رہا ہے‘ انتخابی تیاریوں سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ 8 فروری کو انتخابات کے انعقاد میں بظاہر کوئی امر مانع نہیں ہے۔ 11 جنوری کو امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہو گی جبکہ 13 جنوری کو انتخابی نشان الاٹ کئے جائیں گے۔ تحفظات اور مشکلات کے باوجود پی ٹی آئی امیدواروں کی بڑی تعدادمیدان میں ہے۔ پختونخوا سکیورٹی صورتحال کے باعث الیکشن سے متعلق لوگ تذبذب کا شکار تھے مگر کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد الیکشن کی تیاریاں شروع ہو تو گئی ہیں لیکن ابھی تک کسی ایک جماعت کے حق میں سیاسی فضا سازگار دکھائی نہیں دیتی۔ پنجاب اور سندھ میں سیاسی ساکھ میں کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی سندھ میں بڑا ووٹ بینک رکھتی ہیں‘ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کا جھکاؤ بھی نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے‘ تاہم خیبر پختونخوا کی سطح پر ابہام برقرار ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اگرچہ سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر مانے جاتے ہیں مگر انہوں نے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے نام سے صوبائی سطح پر جو پارٹی تشکیل دی اسے فی الحال پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی ‘ حتیٰ کہ وہ صوبے کی اہم شخصیات کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے ۔ اگر تحریک انصاف کو ہائی کورٹ سے بلے کا نشان مل جاتا ہے تو بعض حلقوں کا خیال ہے کہ خیبرپختونخوا کی حد تک پی ٹی آئی کی پوزیشن دوسری جماعتوں سے بہتر ہے‘ اسد قیصر‘ علی محمد خان اور شیر افضل مروت کی صورت میں پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا سے مضبوط امیدوار دستیاب ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے کیلے بلے کا نشان نہیں ملتا تو پورے ملک کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پختونخوا میں جے یو آئی کا مضبوط ووٹ بینک موجود ہے‘ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے جے یو آئی کے ووٹ بینک پر مہر ثبت کی تھی۔ جنوبی اضلاع کرک‘ لکی مروت‘ کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ شمالی وزیرستان‘ جنوبی وزیرستان کے ساتھ ساتھ پشاور‘ نوشہرہ‘ چارسدہ ‘مردان اور صوابی میں بھی بلدیاتی الیکشن میں جے یو آئی نے کافی نشستیں حاصل کی تھیں۔ چارسدہ عوامی نیشنل پارٹی کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے جے یو آئی نے بلدیاتی انتخابات میں اسے شکست دی تھی‘ لوئر دیر جماعت اسلامی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے مگر جے یو آئی نے وہاں سے بھی میئر کی نشست حاصل کی تھی‘ اسی طرح ہزارہ بیلٹ میں مفتی کفایت اللہ ‘ اور شاہ حسین الائی جے یو آئی کے ٹکٹ پر تین تین بار ایم پی اے رہ چکے ہیں۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی انتخابی ریس سے دور ہوتی ہے تو جے یو آئی پختونخوا میں زیادہ سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔ اس کے بعد پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کا ووٹ بینک بھی موجود ہے اور کچھ حلقوں میں اے این پی کے امیدواروں کو شکست دینا آسان نہیں ہو گا۔ مسلم لیگ (ن)‘ پاکستان پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف پارلیمنٹیرین اور جماعت اسلامی کا پختونخوا میں محدود ووٹ بینک ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہزارہ بیلٹ سے کچھ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی۔ (ن) لیگ کے صوبائی صدر امیر مقام اپنے آبائی علاقے شانگلہ اور سوات سے ایک دو سیٹیں نکال سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو پختونخوا میں مضبوط امیدواروں کی کمی کا سامنا ہے ۔پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم خان کنڈی ڈیرہ اسماعیل خان سے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔ مالاکنڈ‘ اپر دیر اورلوئر دیر سمیت چند اضلاع سے شخصی ووٹ کی بنیاد پر پیپلزپارٹی کو کچھ سیٹیں حاصل ہو سکتی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے لاہور این اے 130 سے کاغذات نامزدگی جمع کرا ئے ہیں لیکن ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں؟ میاں نواز شریف 21 اکتوبر کو جب پاکستان واپس آئے تو ان کے سامنے سب سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سزا معطلی کی اپیلوں کی بحالی کا چیلنج تھا جو بیرون ملک جانے کے بعد عدم پیروی پر خارج کر دی گئی تھیں۔ پانامہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد نیب نے نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں تین ریفرنس العزیزیہ‘ ایون فیلڈ اور فلیگ شپ دائر کیے تھے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 29 نومبر کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کر دیا۔12 دسمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی سزا معطلی کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں العزیزیہ ریفرنس سے بھی بری کر دیا۔ اب نواز شریف بظاہر تینوں بڑے مقدمات میں بری ہو چکے ہیں‘ مگر اصل کیس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ سپریم کورٹ نے ارکان پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کے لیے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے یہ بینچ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو جنوری کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ارکان پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کرے گا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے جانے سے پہلے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی تھی جس کے بعد آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کو پانچ سال کر دیا تھا۔ نااہلی کی مدت کے تعین کیلئے کیس کی پہلی سماعت 2جنوری کو ہے‘ مگر اہم یہ ہے کہ فیصلہ کب ہوتا ہے؟ الیکشن سے متعلق جتنے مقدمات تھے سپریم کورٹ نے فوری فیصلے کئے ہیں‘ اسی تسلسل کے ساتھ اگر نااہلی کیس کا فیصلہ بھی آ جاتا ہے تو چیزیں واضح ہو جائیں گی‘ لیکن کیس کے طوالت اختیار کرنے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کیلئے مشکلات رہیں گی۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ نااہلی کیس کے فیصلے سے نواز شریف کا سیاسی کیریئر جڑا ہوا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کا لارجر بینچ نااہلی کی پانچ سالہ مدت کو برقرار رکھتا ہے تو نواز شریف وہ سزا پہلے ہی پوری کر چکے ہیں بصورت دیگر مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کے بغیر الیکشن میں اترنا ہو گا۔ یہ واضح ہے کہ نواز شریف کے بغیر مسلم لیگ (ن) کیلئے الیکشن میں جانا آسان نہیں ہو گا۔
نواز شریف کے مقدمات ختم ہو رہے ہیں جبکہ بانی پی ٹی آئی مقدمات کی زد میں ہیں۔ دونوں کی موجودگی پارٹی کیلئے بہت اہم ہے۔ اگر نواز شریف کے مقدمات ختم ہوتے ہیں مگر مقدمات کا انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوتا تو ان کی سیاسی ساکھ کمزور رہے گی جبکہ ان کے حریف بانی پی ٹی آئی پر الیکشن میں حصہ لینے کیلئے کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے ۔اگر وہ جیل میں بیٹھ کر اپنی نشستیں جیت جاتے ہیں تو یہ سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کیلئے ایک دھچکے سے کم نہیں ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں