پاکستان کا معاشی ماڈل ناکارہ ہو چکا ہے‘ عالمی بینک کے پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسائن(Najy Benhassine) نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سہ ماہی تحقیقاتی جریدے'' ڈیویلپمنٹ ایڈووکیٹ پاکستان‘‘ میں تحریر کردہ آرٹیکل میں پاکستان کے معاشی ماڈل سے متعلق رائے قائم کرتے ہوئے اس کی بنیادی طور پر دو وجوہ بیان کی ہیں۔ پہلی وجہ: پاکستان کی معاشی ترقی کے فوائد اشرافیہ تک محدود ہیں۔ دوسری وجہ: پاکستان اپنے ساتھ کے ملکوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ آزاد مارکیٹ‘ مضبوط حکومت‘ برآمدات پر مبنی معیشت‘ کم ٹیکس‘ کاروبار دوست پالیسیاں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ورک فورس بین الاقوامی سطح پر معاشی ماڈل کو جانچنے کے معیارات ہیں۔ معاشی ماہرین جب ان پیمانوں کی روشنی میں پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو انہیں ہمارا معاشی ماڈل ناکارہ لگتا ہے۔ ہم ذیل کی سطور میں انہی نکات کو تفصیل کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے حتیٰ کہ چند ماہ پہلے تک دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جا رہی تھیں مگر آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی پروگرام کا معاہدہ ہونے سے دیوالیہ قرار پانے سے بچ گئے مگر شدید ترین معاشی بحران کے باوجود ایک طبقہ ایسا ہے جس کے شاہانہ طرزِ زندگی پر کوئی فرق نہیں آیا ‘ یہ اشرافیہ کا طبقہ ہے جس کے بارے عام تاثر ہے کہ پاکستان کی معیشت پر اشرافیہ کا تسلط ہے۔ تقریباً ہر دور میں حکومتی اخراجات میں کمی کا دعویٰ کیا گیا لیکن زمینی حقائق اس کی نفی کرتے رہے۔ پی ٹی آئی دور میں کفایت شعاری کا بڑا غلغلہ مچا مگر حکومت سنبھالنے کے محض ایک سال بعد انکشاف ہوا کہ حکومتی اخراجات میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے ادوار بھی صرف اشرافیہ کیلئے موافق ثابت ہوئے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کو جانچنے کا بنیادی پیمانہ عام شہریوں کا معیارِ زندگی ہے‘ پاکستان کے عام شہریوں کے معیارِزندگی سے پسماندہ ملک کا گمان ہوتا ہے جبکہ اشرافیہ کا طرزِ زندگی اس تاثر کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں طبقۂ امرا سے ٹیکس لے کر غربا پر خرچ کئے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے۔ یہاں ٹیکس کا یکساں نظام ہے اورغریب شہری بھی ٹیکس دینے پر مجبور ہیں‘ ستم ظریفی یہ کہ یہاں مراعات یافتہ طبقہ کو ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے۔ آئی ایم ایف بھی اس کی نشاندہی کر چکا ہے‘ اس سال کے اوائل میں یو این ڈیویلپمنٹ پروگرام رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کی اشرافیہ سالانہ 17.4ارب ڈالر یعنی تقریباً 4250ارب روپے کی مراعات لیتی ہے۔کارپوریٹ سیکٹر ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 4.5فیصد یعنی 4.7ارب ڈالر کی مراعات حاصل کرتا ہے جس میں ٹیکس چھوٹ‘ صنعتوں میں بجلی‘ گیس پر سبسڈی شامل ہے۔ طبقہ اشرافیہ کے سرکاری خزانے سے مستفید ہونے کی ایک جھلک ملاحظہ ہو کہ پی ٹی آئی کے دور میں سٹیٹ بینک کی جانب سے 600 افراد کو تین ارب ڈالرز کے بلا سود قرضے دیئے گئے‘ یہ تمام لوگ طبقۂ امرا سے تھے۔
ترقی کو جانچنے کا دوسرا پیمانہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ ہوتا ہے۔ براعظم ایشیا میں کل 48 آزاد ممالک ہیں‘ اس کے علاوہ تین ایسے علاقے بھی ہیں جنہیں خود مختار ریاستوں کا درجہ نہیں دیا گیا‘ اگر وہ بھی شامل کئے جائیں تو یہ تعداد 51 بنتی ہے۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان ایشیا کے دس بڑے ممالک میں شامل ہے ‘تاہم ترقی کے اعتبار سے پاکستان ایشیا کے دس بڑے ممالک میں شامل نہیں۔ بھارت میں ڈالر 83 روپے کا ہے جبکہ پاکستان میں 281 روپے کا۔ پاکستان خطے کے ان ممالک میں شامل ہے جن کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے۔ دنیا کے ساتھ تجارت اور قرض کے معاملات چونکہ ڈالر میں طے پاتے ہیں اس لئے روپے کی قدر میں استحکام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں ڈالر بلند ترین سطح پر کیوں ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟ان اعداد و شمار کے ساتھ خطے میں ہمارا Survive کرنا نہایت مشکل ہو گا۔ اس کا قابلِ عمل حل اسی صورت نکالا جا سکتا ہے جب ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کی بجائے بہترین معاشی ماڈل ہو گا۔
موجودہ دور میں سنگاپور‘ سویڈن‘ سوئٹزرلینڈ اور چین کو دنیا کے بہترین معاشی ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ممالک آزاد مارکیٹ اور ٹیکس میں چھوٹ کا تصور پیش کرتے ہیں‘ باقی ممالک کو چھوڑیں چین تو ہمارے پڑوس میں ہے جس کے ساتھ دیرینہ تعلقات بھی ہیں لیکن ہم نے چین سے کچھ نہیں سیکھا کیونکہ متعدد بار اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں نے اپنا طرزِحکمرانی تبدیل کرنا گوارہ نہیں کیا۔ ہمارے نظام کی سب سے بڑی کمزوری شاید یہ ہے کہ اعلیٰ سطح پر طے پانے والے معاملات عملی شکل اختیار نہیں کر پاتے ہیں۔ درجنوں مثالیں ایسی پیش کی جا سکتی ہیں کہ حکومت نے منصوبوں کا اعلان کیا مگر وہ منصوبے پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ جبکہ اس ضمن میں بہترین ماڈل ہمیں چین کا دکھائی دیتا ہے‘ چین کی سینٹرل کمیٹی میں سمت کا تعین کر لیا جاتا ہے پھر نچلی سطح پر ان منصوبوں پر اس طرح عمل درآمد یقینی بنایا جاتا ہے کہ اندرون خانہ منصوبے کا ہوم ورک مکمل ہوتا ہے‘ ماہرین کے ساتھ کئی نشستوں کے بعد خاموشی سے منصوبے پر کام شروع کر دیا جاتا ہے لوگوں کو تب معلوم ہوتا ہے جب منصوبہ مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔ چینی ماڈل کی افادیت کا اندازہ گزشتہ بدھ اور جمعرات کو چین کی حکمران جماعت کی سنٹرل کانفرنس کے انعقاد سے لگایا جاسکتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کی صدارت میں منعقدہ اس اجلاس میں چینی خارجہ پالیسی اور اقتصادی پالیسیوں سمیت دیگر اہم حکومتی معاملات کا بغور جائزہ لیا گیا اور اب اختتام ہفتہ پر شی جن پنگ ان پارٹی اجلاسوں میں کئے گئے فیصلوں کے بارے میں اہم خطاب کریں گے۔ یہی خطاب متعلقہ سرکاری امور کیلئے حتمی روڈ میپ تصور ہو گا۔ بلاشبہ ہمارا سیاسی ڈھانچہ چینی کمیونسٹ پارٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتا مگر چینی حکمران جماعت‘ سرکاری اقتصادی اور خارجہ پالیسیوں سے سبق حاصل کرنا یا کم از کم چینی حکومت کی حکمت عملی کے مطالعے میں تو کوئی حرج نہیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت نے معاشی بحالی کیلئے عسکری قیادت سے مل کر کئی اہم اقدامات اٹھائے جنہیں نگران حکومت نے جاری رکھا اور کسی حد تک مثبت اثرات بھی آ رہے ہیں۔ سپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام دیر آید درست آید کے مصداق ہے‘ جس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔اس کونسل کے قیام سے بیرونی سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانا آسان ہو جائے گا۔اس سے قبل پاکستان میں بیرونی سرمایہ کیلئے ماحول سازگار نہ تھا اب ایس آئی ایف سی کے تحت سرمایہ کاروں کیلئے ون ونڈو آپریشن کی سہولت موجود ہو گی تو سرمایہ کار متوجہ ہوں گے‘ حکومتی دعوؤں کے مطابق سعودی عرب 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے تیار ہے ۔اسی طرح متحدہ عرب امارات‘ قطر ‘کویت اور چین سے بھی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ پانچ شعبے انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ توانائی‘ کان کنی‘ زراعت اور دفاعی پیداوار کونسل کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں شاید حکومتی اقدامات کا نتیجہ ہے کہ 13 دسمبر کو پاکستان سٹاک مارکیٹ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر 67 ہزار پوائنٹس کو تجاوز کر گئی تھی۔ پاکستانی معیشت کیلئے بظاہر یہ مثبت اعشاریے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا اس معاشی صورتحال کو تسلی بخش قرار دیا جا سکتا ہے ؟تو جواب ہو گا ہرگز نہیں کیونکہ ہم خطے کے دیگر ممالک کی نسبت نہایت تنزلی کا شکار ہیں۔بہترین معاشی ماڈل تشکیل دینے کیلئے ان مافیا کا خاتمہ ناگزیر ہے جس کا اظہار گزشتہ روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کیا ہے۔ یہ مافیا کون ہے جو ریاست سے بھی طاقتور ہے جب تک اس کا خاتمہ کر کے بہترین معاشی ماڈل تشکیل نہیں دیتے ہیں ہم ترقی کے اہداف پورے نہیں کر سکیں گے اور ہمارا معاشی ماڈل ناکارہ ہی کہلائے گا۔