"RS" (space) message & send to 7575

سالِ نو کے خواب

نئے سال کا دوسرا آفتاب اُفق پر نمودار ہو چکا ہے۔ یہ وہ لمحات ہیں جب ماضی کی کتاب بند ہوتی ہے اور مستقبل کا سفید صفحہ سامنے کھل جاتا ہے۔ جیسے ایک طویل سفر کے اختتام پر نئے راستے کی جانب قدم بڑھانے کا اشارہ ہو۔ یہ ماضی سے نکل کر مستقبل کی طرف دیکھنے کا وقت ہے۔ آئیے ان لمحات کو نئے عزم کے چراغ جلا کر‘ پرانے خوابوں کو تازہ کرکے خوش آمدید کہیں۔ گزشتہ سال کی کہانی ایک رنگین پینٹنگ جیسی ہے۔ جس کے کچھ رنگ خوشیوں سے بھرے ہیں اور کچھ غموں کے گہرے سایوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ کامیابیاں بھی ہیں‘ ناکامیاں بھی۔ لیکن ہر موڑ پر سیکھنے‘ سمجھنے اور خود کو تراشنے کا عمل جاری رہا۔ اب وقت ہے کہ ان تجربات کے نقوش کو سنبھال کر نئے سال کے سفر پر آگے بڑھیں کیونکہ نئے سال کا سورج نئے خوابوں کو جگانے کی طاقت رکھتا ہے۔ نئے سال کی آمد خوشیوں کی نوید اور عہدِ نو کا اعلان ہے۔ یہ پرانے وعدوں کو نئے عزم سے دہرانے کا لمحہ ہے‘ اپنے خوابوں کو کبھی مرنے نہ دیں اور زندگی کے کینوس پر کامیابی کا شاہکار تخلیق کرنے کا عزم کریں۔ چاہے وہ علم و فن کے میدان ہوں‘ پیشہ ورانہ منازل سر کرنی ہوں یا پھر رشتوں کے گنگناہٹ میں محبت کا سمندر بہانا ہو‘ ہر قدم پر محنت اور لگن ہمارا ہتھیار ہو اور یقین ہمارا ہمنوا بنے۔ خدا کرے‘ یہ نیا سال اہلِ پاکستان کیلئے امن‘ سلامتی اور خوشحالی کا سال ثابت ہو۔
2023ء میں پاکستان کو تین بڑے چیلنجز کا سامنا رہا۔ سیاسی عدم استحکام‘ معاشی عدم استحکام اور سکیورٹی کے مسائل۔ سیاسی عدم استحکام 2017ء سے جاری ہے جب میاں نواز شریف ایک عدالتی فیصلے کی تناظر میں اقتدار سے باہر ہوئے۔ مارچ 2022ء میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نے سیاسی عدم اعتماد کو مزید بڑھایا۔ یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ مارچ 2022ء کے آخر میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی تاہم عثمان بزدار نے استعفیٰ دے دیا اور حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے لیکن پنجاب کا ایوان سیاسی جماعتوں کے تنازعات کی وجہ سے اکھاڑے کا منظر پیش کرنے لگا۔ بالآخر سپریم کورٹ کی مداخلت سے مسئلہ حل ہوا۔ تحریک انصاف نے پورے ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے 14جنوری 2023ء کو پنجاب جبکہ 18جنوری کو خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کر دی۔ دو صوبوں کی حکومتیں ختم کرنے کے باوجود تحریک انصاف کو الیکشن کی تاریخ نہ مل سکی۔ سپریم کورٹ نے 14مئی 2023ء کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا لیکن انتظامی معاملات آڑے آئے اور مقررہ تاریخ کو الیکشن نہ ہو سکے‘ بالآخر سپریم کورٹ نے معاملہ سیاستدانوں پر چھوڑ دیا۔ بعدازاں 17ستمبر کو جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کے چیف جسٹس بنے تو سپریم کورٹ کے توسط سے الیکشن کی تاریخ کا معاملہ حل ہو گیا۔
نئے انتخابات کیلئے تحریک انصاف نے دو صوبوں کی حکومتیں ختم کیں‘ پورے ملک میں احتجاجی جلسے ہوئے لیکن 9مئی 2023ء کو پی ٹی آئی سے ایسی غلطی سرزد ہو گئی جس سے شاید کبھی بھی دامن نہ چھڑایا جا سکے۔ نو مئی کے واقعات سیاسی عدم استحکام کی انتہا تھے جب تحریک انصاف کے کارکنان دفاعی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک ایسا داغ ہے جسے شاید کبھی دھویا نہ جا سکے۔ اس واقعے کے بعد ملوث افراد کے گرد قانون کا گھیرا تنگ ہونا شروع ہوا۔ قیادت کی اکثریت نے پارٹی سے راہیں جدا کر لیں۔ تحریک انصاف سے مزید دو سیاسی جماعتیں استحکامِ پاکستان پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین بن گئیں جبکہ کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ اب 2024ء کے عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں جس کے کئی اہم مراحل مکمل ہو چکے ہیں تاہم آمدہ انتخابات ایسے ماحول میں ہونے جا رہے ہیں کہ بے یقینی کی صورتحال ختم نہیں ہو سکی ہے۔ تشنہ سوالات ہیں‘ پی ٹی آئی بطور جماعت کمزور ہے‘ اسے امیدواروں کے انتخاب میں مسائل کا سامنا ہے‘ لیڈر بھی جیل میں ہے لیکن پی ٹی آئی کا ووٹ بینک اب بھی برقرار ہے۔ حریف سیاسی جماعتوں کو جہاں یہ خدشہ ہے کہ اگر الیکشن والے دن یہ ووٹر باہر نکل آیا تو نتائج ان کے حق میں نہیں ہوں گے‘ وہاں اس بات کا خدشتہ بھی موجود ہے کہ الیکشن کے بعد بھی سیاسی عدم استحکام ختم نہیں ہو سکے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیاسی عدم استحکام صرف انتخابات تک ہے‘ عام انتخابات کے بعد حالات بہتر ہو جائیں گے۔
سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے کیونکہ منتخب حکومت کو مسائل کے حل کیلئے جو یکسوئی اور ماحول درکار ہوتا ہے‘ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں وہ میسر نہیں آتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ منتخب حکومت نان ایشوز میں اُلجھ کر رہ جاتی ہے۔ پاکستان کو جن معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اس کا مفصل ذکر ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں کیا تھا‘ غیرملکی قرضے ہماری معاشی مشکلات کی بڑی وجہ ہیں‘ قرضوں کا حجم کم کرنے کے بجائے ہر دور میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملا ہے یوں ہماری آمدن کا بڑا حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی کی نذر ہو جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ آئی ایم ایف کو دی گئی بریفنگ کے مطابق پاکستان کے قرضوں کا حجم اگست 2023ء کے آخر تک 63 ہزار 964ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ غیرملکی قرضوں کا حجم 24 ہزار 174ارب روپے اور مقامی قرضوں کا حجم 39 ہزار 791 ارب روپے ہے۔ گزشتہ ایک سال میں مجموعی قرضوں میں 14 ہزار 506ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ قرضوں کا بھاری حجم ہمارا مستقل مسئلہ ہے جس سے نجات کیلئے کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی تک کسی جماعت نے اپنی انتخابی مہم میں قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی مجوزہ حل پیش نہیں کیا ہے۔ ہمارے معاشی مسائل اس امر کے متقاضی ہیں کہ حکومت اور پوری قوم ایک پیج پر جمع ہو ں۔ معاشی بحران سے نجات کیلئے قرضوں سے نجات نہایت ضروری ہے۔
2023ء پاکستان کیلئے سکیورٹی چیلنجز سے بھرپور تھا۔ افغانستان سے ملحق مغربی سرحد‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں شدت پسند عناصر کی سرکوبی کیلئے سکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس آپریشن کے ذریعے اگرچہ بروقت اور تسلی بخش اقدامات کیے‘ ہزاروں کی تعداد میں انٹیلی جنس آپریشنز کیے گئے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد کمزور اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوتے رہے۔ خیبر پختونخوا کے انسدادِ دہشت گردی کے ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں 2023ء کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔ دہشت گردی کے 572واقعات رونما ہوئے جو گزشتہ تین برس کے دوران سب سے زیادہ ہیں۔ سب سے زیادہ 243 حملے پولیس پر ہوئے جس میں 184جوان اور افسران شہید جبکہ 408 زخمی ہوئے۔ پشاور پولیس لائنز پر خودکش حملہ سب سے بڑا حملہ تھا جس میں ایک سو کے قریب افراد شہید ہوئے۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔ ان خودکش حملوں میں 75فیصد افغان شہری ملوث تھے جس کے پیش نظر غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کی واپسی کا فیصلہ کیا گیا مگر اس فیصلے پر عبوری طالبان حکومت نے تحفظات کا اظہار کیا اور اپنی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے سے روکنے کے بجائے اُلٹا پاکستان پر الزام عائد کیا کہ افغانستان میں ہونے والے حملے پاکستان سے ہو رہے ہیں۔ مذکورہ تین چیلنجز نے بیتے سال پاکستان کو گھیرے رکھا۔ بہترین قومیں اپنے مشکل دور کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں‘اپنی مشکلات سے سیکھ کر نئی منازل طے کرتی ہیں۔ اگر ہم نے پچھلے سال سے کچھ سیکھا ہے تو نیا سال ہمارے لیے تبدیلی کا سال ہو گا‘ ورنہ نیا سال بھی بیتے سال جیسا ہی ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں